ہمیں اور کتنا گزارے گی تُو زندگی؟
ہم زمانوں کے بیتے ہوئے ہیں
ہمیں اور کتنا گزارے گی تُو زندگی ؟
دیکھ اس کائناتی تلذذ میں
بے شکل روحوں کی نادیدگی
اور جسموں کی لمسیدگی کی حقیقت ہی کیا ہے
خلا کی خلاؤں میں پیوستگی کی حقیقت ہی کیا ہے
محبت ذرا سی تسلی ہے
دو پل کا دھوکا ہے
کچھ دیر جینے کا، دو نین پینے کا، مِل بیٹھنے کا بہانہ ہے
اور اس بہانے سے، دھوکے سے جی لیں گے کتنا
دلوں میں جو آلودگی کی سیاہی بھری سو بھری ہے
جو ہونٹوں پہ سَم ہے وہ پی لیں گے کتنا
فضا در فضا آکسیجن سے خالی
ہواؤں کا ملبوسِ فرسودہ سی لیں گے کتنا
کہ سانسوں کے زندان میں ہم وہ قیدی ہیں
جن کی سزا کا تعین نہیں ہو سکا ہے
ازل سے یہی فیصلہ ہے جو لٹکا ہوا ہے
زمیں تو ہمارے مقدر کا وہ ذائقہ ہے
جسے چھوڑ سکتے نہیں ہم
کہ ہم ان مکانوں کے وہ لامکیں ہیں
جو صدیوں سے رہتے ہیں لیکن کہیں بھی نہیں ہیں
نہ سورج کی تاریخ میں ہیں
نہ جغرافیے میں ستاروں کے
ہم ارتقائی مسافر، کسی جینیاتی پہیلی کے کردار
سربستہ اسرار، جینے کے سرطان میں مبتلا
اپنے خلیوں کے خستہ مزاروں کے بوڑھے مجاور ہیں
ہم موت کے ساتھ زندہ ہیں، مرتے نہیں ہیں
ہمیں وقت ٹھوکر بھی مارے تو رستے سے ہٹتے نہیں ہیں
ہزاروں شبیہوں میں، سایوں میں بٹ کر بھی کٹتے نہیں ہیں
ہمیں اور کتنی اذیت سے مارے گی تُو زندگی؟
لامحالہ ہمیں اور کتنا گزارے گی تُو زندگی ؟
- مجھے یہ نظم نہیں لکھنی چاہیے تھی - 03/09/2023
- ہیلی کاپٹر - 27/08/2022
- مئی میں “دسمبر کی رات” اور کتابوں کی چھانٹی کا غم - 22/05/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).