مطلق العنان اختیار سے حماقت، ناانصافی اور غلطیاں ہی برآمد ہوتی ہیں


استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل ہونے والے صحافی جمال خاشقجی کے پاس خواہ کتنا ہی بڑا راز کیوں نہ ہوتا شہزادہ محمد بن سلمان پر اسکا کچھ اثر نہیں پڑ سکتا تھا۔ اپنی نوعیت کی یہ انوکھی اور لرزہ خیز واردات محض ایک صحافی کو نشان عبرت بنا کر دوسروں کو سبق سکھانے کے لیے تھی تو یہ سودا بہت مہنگا پڑ رھا ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کام کرنے والے جمالی شقجی سعودی عرب کے شاہی خاندان پر تنقید کرتے تھے۔ ان کا آخری کالم بھی اظہار رائے کی آزادی سے متعلق تھا۔ دو اکتوبر کو اپنی ترک منگیتر کے ہمراہ سعودی قونصل خانے میں کاغذات مکمل کرانے کیلئے گئے تو سکیورٹی حکام نے خاتون کو باہر ہی روک لیا۔ دن شام میں ڈھل گیا پھر رات ہو گئی، مگر واپس نہیں آئے۔

خاتون اپنے ملک کے اعلیٰ حکام سے رابطے میں تھی۔ بات اوپر پہنچی تو یہ انکشاف ہوا کہ صحافی کو اندر پہنچتے ہی جکڑ لیا گیا۔ کارروائی کرنے کیلئے آنے والا ٹولہ دوگروہوں پر مشتمل تھا جو اپنے خصوصی ہوائی جہازوں پر استنبول پہنچے تھے۔ ترک حکام کی روپورٹ کے مطابق جمال خاشقجی کو بے دردی کے ساتھ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے گئے۔ مقتول کی کلائی پر بندھا جدید ایپل فون باہر موجود اس کی ترک منگیتر کے موبائل فون سے منسلک تھا۔ اس کے علاوہ شاید کچھ اور ذرائع بھی تھے۔ ترک حکومت کے مطابق واردات کی تفصیل کی مکمل آڈیو ریکارڈنگ انکے پاس ہے۔ قتل کے اس سفاکانہ منصوبے سے سعودی قونصل جنرل محمد القیبی بھی لاعلم تھے۔

ترک اخبار کی رپورٹ کے مطابق آڈیو میں سنا جا سکتا ہے کہ مقتول کی چیخ و پکار اور پھر زخمی جسم پر الیکٹرانک آرا چلانے کے دوران قونصل جنرل یہ کہتے پائے گئے ”یہ کام باہر جا کر کرو تم لوگ مجھے بھی مشکل میں ڈال دو گے“ قونصل جنرل نے واردات کے چند روز بعد ہی استنبول چھوڑکر ریاض جانے میں عافیت جانی۔ ترک حکومت نے اس واقعہ پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے سعودی حکام سے وضاحت طلب کی تو دنیا میں بھونچال آ گیا۔ معاملہ تمام بین الاقوامی فورموں پر اس شدت سے اٹھا کہ امریکی صدر ٹرمپ کو بھی علانیہ کہنا پڑا کہ اس واقعہ میں سعود ی عرب ملوث ہوا تو سخت سزا دیں گے۔

ریاض میں ہونے والی بین الاقوامی سرمایہ کار کانفرنس خطر ے میں پڑ گئی۔ امریکہ سمیت دیگر ممالک کے بڑے بڑے سرمایہ کاروں نے سعودی عرب جانے سے انکار کر دیا۔ ترک صدر طیب اردگان نے سفارتی محاذ پر سخت موقف اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ فونصل خانے اور قونصل جنرل کی رہائش گاہ کی تلاشی پر بھی اصرار کیا۔ اور پھر ترک سکیورٹی اہلکار نے اندر گھس کر شواہد جمع کیے۔ ٹرمپ سعودی عرب کے ساتھ کھربوں ڈالر کے سودوں میں مصروف تھے۔ اسلحے کی بڑی ڈیل کے علاوہ تیل کی پیداوار بڑھانے کے معاملے پر بھی انہیں سعودی حکومت کی حمایت کی اشد ضرورت ہے۔ نومبر میں ایران کے تیل کی برآمد پر ممکنہ پابندیوں کے بعد تمام تر انحصار سعودی عرب پر ہی ہوگا۔ شاید اس لیے ٹرمپ اس قتل کے حوالے سے بیانات بدلتے ہوئے پائے گئے۔

اندرون ملک دباﺅ اس قدر بڑھا کہ ٹرمپ کو مجبور ہو کر شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے معاملات دریافت کرنا پڑے۔ اسکے ساتھ ساتھ یہ خبر بھی چلی کہ سعودی حکومت اس قتل کا اعتراف کرنے والی ہے۔ موقف کچھ ایسا ہو گا کہ قونصل خانے میں صحافی کے قتل کا کوئی پیشگی منصوبہ نہ تھا۔ مگر پوچھ گچھ کے دوران تفتیشی ٹیم میں شامل کسی اذیت پسند اہلکار نے مار مار کر ہلاک کردیا۔ شاہد یہ موقف امریکی ملی بھگت یا مشورے سے طے کیا گیا تھا۔ مگر تاحال ایسا اعتراف سامنے نہیں آیا کیونکہ اب تمام فریقوں کو اچھی طرح سے اندازہ ہو گیا ہے کہ معاملہ بہت سنگین بلکہ دھماکہ خیز ہوچکا ہے۔ اب ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے ترکی سے اس واردات کی آڈیو ریکارڈنگ مانگی اور ساتھ ہی یہ صفائی بھی دے رہے ہیں کہ وہ سعودی عرب کو بچانے کی کوشش نہیں کر رہے۔

پوری دنیا اس واقعہ پر اصل قصوروار ولی عہدشہزادہ محمد بن سلمان کو ٹھہرا رہی ہے۔ ترک حکام کے مطابق قاتل گینگ میں شامل ایک اعلیٰ اہلکار سعودی ولی عہد کا قریبی متعمد ہے۔ واردات کرنے والے کام مکمل ہونے کے بعد استنبول کے ہوائی اڈے پر کھڑے اپنے جہازوں میں بیٹھ کر واپس نکل گئے تھے۔ سعودی ولی عہد باقاعدہ بادشاہ بننے سے پہلے ہی کاروبار مملکت اپنے ہاتھوں میں لے چکے ہیں۔ وہ اس قدر طاقتور عالمی شخصیت ہیں کہ جب چاہیں مختصر نوٹس پر امریکہ اور روس کے صدور سے ملاقاتیں کر سکتے ہیں۔ علاقے میں جنگ کے فیصلے ہوں یا عالمی سطح کے معاملات ہر جگہ اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ان کے عزائم کیا ہیں۔ یمن جنگ، شام میں جہادی گروپوں کو عین وقت پر چھوڑ دینا، تیل کی پیداوار سے متعلق فیصلے، کرپشن کے نام پر شہزادوں سمیت امیر ترین سعودی شخصیات کی گرفتاریاں، امام کعبہ کو بھی جیل کی ہوا کھلا دینا، لبنان کے سعدالحریری کو حبس بے جا میں رکھنا، اس نوع کے دیگر واقعات محمد بن سلمان کے لیے عام سی بات ہے۔ ایسے میں امریکہ میں مقیم جمال خاشقجی جیسے صحافی ان کا کیا بگاڑ سکتے تھے؟

جس قسم کی تنقید کرلی جاتی ان کا کچھ بگڑنے والا نہ تھا۔ اپنی سر زمین سے ہزاروں میل دور استنبول کے قونصل خانے میں ”باغی“صحافی کا بہیمانہ قتل جس کی بھی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے اس نے ولی عہد محمد بن سلمان سے دوستی یا وفاداری نہیں نبھائی۔ عالمی سطح پر صرف حکمران طبقات ہی نہیں بلکہ فعال انٹر نیشنل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر کے لوگوں میں شدید منفی جذبات پیدا ہوئے ہیں۔ محمد بن سلمان تو دنیا کے امیر ترین اور بااثر ملک کے ابھی باقاعدہ بادشاہ نہیں بنے،انہیں تخت نشینی سے پہلے اور بعد میں کئی امتحانات سے گزرنا ہے۔ یوں تو وہ کئی بڑی غلطیاں کر چکے ہیں مگر کسی نہ کسی طور پر اصلاح یا تلافی کا موقع ملتا رہا۔ سعد الحریری کو جدہ میں یرغمال بنایا تو فرانس نے بیچ میں پڑ کر رہائی دلوائی۔ فیس سیونگ کا موقع بھی مل گیا۔ کرپشن اور احتساب کے نام پر سعودی شہزادوں، بن لادن گروپ سمیت نامی گرامی سرمایہ کاروں کو قید میں ڈالا تو پوری ملکی معیشت ڈانواڈول کر ڈالی۔ تیل کی پیداوار اور امریکی آشیر باد کے باعث اس بحران کو بھی اب تک کسی نہ کسی طرح رکھا ہے۔

قطر سے تعلقات خراب ہوئے تو ایک موقع پر ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ سعودی افواج کسی بھی وقت قطر میں داخل ہو کر امیر قطر کا تختہ الٹ دیں گی۔ ہو سکتا ہے کہ اس پلان پر بھی عمل ہو جاتا جس کے نتائج سامنے آئے، مگر عین وقت پر طیب اردگان ڈٹ کر کھڑے ہوگئے اور اعلان کر دیا کہ کسی کو قطر پر فوج کشی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سعودی عرب کا یہ متوقع حملہ محض اس لیے ٹلا کہ شاہی خاندان کو یقین تھا کہ قطر میں گھسے تو ترک فوج مقابلے کے لیے اتر آئے گی۔ اس طرح علاقہ ایک بڑی خرابی سے بچ گیا۔ ولی عہد محمد بن سلمان کے پے درپے اقدامات میں سے کئی ایک الٹ پڑ رہے ہیں۔ ایسی اطلاعات موجود ہیں کہ سعودی عرب کے اندر بھی ان کی جان کو سخت خطرات لاحق ہیں۔ امریکہ کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ولی عہد نے روسی صدر پیوٹن سے بھی اچھے تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ ٹرمپ نے ایک موقع پر جب یہ کہا کہ ہماری حمایت کے بغیر سعودی شاہی خاندان دو ہفتے نہیں نکال سکتا تو ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنی عوام کو مطمئن کرنے کے لیے جواب دیا ایسا کچھ نہیں۔ ہمیں عوام کی حمایت حاصل ہے اور ہمارا نظام بہت مضبوط ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ ہم امریکہ سے اسلحہ پیسہ دے کر خریدتے ہیں مفت میں کچھ نہیں لیتے۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے امریکی حکام کو اندرون خانہ یہ دھمکی آمیز پیغام بھی دیا کہ امریکہ نے غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا تو روس کو تبوک میں فوجی اڈا فراہم کیا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ سمیت امریکی فی الحال چپ ہیں۔ ولی عہد محمد بن سلمان کو خود احساس کرنا ہو گا کہ کوئی ایک غلطی بھی ان کی تخت نشینی کی منزل کے درمیان حائل ہو کر یہ سب کیے کرائے پر پانی پھیر سکتی ہے۔ بظاہر اب تک تو یہی لگ رہا ہے کہ امریکہ، ترکی اور سعودی عرب میں اس معاملے پر کسی حد تک سودے بازی ہو گئی ہے۔ ڈرامہ کچھ دیر چلے گا پھر پردہ گر جائے گا۔ لیکن اس واردات کے اثرات پوری طرح سے زائل نہیں ہوں گے۔ بعض اوقات تمام تر سودے بازیوں کے باوجود مکافات عمل کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).