عورت بکے تو طوائف، مرد بکے تو دولہا


انکوائری کی رسمی کارروائی کے بعد دھوم دھام سے منگنی کی گئی کہ بہت عرصے بعد گھر کو کوئی خوشی ملی ہے۔ لیکن ساتھ ہی لڑکے نے یہ تنبیہ کر ڈالی کہ دفتر میں اس بات کا کسی کو پتہ نہ لگے کیوںکہ لوگ یہ باتیں بنا سکتے ہیں کہ میری تنخواہ کم اور ہونے والی بیوی کی زیادہ ہے میں نے جان بوجھ کر یہاں رشتہ کیا ہے۔ وعدے کی پاسداری کی گئی لیکن منافقت کا آغاز یہاں سے ہوا کہ منگیتر کی جانب سے مجھ پر دباؤ بڑھتا گیا کہ میں اس کی ترقی کے لئے اپنے سینیئرز کو قائل کروں یہاں تک کہ اگر کچھ بھی کرنا پڑے تو کروں جبکہ یہ کسی طرح ممکن نہ تھا۔ میرے مزاج سے سب واقف تھے کہ میں دفتر میں کام سے کام رکھنے والی لڑکی تھی اور جب یہ با ت عیاں ہی نہ تھی کہ وہ میرا منگیتر ہے تو کیسے اس کے لئے بات کی جاتی۔

میں نے کس سے بات کی، سینئرزنے میرے کام کی تعریف سب کے سامنے کیوں کی؟ ڈارک لپ اسٹک کیوں لگائی، سیاہ یا سرخ رنگ کا جوڑا کیوں پہنا؟ کس کا فون آیا؟ فلاں میرے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے؟ فون اٹینڈ کیوں نہیں کر رہی تھی؟ دفتر میں آفس بوائے میرے آنے سے قبل ہی میری ڈیسک پر چائے، اخبار کیوں رکھ دیتا ہے۔ یہ سب باتوں کا حساب کتاب لیا جانے لگا یہاں تک کہ میرے پیٹھ پیچھے لوگوں سے میرے آنے جانے اور کردار کے بارے میں معلومات اکھٹی کی جاتی رہیں کہ کوئی افئیر یا سکینڈل نکالا جاسکے۔

جب کہ دوسری جانب مجھے اپنی ترقی کی سیڑھی بنانے کے لئے خوشامد کی جاتی رہی۔ شادی کا مقررہ وقت جب قریب آیا تو جواب دیا گیا کہ میں ابھی سیٹل نہیں ہاں اگر جلدی ہے تو خرچہ تم کرلو بعد میں، میں لوٹا دوں گا۔ میرے گھر والوں کے سامنے کہا جاتا تھا کہ شا دی کے بعد نوکری کی ضرورت نہیں اور مجھے با توں باتوں میں بتایا جاتا کہ تمہاری نوکری بیحد ضروری ہے۔ ایک دن مجھ سے سوال کیا گیا کہ زمانے سے نوکری کر رہی ہو شا دی پر الگ فلیٹ اور گاڑی لازمی ہونی چائیے تمہارا ہی مستقبل محفوظ رہے گا۔

اس بات نے مجھے بولنے پر مجبور کردیا۔ میں نے گھر یہ فر مائش بتائی تو والدہ نے کہا کہ یہ زیادتی ہے۔ جب خاندانوں میں بات کی گئی تو موصوف آپے سے باہر ہوئے اور کہا کہ آپ کی بیٹی مردوں کے ساتھ کام کرتی ہے، آزاد اور خود مختار ہے ایسی لڑکیوں کے ساتھ کون گھر بساتا ہے میں تو پھر شادی کر رہا ہوں اگر اسی کے بھلے کو یہ کہہ دیا تو کون سی قیامت آگئی۔ گھر والوں نے جب ایسا مزاج دیکھا تو رشتہ ختم کردیا۔

اب میرے گھر والوں کو لوگ یہ احساس دلا رہے ہیں کہ آپ کی بیٹی کو حد سے زیادہ خود اعتمادی نے ڈبو دیا۔ اب اس کا کوئی رشتہ نہیں آئے گا۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ کہ کسی نے آج تک ان لڑکے والوں کو یا ان کے گھرانوں کو کچھ نہیں کہا جن کی تربیت میں کمی رہ گئی۔ مجھے سننے کو ملا کہ میرے باپ نے میری تربیت لڑکوں کی طرح کی مجھے نڈر، بے خوف بنایا۔ میں اس بات کو تسلیم بھی کرتی ہوں اور خوش بھی ہوں۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج میں ان مردوں کی ہوس اور میرے ذریعے کچھ پانے کی قیمت چکا رہی ہوتی۔ میں آج اپنی زندگی سے مطمئن ہوں مانا کہ مرد کا سہارا بہت بڑا ہوتا ہے لیکن اگر وہ مرد ہو تو۔ افسوس میرے حصے میں جو مرد آئے انھوں نے یا تو خود کو بیچنا چاہا یا میری قیمت لگانے کی کوشش کی جسے میں نے مسترد کردیا۔

مجھے تاقیامت ایک فلم کا وہ ڈائیلاگ ہمیشہ یاد رہے گا کہ ”عورت اگر خود کو بیچے تو طوائف اور اگر مرد خود کو بیچے تو دولہا“۔ لیکن ہمارا معاشرہ کبھی مرد کو برا نہیں کہتا ساری ذمہ داری عورت پر عائد کردی جاتی ہے کہ اب اس کا کیا مستقبل ہوگا کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ مجھے آج تک محسوس ہوتا ہے کہ مجھے کیا بنائے جانے کی کوشش کی گئی، کیا سمجھا گیا؟ کیا یہ تذلیل کے زمرے میں نہیں آتا؟ لوگوں کی نظر میں شاید میں ”بیچاری“ ہوں گی لیکن میں جانتی ہوں کہ ان جیسے مردوں کے بغیر میں نے بہت کچھ پایا ہے اور آج آسودہ ہوں ہاں کبھی کبھی جب یہ یاد آئے تو افسوس ضرور ہوتا ہے۔

سدرہ ڈار

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سدرہ ڈار

سدرہ ڈارنجی نیوز چینل میں بطور رپورٹر کام کر رہی ہیں، بلاگر اور کالم نگار ہیں ۔ ماحولیات، سماجی اور خواتین کے مسائل انکی رپورٹنگ کے اہم موضوعات ہیں۔ سیاسیات کی طالبہ ہیں جبکہ صحافت کے شعبے سے 2010 سے وابستہ ہیں۔ انھیں ٹوئیٹڑ پر فولو کریں @SidrahDar

sidra-dar has 82 posts and counting.See all posts by sidra-dar