قانون توہین مذہب اور اقلیتی خواتین



اسلامی جمہوریہ پاکستان کا شمار ان ترقی پذیر ممالک میں ہے کہ جہاں باوجود اکیسویں صدی میں سانس لینے کے آج بھی نمناک آنکھوں کے ساتھ لڑکیاں بالیاں یہ بول دھراتی ہیں۔
اب جو کہو ہو داتا ایسا نہ کیجیو
اگلے جنم موہے بیٹا نہ کیجیو
اس اداس خواہش کی وجہ کوئی انہونی نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ دنیا کے ترقی پذیر معاشروں کی طرح پاکستان کے جاگیردارانہ نظام کی چکی میں پسنے والی عورتوں کی حیثیت بھیڑ بکریوں کے ریوڑ سے زیادہ نہیں۔ اس کو اپنی کم مائیگی کا احساس کبھی ناک کاٹ کے، کبھی چہرے پہ تیزاب پھینک کے، چکلوں میں نچوا کے، قرآن سے شادی کرا کے تو کبھی مردوں کے مقابلے میں تعلیم اور صحت جیسے بنیادی حقوق سے محروم کر کے مسلسل ہی کرایا جاتا رہا ہے۔ صاحبِ ثروت خاندان کی خواتین پر آزمائے جانے والے حربے غریب عورتوں سے روا سلوک سے کچھ مختلف ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہدف سب کا ایک ہی ہے۔ عورت کی بے توقیری اور ہزیمت۔۔۔۔۔۔ اب ایسے سماج میں عورت کا تعلق اگر اقلیتی طبقہ سے بھی ہو تو اس پر ہونے والا تشدد دو دھاری تلوار کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مذہب کی آڑ مي ں اس وقت اقلیتی طبقہ کی خواتین کے ساتھ جو سلوک روا ہے۔اس نے انسانی تاریخ میں ایک بدترین باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ اور اس کی جتنی بھی مذمت ہو کم ہے۔ چند واقعات ملاحظہ ہوں۔
صوبہ سندھ کی ربیکا مسیح نوجوان ہیلتھ ورکر جو دو اکتوبر 2012 کو کچھ افراد کے ہاتھوں اغوا کر لی جاتی ہے اور پھر جبری طور پر مذہب تبدیل کروانے کے بعد مسلمان مرد منظر ڈبر کو بیاہ دی جاتی ہے۔ باوجود اس دُھائی کے جو اس کے باپ یونس مسیح نے پولیس کے سامنے مچائی اور جو آج بھی اپنی بیٹی کے لیئے انصاف کا طالب ہے۔
24 فروری 2012 کو صبح چار بجے ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی انیس سالہ رنکل کماری کو صوبہ سندھ کے جنوب میں واقع گھر سے غنیمت کا مال سمجھ کر اس بدحواسی میں اٹھایا گیا کہ اس کی ایک جوتی اور دوپٹہ گھر کی چوکھٹ پر ہی رہ گیا۔ بعد میں میر پور ماتھیلو کی عدالت میں کلمہ پڑھانے کے بعد رنکل کو فریال شاہ بنا کے اسے ماں باپ کی دسترس سے دور کر دیا گیا۔ جو رو رو کے انصاف کی بھیک مانگ رہے تھے۔ واضح ہو کہ سندھ میں درگاہ بھرچونڈی، ہندو آبادی کی عورتوں کو مسلمان بنانے کا فریضہ عبادت کی طرح انجام دے رہی ہے۔ اور رنکل کے علاوہ بھی آشا، لتا، ارونا، دیوی، بھگونتی اور جانے کتنی معصوم ہندو مذہب کی نوجوان لڑکیوں کو کلمہ گو بنا چکی ہے۔
16 اگست 2012 کا واقعہ ہے ڈاؤن سینڈروم (ایک ذہنی بیماری کی شکل)میں مبتلا چودہ سالہ رمشا مسیح پر توھین رسالت کی خلاف ورزی کا الزام خود اس کے محلے کے امام نے یہ کہہ کر لگایا کہ رمشا قرآنی صفحات کو جلانے کے جرم کی مرتکب ہوئی ہے۔ یہ بچی اس ناکردہ گناہ پر پولیس کی تحویل میں دے دی گئی۔ یہ بات اور ہے کہ بعد میں یہ الزام غلط ثابت ہوا اور نومبر میں رمشا پر عائد الزام ختم کیا گیا۔

آسیہ بی بی پنجاب کے ضلع شیخو پورہ کے گاؤں میں رہنے والی کھیتوں میں کام کرنیوالی بیالیس سالہ غریب عورت ہے کہ جس کی زندگی نے 14 جون 2009 کو اس وقت تکلیف دہ موڑ لیا کہ جب اس کے ساتھ کام کرنے والی عورتوں نے اس کے ہاتھ سے لائے ہوئے پانی کو یہ کہہ کر پینے سے انکار کر دیا کہ عیسائی ہونے کی وجہ سے اس کے ہاتھوں کا لایا ہوا پانی نجس ہے۔ اس سلسلے میں ہونے والی تکرار بظاہر ختم ہو گئی تھی لیکن کچھ عرصہ بعد محلے کے اسلام پسند افراد نے آسیہ پر توہینِ مذہب کے قانون کی خلاف ورزی کا الزام لگایا۔ آج ساڑھے آٹھ سال بعد بھی پانچ بچوں کی ماں کال کوٹھری میں اپنی قسمت کے فیصلہ کی منتظر ہے۔اس کی سزائے موت کا فیصلہ التوا میں ہے۔

تشدد کے ان واقعات میں اگر غیر مسلم خواتین کو اغوا کر کے زبردستی مسلمان بنا لینے کا شرمناک عمل مذہبی دہشت گردی کی دلیل ہے تو آسیہ بی بی اور کم عمر ذہنی پسماندہ رمشا پر عائد کیے جانے والے الزامات پاکستان کی شریعت کورٹ کے متنازعہ توہین مذہب کے قانون کے تحت جرم میں ملوث کرنے کی کوشش۔
یہ قانون جو 295 سی توہین مذہب کے نام سے نافذ ہے 17 جون 1986 کو قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ نے ایک تحریک استحقاق کے ذریعے متعارف کروایا تھا۔ جس کا مقصد پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز زبان کے خلاف قانون سازی تھا۔ جلدی میں پاس ہونے والے اس بل کے نتیجہ میں اس جرم کی سزا عمر قید یا سزائے موت ہے۔ قانون میں شامل ہونے کے بعد سے آج تک چالیس افراد کا قتل ہو چکا ہے۔ جبکہ وفاقی شریعت کورٹ نے ان افراد پر ایسا کوئی الزام نہیں لگایا تھا۔قومی کمیشن برائے امن و انصاف کی نبیلہ فیروز بھٹی کے مطابق 1987 سے 2013 کے دوران 1170 افراد پر اس قانون کے جرم میں مقدمات چلائے جا چکے ہیں۔ جن میں 27 مسلمان، 457 احمدی، 158 عیسائی، اور ہندوؤں کی تعداد 20 ہے۔ گو عدالت کے فیصلہ کے نتیجے میں کسی کو سزائے موت نہیں ہوئی۔ تاہم لوگوں نے قانون کو ہاتھ میں لے کر قتل کا ارتکاب ضرور کیا ہے۔ اس وقت محض پنجاب میں 90 کیسز ٹرائل پر ہیں اور لوگ جیلوں میں بند ہیں۔
ان چند واقعات سے اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ موجودہ پاکستان میں اقلیتوں بالخصوص عورتوں کے لیئے ”پاک سر زمین” قید خانہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ جہاں اقلیتی فرقہ کے افراد جبرا زندگی جھیل رہے ہیں۔
پاکستان کی سترہ کروڑ کی آبادی میں اس وقت تخمینا 80 لاکھ اقلیتی غیر مسلم آبادی ہے جو عیسائی، ہندو، احمدی، سکھ، پارسی وغیرہ پر مشتمل ہیں۔ ان میں اکثریت ہندوؤں اور پھر عیسائیوں کی ہے۔
90 فیصد اقلیتی آبادی سندھ اور پنجاب کے صوبوں میں رہتی ہے اور اکثریت معاشی بدحالی، کم خواندگی اور مذہبی تفریقی رویہ کی بنا پر خوف اور سراسیمگی کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ اقلیتی فرقوں کے ساتھ دہشت گردی کا عمومی رویہ اور نوجوان خواتین کے ساتھ اغوا اور زبردستی کلمہ پڑھا کر اسلام کے دائرہ میں داخل کرنے کا جبری اور ظالمانہ رویہ تشویشناک صورت اختیار کر چکا ہے۔ بالخصوص نچلی ذات کے ہندو اور عیسائی افراد کے ساتھ۔
پاکستانی عدالتوں میں انصاف کا معیار یقینا وہ نہیں جو عالمی طور پر انسانی حقوق کے لئے متعین ہے۔ لہذا ایسے تمام واقعات میں عدالت کا کردار انصاف کے حصول کے لئے بے معنی ہے جو جبری طور پر مذہب قبول کرنے کے واقعات کو ہوا دے رہا ہے۔
جنوبی ایشیا کے ممالک میں ثقافتی طور پر عورت کا درجہ، اس کی خود مختاری، خود اعتمادی اور آزادی کو سلب کیا جاتا ہے۔ جو اس کی غربت اور استحصال کا باعث ہے۔ اقلیتی فرقہ کی عورت اس دھرے جبر اور استحصال کا شکار رہی ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں عورتیں اور مردوں کے حقوق مساوی ہیں مگر اس کی عملی صورت کہیں نظر نہیں آتی۔ اگر مسلمان عورتوں کے ساتھ یہ سلوک ثقافت و مذہب کی آڑ میں روا ہے تو اقلیتوں کے ساتھ تعلیم، ملازمت اور قانونی حق رائے دہی کے استحصال کی صورت۔ غرض ہر محاذ پر ایک جنگ کی صورتحال کا سامنا ہے۔
اس ضمن میں نیشنل کمیشن آف جسٹس اینڈ پیس رپورٹ کا حوالہ اہم ہے کہ جس میں اقلیتی خواتین کی زندگی کا جائزہ انٹرویوز کی صورت میں لیا گیا ہے۔ یہ تحقیقی کام لاہور بیسڈ نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس (جو انسانی حقوق کی حمایتی، آزادانہ کام کرنے والی آرگنائزیشن ہے۔) اور پاکستان کے کیتھولک چرچ کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ کمیشن نے ایک ہزار ہندو اور عیسائی خواتین سے سترہ سوالات پوچھے۔ ان میں سے آدھی خواتین کا تعلق سندھ کے اٹھارہ اضلاع سے اور باقی کا پنجاب کے آٹھ اضلاع سے تھا۔ (واضح رہے کہ 90 فیصد ہندو اور عیسائی ان دو ہی صوبوں میں بستے ہیں۔) اس رپورٹ کے مطابق 43 فیصد اقلیتی عورتیں نوکریوں، تعلیمی اداروں اور سماجی اداروں میں مذہبی تفریق کا شکار ہیں۔
76 فیصد خواتین کو کام پر جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ جو کہ عموما صاحبِ حیثیت گھرانوں میں قلیل اجرت پر کام کرنے والی گھریلو ملازمہ ہوتی ہیں۔ ان خواتین میں تعلیم کا تناسب 47 فیصد ہے۔ جو کہ قومی تعلیمی تناسب 57 فیصد سے خاصہ کم ہے۔ یہی حال ان کے نوزائیدہ بچوں کے مرنے کی شرح میں بھی ہے۔ جو 0.3 فیصد ہے جس کے مقابلے میں قومی تناسب 8.7 فیصد ہے۔ سوالات کا جواب دینے والی ایک تہائی خواتین نے بتایا کہ اگر وہ مذہبی رسومات کے حوالے سے کچھ کریں تو انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔19 فیصد کے مطابق مسلمانوں کی اکثریت ان کو اپنے ساتھ کھانا کھانے کی اجازت نہیں دیتے۔
رپورٹ نے پاکستانی قوانین پر تنقید کی ہے کہ جو اقلیت کے لیے کاغذی حد تک ہیں۔ 1947 سے ان کے قوانین پر کبھی نظر ثانی کی زحمت نہیں کی گئی۔ مثلا
1869 کا عیسائی طلاق ایکٹ جس میں عورتوں کو برابری کی بنیاد پر نہیں رکھا جاتا اب بھی نافذِ عمل ہے۔رپورٹ نے اقلیتوں کے حقوق پر زور دیا بالخصوص قانون اور انصاف سے متعلقہ اداروں میں اقلیتی نمایندوں کی تعداد بڑھانے کی سفارش کی۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ 104 سینٹ ممبرز میں اقلیتوں کے محض چار نمائندے اور قومی اسمبلی میں 342 کی تعداد میں اقلیتوں کے 10 نمائندے ہیں۔ جو کسی بھی طرح آواز اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے۔
موجودہ صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ اقلیتوں کے خلاف نفرت و تعصب کی فضا ختم کرنے کے فوری قوانین نافذ ہوں۔ اور ان کا اطلاق بڑے زور وشور سے حتمی بنایا جائے۔
توہین مذہب کے قانون پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔ کہ جس میں ذاتی دشمنیوں اور نفاق کی بنیاد پر قانون کی آڑ مي ں جھوٹے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ عتاب کا نشانہ بننے والوں میں اکثریت اقلیتی مذاہب کے افراد کی ہے۔ گو پینل کوڈ نومبر 2009 میں ترمیم کے تحت عورتوں کو کسی نجی یا عوامی ملازمتی مقام پر ہراساں کرنا جرم ہے۔ یا گھریلو تشدد کے خلاف بھی بل لکھا جا چکا ہے تاہم اس کا اثر ابھی اقلیتی قوانین پر لاگو ہونے اور مثبت انداز میں اثرپیدا کرنے میں وقت درکار ہے۔ تاہم محض قوانین اس تشدد کو ختم کرنے میں کافی نہیں۔ اس کو مٹانے کے لئے معاملے کی گہرائی میں ڈوبنا ضروری ہے اور ایسے اقدامات کیے جائیں کہ جو فکری تبدیلی کا مظہر ہوں۔مثلا
1۔ مذہبی اقلیتی بچیوں کی تعلیم کا فروغ اور ان کو ہنر سکھانے کے ادارے ہوں۔
2۔ ان کی صحت کے لیے ادارے تشکیل دیے جائیں۔
3۔ خواتین کو طاقت دینے کے لیے چھوٹے قرضوں کی سہولت مہیا کی جائے تاکہ وہ معاشی طور پر خود کفیل ہوں۔
4۔ عورتوں کا جنسی استحصال نہ ہو اور ان کی شنوائی میں حکومتی ادارے توجہ دیں۔
5۔ غریب افراد کی شکایت پر ایف آئی آر درج کرنے میں پولیس تامل اور پس و پیش سے گریز کرے۔
6۔ اغوا کی وارداتوں پر سختی ہو اور فوری سزا کا اطلاق ہو۔
7۔ تعلیم کی فراہمی یقینی بنائی جائے تاکہ غریب بالخصوص نچلے طبقہ کی غریب ہندو اور عیسائی عورتیں غربت کے چکر سے نکل کر اعلی اجرت والی ملازمتیں بھی کر سکیں۔
کسی بھی معاشرہ کو اس وقت تک ترقی یافتہ نہیں کہا جا سکتا جب تک کہ اس کی آدھی دنیا یعنی عورتوں کو طاقت نہیں دی جاتی۔ اقلیتی مذاہب کی خواتین بھی اسی دنیا کا حصہ ہیں۔ اور ان کو عزت دینا اور ترقی کی دوڑ میں شامل کرنا ضروری ہی نہیں بلکہ انصاف کا اہم تقاضہ بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).