آزادیِ اظہار کا قتل


تاریخ گواہ ہے کہ عوام کے جاننے اور اظہارِ کے حق پر پاپندی سے معاشرے ذہنی طور پر مفلوج ہو جاتے ہیں۔ اگر عوام سے حکومت کے اقدامات اور سرگرمیوں کی آگاہی چھین لی جائے تو معاشرے میں ان کا کردار منجمد ہوجاتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے جمہوری معاشرہ ہو یا بادشاہی نظام حکومت، حکومتی افسران و اہلکا، ر اطلاعات کو اپنی ملکیت تصور کرتے ہیں اور جو کوئی اس راہ میں رکاوٹ بنے اسے سخت سے سخت سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور ایسا ہی کچھ حال ہی میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے معاملے میں ہوا جسے حکومتی اقدامات پر تنقید کرنے کی پاداش میں پہلے اپنے ملک سے جبری ہجرت اختیار کرنی پڑی پھر دیار غیر میں جلا وطنی کے دوران بے دردی سے قتل کردیا گیا۔

سعودی عرب کے بادشاہی نظام میں آزادی اظہار پر شدید پابندی ہے۔ ذرائع ابلاغ حکومت کے حکم کا تابع ہے۔ حکومت مخالف بولنے والوں کا سر قلم کرنے کا حکم جاری کیا جاتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ سعودی عوام کا ذہن اتنا ہی تنگ ہے اور وہ ترقی کی جستجو کا اظہار اس طرح سے نہیں رکھتے جیسے دوسرے جمہوری ممالک کی عوام میں دیکھا گیا ہے۔ جمال خاشقجی کا شمار سعودیہ کے مایہ ناز صحافیوں میں ہوتا تھا۔ خاشقجی واشنگٹن ٹائمز میں کالم نگار اور العرب نیوز کے مینیجنگ ایڈیٹرتھے جنہیں 2017 میں اس انکشاف پر کہ ’یمن پر سعودیہ عرب نے حملہ امریکہ کے کہنے پر کیا ہے‘ کے بعد جلاوطنی اختیار کرنی پڑی اور یوں خاشجقی نے ترکی میں رہائش اختیار کی اور اپنے قلم کے ساتھ وفا کا سلسلہ جاری رکھا۔

گڈ گورننس جمہوری حکومتیں اس بات کو کبھی ہضم نہیں کرتیں کہ ان کی کا پول عوام اور دنیا کے سامنے کھول دیا جائے۔ طاقت کے نشے میں چور آلِ سعود کی بادشاہت تو پھر بد مست ہاتھی کی طرح ہے جو سب کچھ اپنے پیروں تلے روندنے کے در پر رہتے ہیں وہ کیسے جمال خاشقجی کے قلم کے سچ کو برداشت کرتے لہذا ایک عرصے سے وہ اس تاک میں تھے کہ کیسے سعودی حکومت پر کھل کر تنقید کرنیوالے جمال خاشقجی کو راستے سے ہٹایا جائے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ایما پر جمال خاشقجی پر مکمل نگاہ رکھنے کا حکم دیا گیا۔ یوں دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی عرب کے قونصل خانے میں ذاتی نوعیت کے کچھ ضروری کاغذات کے حصول کے لیے جانے والا صحافی جمال خاشقجی واپس نا آسکا۔

پہلے پہل تو سعودی قونصل خانہ اس بات کی تردید کرتا رہا کہ صحافی ان کے پاس ہے لیکن ترک حکومت آڈیو اور ویڈیو کی صورت میںیہ ثبوت حاصل کر چکی تھی کہ سعودی قونصل خانے میں جمال خاشقجی کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا۔ معروف سعودی صحافی کے قتل کے حوالے سے اب تک سامنے آنے والے ترک میڈیا کے انکشافات کے مطابق جمال خاشقجی کو پہلے ایسا انجکشن دیا گیا جس سے وہ بولنے کے قابل نا رہا پھر اس کی انگلیاں کاٹی گئیں پھر ہاتھ اور پھر مکمل جسم یہاں تک کہ مقتول کی شناخت چھپانے کے لئے اس کے چہرے کی کھال بھی اتار لی گئی۔

دنیا میں قیامت سے پہلے قیامت کا منظر ہے ظلم اور جبر کی جس حد کو سعودی حکومت پھلانگ چکی ہے یقیناً یہ ظلم آلِ سعود کو لے ڈوبے گا۔ جمال خاشقجی نے ایک جگہ لکھا ’میں نے اپنا گھر، فیملی، اپنا کام سب چھوڑا اور میں اپنی آواز بلند کررہا ہوں اس کے برخلاف کام کرنا ان لوگوں کے ساتھ غداری ہوگی جو جیلوں میں پڑے ہیں میں بول سکتا ہوں۔ عوام بول بھی نہیں سکتے میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ سعودی عرب ہمیشہ ایسا نہیں ہم سعودی اس سے بہتر کے حقدار ہیں‘

یہ ایک صحافی کے وہ الفاظ ہیں جن میں فقط اس بات کی جھلک نمایاں ہے کہ کس طرح وہ اپنے ملک اور عوام کی بہتری کے لئے کام کرنا چاہتا ہے اور اپنا سب کچھ قربان کرچکا ہے۔ لیکن افسوس اسے سچ کی سزا میں اپنی جان کی بازی ہارنی پڑی۔ جمال خاشقجی کی گمشدگی پرآنکھیں چرانے والا سعودی کونسل خانہ عالمی دباؤ کے پیشِ نظر اس بات کو قبول کرنے پر مجبور ہوگیا کہ صحافی کی موت سفارت خانہ میں ہی ہوئی ہے جو کہ وہاں موجود افراد سے تلخ کلامی اور پھر لڑائی کی صورت میں ہوئی۔ ظاہر ہے سعودی حکومت نے اپنے اہلکاروں کی درندگی کوچھپانے کے لئے کوئی کہانی تو سامنے لانی ہی تھی سو چند لوگوں کو قصور وار ٹھہرا کر گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جارہی ہیں اور ڈھکوسلے بازیوں سے بھر پور بیانات بھی دیے جارہے ہیں۔

دنیا میں امن کا ٹھیکداربننے والا امریکہ ہمیشہ کی طرح معاملے میں کود کرعالمی سطح پر اپنی ساکھ کو قائم رکھنے کے لئے اس سارے قصہ کے سامنے آتے ہی سعودی حکومت کو صحافی کی ہلاکت پر بد ترین نتائج کی دھمکیاں دیتا ہے۔ اور آخری اطلاعات تک سعودی حکومت کے بیان آنے کے بعد ٹرمپ کہتے ہیں کہ ہم صحافی کی ہلاکت پر سعودی حکومت کے موقف سے مطمئن ہیں اور سعودیہ سے تمام تر تعلقات پہلے کی طرح ہی قائم رہیں گے۔ ظاہر ہے ترک حکومت کے واویلے کے بعد عالمی برادری کو دکھانے کے لئے کچھ تو کرنا تھا سو باقاعدہ منصوبہ بندی سے تمام کام کیا گیا اور یقیناًاب یہ قصہ پارینہ بن جائے گا۔ ظلم کو دباکر نشے کا جام بخوشی ہونٹوں پر لگانے والے شدید غلط فہمی کا شکار ہیں کہ قصہ ختم ہوا۔

درحقیقت قصہ ختم نہیں ہوا یقیناً سعودی عوام کے دلوں میں انقلاب کا بیج بو گیا ہے جس کے تناور درخت کا پھل آلِ سعود جلد کاٹے گی۔ کسی کے بیانیے سے اس حد تک خوف زدہ ہونا کے اسے مصائب قید وبند میں مبتلا کردو یا جینے کا حق ہی چھین لو کا اصول انسانی تمدن کی تاریخ کے ساتھ ہی ظلم اور بربریت کی داستانیں لیا ہوا ہے۔ کمال خاشقجی کا معاملہ ایک بادشاہی نظام میں رونما ہوا کیا جمہوری نظام بھی اسی ظلم کا تابع رہا ہے؟ یہ ایک سوال ہے عالمی سطح پر نظر دوڑائی جائے تو مضمون کی طوالت کا خدشہ ہے ہم اپنے دیس کی ہی بات کرتے ہیں جہاں کتنے ہی صحافیوں کو قیام پاکستان کے بعد سے اب تک موت کے گھاٹ اتار دیا گیا یا لاپتہ کیا گیا، ہراساں کیا گیا اغوا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

مستند نظریہ ہے کہ جمہوری نظام ہی کسی ملک کو خوشحالی کی طرف گامزن کرسکتا ہے۔ عوام کے جاننے کا حق اور اس کے اظہار کا معاملہ جمہوری اداروں کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ منسلک ہے۔ قائد اعظم نے اپنی سیاسی زندگی کا بیشتر حصہ انسانی حقوق اور آزادی صحافت کی جدوجہد میں صرف کیا اِس بناء پر امید تھی کہ قائد اعظم کی جدوجہد کے نتیجے میں قائم ہونے والے ملک پاکستان میں انسانی حقوق کا مکمل احترام کیاجائے گا۔ لیکن ہماری بیورو کریسی اور آمروں نے کبھی بھی عوام کے جاننے کے حق اور آزادی اظہار کو تسلیم نہیں کیا۔ اور اس کی بدترین مثال فیصل رضا عابدی کو اڈیالہ جیل راولپنڈی کی تاریخی کوٹھڑی میں ڈالنے کی صورت میں دنیا کے سامنے عیاں ہوچکی ہے۔ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل کس قانون کے تحت بھیجا گیا یہ بھی ہماری سمجھ سے باہر ہے، ظاہر ہے یہاں کچھ بھی ممکن ہے۔

محفوظ صرف وہ ہے جو بڑے سرکار کی جی حضوری میں نعرے بلند کرتا رہے اب چاہے وہ خود اعترافِ جرم ہی کیوں نا کر لے یا دنیا چیخ چیخ کر کہتی رہے کہ آپ کے پاس فلاں دہشت گرد پر سکون زندگی گزار رہا لیکن پھر بھی یہ کالا قانون یہ نظام اسے تحفظ اور عزت فراہم کرتا رہے گا۔ قیامت تو اس پر ٹوٹتی ہے جو اپنی زبان پر سچ لائے اور اس سچ کے سودے میں کسی قسم کے مفاد کو پیش نظر نا رکھے۔ اور یہی کچھ فیصل رضا عابدی کے ساتھ ہوا۔ یہاں سوال اظہار رائے کے ساتھ ساتھ جراتِ اظہار کا بھی ہے۔ پاکستان کی تمام حکومتوں کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ جو بھی فیصلہ کیا جائے جیسے بھی ملک کا لوٹا جائے اس پر عوام خاموش رہیں۔ جمہوری حکومت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کچھ بھی فیصلے کریں آپ پر تنقید نا کی جائے؟ ”جھوٹ بول کر جیتنے سے بہتر ہے سچ بول کر ہارجاؤں“ ان لفظوں کی سچائی فیصل رضا عابد ی کے سچ کو چیخ چیخ کر بیان کررہی ہے۔

حق کی تلاش میں یہاں وہاں اچھلتے کودتے صحافی اینکرز اس معاملے پر خاموش ہیں۔ فیصل رضا عابدی کے معاملہ پر فقط حکومتی دباؤ کی بنیاد پر خاموش رہنا صحافت پر سوالیہ نشان ہے۔ کم سے کم مجھ سے تو یہ ظلم نا ہوگا۔ یہ پاکستان ہے سعودیہ نہیں ہے یہاں کی عوام سوچتی سمجھتی ہے اپنے حق کے لئے آواز ا ٹھانا جانتی ہے۔ تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جمہوری حکومت کو چاہیے کہ جمہور کے غصہ کو ہوا نا دیں حکومتی ایوانوں تک پہچانے والے غلط پالیسیوں پر آواز اٹھانا بھی جانتے ہیں۔ یقیناً حق کے راستے کو اختیار کرنے کا سفر قربانی مانگتا ہے لیکن اس قربانی کا ثمر آنے والی نسلوں کے لئے بہتری کی نوید لئے ہوئے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).