وزیر اعظم عمران خان، اپوزیشن اور بدنام زمانہ ڈاکو پرو چانڈیو


وزیر اعظم عمران خان صاحب ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں اور اسی وجہ سے وہ دنیا کے مالیاتی اداروں اور ترقی یافتہ ملکوں کے بائیکاٹ کے باوجود بھی سعودی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کر کے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ چین اور ملائیشا جاکر ملکی ترقی اور کرپشن کے خاتمہ کے منصوبے پر عمل در آمد کیسے ہوگا، کا گر سیکھنے کے لیے بیتاب نظر آ رہے ہیں۔ عمران خان صاحب کا بس چلے تو وہ ملک کی خاطر چین اور سعودی عرب کی طرح کرپشن کرنے والے اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے سیاستدانوں کے ہاتھ کٹواکر دریا یا زمیں برد کرنے میں دیر نہ کریں مگر خان صاحب مجبور ہیں کہ کہیں جمہوریت خطرے میں نہ پڑ جائے۔ عمران خان صاحب نے یہ سب کو واضح کر دیا ہے کہ کوئی این آر او نہیں ہوگا سارے ڈاکو لٹیرے پکڑے اور مارے جائیں گے۔ اس لیے سابق صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان اور اسفند یار ولی بقول پاکستان تحریک انصاف کے یہ سارے ڈر و خوف سے بوکھلاہٹ کا شکار نظر آ رہے ہیں۔ عمران خان صاحب کی ڈاکوؤں کی لوٹ مار کرنے کے اعلانات نے 80 کی دہائی میں سندھ کے بدنام زمانہ ڈاکو پرو چانڈیو کی یاد دلادی کہ قتل اور اغوا برائے تاوان جیسے سنگین ترین الزامات کے باوجود جب کہیں پر بیاز کی بھی چوری ہوتی تھی لوگ پرو چانڈیو کا نام لکھ دیتے تھے تاکہ پرو کے ڈر سے کوئی ان کی چھان بین نہ کر سکے ٹھیک اسی طرح آج کل تمام لوٹ مار بھی آصف علی زرداری اور شریف خاندان کے نام سے لکھی اور پڑھی جا رہی ہے۔

عمران خان صاحب سے پیار کرنے والے صحافی اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ خان صاحب تو کہتے ہیں اگر وہ کرپش ختم کرنے اور چوروں ڈاکوؤں کا احتساب کر کے لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لانے میں ناکام رہے تو وہ حکومت ہی چھوڑ دیں گے۔

مگر آصف علی زرداری سمیت تمام اپوزیشن کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت چلتی ہوئی نظر نہیں آ رہی اس وجہ سے حکومت قلابازیوں پر قلابازیاں کھا رہی ہے۔ ایک طرف کاروباری شخصیات سمیت سیاسی شخصیات پر مقدمات اور ریفرنسز بنتے نظر آ رہے ہیں تو دوسری طرف وہی لوگ اعلیٰ عدالتوں سے نا کافی ثبوتوں کی بنا پر با عزت بھی بری ہو رہے ہیں۔ ملک میں ہر روز ملین ڈالرز کے جعلی اور بے نام اکاؤنٹس اور بلیں ڈالرز کی بے نام جائیدادیں سامنے آ رہی ہیں مگر لوگوں کے تو فرشتوں کو بھی اس کا علم نہیں۔ اگر یہ سب کچھ سچ ہے تو پھر کیوں حکومت صرف 12 بلین کے لیے پریشان نظر آ رہی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ٹیکس بچانے اور فائدہ حاصل کرنے کے لیے آف شور کمپنیاں بنائی جاتی ہیں اور فلیٹ کی خرید و فروخت کے لیے عمران خان صاحب نے خود آف شور کمپنی بنائی اور شوکت خانم ہسپتال کے شیئرز کو بڑھانے کے لیے اور بھی بہت کچھ کیا جو ریکارڈ پر موجود ہے۔ اگر پاکستان میں موجود تمام کاروبار کرنے والے شخصیات ٹیکس سے بچنے کے لیے دو نمبری کرتے ہیں تو پھر تنقید صرف اپوزیشن پر کیوں کی جاتے۔

پاکستان تحریک انصاف پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو ڈاکو اور چور صرف اپوزیشن میں کیوں نظر آ رہے ہیں حالانکہ پاکستان تحریک انصاف میں موجود اکثر وزیر، مشیر، ایم این ایز اور ایم پی ایز بھی نیب زدہ ہیں اور بہت سارے ماضی میں ڈکٹیٹروں کے ساتھ ساتھ آج کل کے ڈاکوؤں اور لیٹروں کے ساتھ حکومتوں کا حصہ بن کر ترجمانی کرتے رہے ہیں۔ ساتھ خان صاحب پر تنقید کرنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ماضی میں پاکستان مسلم لیگ ق، عوامی مسلم لیگ اور ایم کیو ایم کے حوالے سے بھی وزیر اعظم عمران خان صاحب کے بیان ریکارڈ پر موجود ہیں جس میں انہوں نے چور ڈاکوؤں سمیت انہیں کئی القابات سے نوازا اگر یہ سارے ڈارئی کلین ہو سکتے ہیں تو پھر پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن اور عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام ف کیوں نہیں۔

سندھ بدنام زمانہ ڈاکو پرو چانڈیو جسے لوگ رابن ہڈ کے نام سے جانے جاتے ہیں اسے 1983 میں پولیس اور قانون لاگو کرنے والے اداروں نے راھدن کے قریب شاہ پنجو پھاٹک کے قریب مقابلے میں مار ڈالا۔ اس کی میت پر 10 ہزار سے زائد اجرکیں ڈالی گئ تھیں اور اس پرایک فلم بھی بنی تھی جو سپرہٹ ثابت ہوئی۔ آصف علی زرداری ہو، میاں نواز شریف، شہباز شریف،اسفند یار ولی ہو یا پھر مولانا فضل الرحمان ہمارے کہنے سے وہ ڈاکو یا چور نہین بن جائیں گے کیونکہ پرو چانڈیو بھی بھلے ہی دنیا کے نظروں میں ڈاکو ہو مگر غریب لوگ آج بھی اسے رابن ہوڈ کے نام سے جانتے اور مانتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).