جیش العدل نے مغوی ایرانی محافظوں کے نام اور تصاویر جاری کر دیں


شدت پسند گروپ جیش العدل نے 12 افراد کے نام اور تصاویر جاری کی ہیں جو اس کے مطابق وہ ایرانی سرحدی گارڈز ہیں جنہیں 16 اکتوبر کو ایران اور پاکستان کے سرحدی علاقے سے اغوا کیا گیا تھا۔

گروپ کے ٹیلیگرام اکاؤنٹ سے 21 اکتوبر کو پوسٹ کیے جانے والے بیان میں جیش العدل نے کہا: ‘انصاف کی خاطر جیش العدل تنظیم ان لوگوں کے ناموں کا اعلان کر رہی ہے جسے مجاہدین نے لولکدان علاقے کے ریگ مالک ضلعے میں بدر تھری بیس سے قبضے میں لیا تھا۔’

قانون نافذ کرنے والے کمانڈوز کے اراکین میں عباس عابدی، محمد معتمدی سادہ، پدرم موسوی، کیانش بابائے فیریدانی حیدری، اور مہرداد ابان کے نام ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سیستان بلوچستان: ایرانی سرحدی فورس کے اہلکاروں سمیت 14 افراد اغوا

ایران کا سرحدی محافظوں کی ہلاکت پر پاکستان سے احتجاج

’پاکستانی سرحد کے قریب حملے میں دو ایرانی ہلاک‘

جبکہ ایرانی پاسداران انقلاب کے ارکان میں ماجد ناروئی، محمود ہارموزی، رسول گمشادزہی، سعید ریگی، زبیر ریگی، بہروز ریگی، عبدالکریم ریگی شامل ہیں۔

تنظیم کے ٹیلیگرام اکاؤنٹ پر دو تصاویر بھی شائع کی گئی ہیں جن میں 12 محافظوں کو زمین پر ہتھیاروں اور گولہ بارود کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔

جیش العدل کیا ہے اور اس کا کیا کہنا ہے؟

جیش العدل خود کو ‘انصاف اور مساوات قائم کرنے والی فوج’ کہتی ہے اور سنی مسلک کا حامل بتلاتی ہے۔ اس سے قبل اس گروہ نے ‘درجنوں’ ایرانی فوجیوں کے قتل کا دعویٰ کیا تھا۔ ایران کے سرحدی محافظوں کے سنہ 2009 میں قتل کے بعد جیش العدل نے اپنے اس فعل کو بلوچ کردوں اور خوزستانی نوجوانوں کا دفاع کہا تھا لیکن دوسری جگہ اس نے اس قتل کو شام کی جنگ اور وہاں کی حکومت کو ایرانی حمایت سے منسلک کیا تھا۔

ایران

جہادی تنظیم جیش العدل نے ماضی میں کئی ایرانیوں کو نشانہ بنایا ہے

اس سے قبل جنداللہ نامی ایک تنظیم نے اسی طریقے سے ایرانی سرحدی گارڈز کا قتل کرتے اور اس وقت تک بچ کر پاکستان بھاگ آتے تھے۔ تاہم بعد میں ان کے گروپ کا ایک رہنما عبدالمالک ریگی پکڑا گیا اور اسے پھانسی دے دی گئی اور ایرانی سکیورٹی اہلکاروں نے اعلان کیا کہ انھوں نے جنداللہ کا نیٹ ورک توڑ دیا ہے۔

جنداللہ کے رہنما خود کو ‘بلوچ حقوق کا مقبول مزاحمت کرنے والا گروپ’ کہتے تھے لیکن ایران اسے وہابی اور سلفی رجحانات رکھنے والی ‘دہشت گرد’ تنظیم تصور کرتا تھا۔

ایران کا کہنا تھا کہ اس گروہ کو امریکہ اور برطانیہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ان الزامات کی دونوں ممالک تردید کرتے ہیں۔

جنداللہ نے ایران میں مسلسل مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ایک انتہائی خونی حملے میں جو سنہ 2009 میں صدارتی انتخابات سے قبل شیعہ مسجد زاہدان میں ہواتھا، ایک بم دھماکے میں 25 افراد ہلاک اور 120 افراد زخمی ہوئے تھے۔

جنداللہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اقوام متحدہ نے اس حملے کو دہشت گرد حملہ کہا تھا اور اس کی مذمت کی تھی۔

ایران اور پاکستان کی سرحد پر ہی ایسے حملے کیوں؟

حالیہ دور میں سیستان اور بلوچستان صوبے ایران کی جنوب مشرقی سرحد پر ملک کے سب سے غیر محفوظ حصوں میں سے ایک رہے ہیں۔ اس کی وجوہات میں شیعہ اور سنیوں کی مخلوط آبادی، بلوچ مسلح گروپوں کی سرگرمیاں، پاکستان کے ساتھ طویل سرحد، منشیات کی سمگلنگ، مقامی اور مرکزی حکومت کی جانب سے تفریق اور عوام میں وسیع عدم اطمینان اور غیر قانونی ہتھیاروں کی باآسانی دستیابی وغیرہ شامل ہیں۔

حالیہ برسوں میں سیستان اور بلوچستان صوبوں کی مسلح تنظیموں نے ایرانی فوج کو مسلسل نشانہ بنایا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ان تنظیموں کے خلاف موثر کارروائی نہیں کی جن کی بنیادیں اس ملک میں ہیں۔ سیستان اور بلوچستان صوبوں میں سکیورٹی کمزور رہی ہے اور وہاں سنہ 2005 سے یرغمال بنانے کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔ جنداللہ کے سابق رہنما عبدالمالک ریگی کی گرفتاری اور پھانسی بھی ان حملوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔

پاکستان میں سرحد کی صورت حال کیا ہے؟

پاکستان کا صوبہ بلوچستان ملک کا سب سے غیر محفوظ اور کم ترقی یافتہ خطہ ہے۔ بلوچ قوم پرست جو علاقے کی آزادی چاہتے ہیں، ان کے علاوہ وہاں اسلام پسند شدت پسند گروہوں کے مسلح افراد سرگرم ہیں اور وہ حالیہ برسوں کے دوران پرتشدد کارروائيوں میں ملوث رہے ہیں۔

عبدالمالک ریگی کی پھانسی کے بعد پاکستان کے بلوچیوں نے کراچی میں اس کی پھانسی کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔ اس مظاہرے کا انعقاد بلوچ نیشنل فرنٹ نے کیا تھا جو خود کو پاکستان میں بلوچ اقلیت کے حقوق کا علم بردار کہتی ہے۔

ایرانی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد حسین باغیری نے اس سے قبل کہا تھا کہ پاکستانی سرزمین ‘سعودی عرب کے دہشت گرد’ کی تربیت کی جگہ بن گئی ہے اور یہ کہ ‘اگر یہ حملے جاری رہے تو دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو اڑا دیا جائے گا چاہے وہ کوئی بھی ہو۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32496 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp