شاہ سلمان خادم الحرمین الشریفین بن کر دکھائیں


سعودی عرب کی طرف سے صحافی جمال خشوگی کے قتل کا اعتراف کرنے کے بعد مسلسل اس کی وضاحت کرنے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس معاملہ میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا ہاتھ نہیں ہے اور نہ ہی اکتوبر کے شروع میں ترکی کی طرف سے اس بارے میں خبر سامنے آنے سے پہلے شہزادہ محمد کو اس بارے میں کوئی خبر تھی۔ اب اس بیان کو بااعتبار بنانے کے لئے سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے امریکی ٹیلی ویژن چینل فوکس نیوز کو ایک انٹرویو میں اس سانحہ کو فاش غلطی قرار دیتے ہوئے ریاست کے لئے کام کرنے والے بعض بدمعاش عناصر کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ ان عناصر کو یہ جرم کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ جمال خشوگی کو قتل کرنا بہت بڑی غلطی تھی ۔ پھر اسے چھپا کر مزید غلطی کی گئی۔ سعودی حکام اس معاملہ کی تہ تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ سعودی وزیر خارجہ کا یہ انٹرویو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے واشنگٹن پوسٹ کو دئیے گئے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انہوں سعودی وضاحت کو دھوکے اور جھوٹ سے تعبیر کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اس انٹرویو میں شہزادہ محمد بن سلمان کو بے قصور قرار دینے کی بجائے یہ کہا تھا کہ ’انہیں خوشی ہوگی کہ وہ اس معاملہ میں ملوث نہ ہوں‘۔

دوسری طرف ترکی کے صدر طیب اردوان نے اعلان کیا ہے کہ وہ منگل کو اپنی پارٹی کے اجلاس کے دوران اس سانحہ کے بارے میں سارا سچ بیان کردیں گے۔ اس طرح استنبول کے قونصل خانہ میں ایک سعودی صحافی کا قتل اس وقت عالمی سیاست و سفارت میں بنیادی اہمیت حاصل کرچکا ہے۔ اس کے متعدد ملکوں کے تعلقات اور مشرق وسطیٰ کی سیاست پر سنگین نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ جمال خشوگی سعودی شہری ہونے کے باوجود امریکہ میں مقیم تھے اور شہزادہ محمد کے ناقد تھے۔ وہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لئے کالم لکھتے تھے جس کی وجہ سے ان کے قتل کو امریکی اور عالمی میڈیا میں اہمیت حاصل ہوئی۔ ترکی اس حوالے سے معلومات تو سامنے لایا ہے لیکن ترک حکام نے اہم ترین شواہد اور ثبوت ابھی تک کسی تیسرے ملک کے حوالے نہیں کئے ہیں جس کی وجہ سے یہ قیاس کیا جارہا ہے کہ ترکی اس جرم کو بنیاد بنا کر امریکہ اور سعودی عرب سے سیاسی، سفارتی اور معاشی مراعات حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ صدر اردوان اگر یہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو جمال خشوگی کا معاملہ دراز بھی ہو سکتا ہے اور سعودی عرب کے لئے اس معاملہ میں اپنی اعلیٰ ترین قیادت کو بچانا ممکن نہیں رہے گا۔

قتل کے دو ہفتے بعد سعودی اعتراف جرم کو عالمی دباؤ کا نتیجہ سمجھا جارہا ہے اور اس بارے میں ’سارا سچ‘ سامنے لانے کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔ لیکن اس اعتراف کا ایک جواز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سعودی عرب اور امریکہ اس معاملہ میں ترکی کی بارگیننگ پوزیشن کو کمزور کرکے معاملات کو اپنے اختیار میں واپس لانے کی خوہش رکھتے ہوں ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ واضح کرچکے ہیں کہ انہیں جمال خشوگی کے اصل قاتل کا پتہ لگانے کی بجائے سعودی بادشاہت کو بچانے اور شہزادہ محمد کی نیک نامی کو بحال کرنے کی زیادہ فکر ہے۔ اس سلسلہ میں کبھی وہ سعودی عرب سے وابستہ امریکی معاشی مفادات کی دہائی دیتے ہیں اور کبھی مشرق وسطیٰ میں ایران کو بدترین ریاست قرار دے کر اس کے اثر و رسوخ سے مشرق وسطیٰ کو بچانےکے لئے سعودی عرب کی اہمیت کو بیان کرتے ہیں۔ تاہم سعودی عرب کی طرف سے دو روز پہلے کئے گئے اعتراف اور اس کے بعد اپنے بیانات کے تضاد کی وضاحت سے مزید تضادات پیدا ہوئے ہیں اور نئے سوال سامنے آئے ہیں۔ اس طرح ترکی کو اس معاملہ میں ’غیر مؤثر‘ کرنے کا مقصد فی الوقت حاصل نہیں ہو سکا ہے۔

اس مشکل کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب نے دو ہفتے تک جمال خشوگی کے قتل سے انکار کرنے کے بعد اعتراف کرتے ہوئے بعض افسروں کو معزول اور ڈیڑھ درجن افراد کو گرفتار کرکے ایک ’ڈرامائی اقدام‘ کا تاثر دینے کی جو کوشش کی ہے ، اس سے سعودی عرب سمیت ان ملکوں کے عوام اور میڈیا تو خاموشی سے قبول کرلیں گے جنہیں سوچنے اور سوال کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ لیکن آزادی اظہار کی بنیاد پر استوار جمہوری ملکوں میں اس قسم کی وضاحتوں پر متعدد نئے سوال جنم لیتے ہیں اور سعودی عرب کے پاس ان کا کوئی جواب موجود نہیں ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب سختی سے اس معاملہ کو اپنے اختیار میں رکھتے ہوئے اپنے ہی اداروں اور افسروں کے ذریعے تحقیقات مکمل کروانا چاہتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ دنیا اسے تسلیم کرلے۔

اگر دنیا مسلمان آبادی پر مشتمل پچاس باون ملکوں کا نام ہوتا تو سعودی عرب کو ضرور اس مقصد میں کامیابی حاصل ہو جاتی۔ کیوں کہ تین ہفتے سے جاری اس عالمی بحران کے دوران جن چند مسلمان ملکوں نے ا س بارے میں بیان دینا ضروری سمجھا ہے وہ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کے قریبی حلیف ہیں۔ بحرین ، کویت، مصر اور متحدہ عرب امارات نے شاہ سلمان کے اقدامات کو درست قرار دے کر سفارتی تنہائی اور شدید مشکل کا شکار سعودی شاہی خاندان کی حمایت کی ہے۔ لیکن کسی دوسرے مسلمان ملک کی طرف سے ایک سفارتی مرکز میں ایک صحافی کے قتل جیسے گھناؤنے جرم پر تبصرہ کرنے یا اس کی مذمت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔ حتی ٰ کہ ترکی نے بھی جو اس معاملہ کو عالمی منظر نامہ پر لانے کا سبب بنا ہے، ابھی تک سرکاری طور پر اس قتل کی مذمت کرنے اور سفارتی سہولتوں کا ناجائز فائدہ اٹھانے پر سعودی عرب سے احتجاج نہیں کیا ہے۔ بلکہ صدر اردوان گزشتہ دو ہفتوں کے دوران متعدد بار شاہ سلمان سے فون پر بات کے ذریعے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرواتے رہے ہیں۔

اقوام متحدہ اور مغربی ممالک اس معاملہ کی عالمی ماہرین سے تحقیقات کروانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ سعودی عرب اس مطالبہ کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اصرار کررہا ہے کہ یہ قتل چونکہ اس کی حاکمیت یعنی اس کے سفارتی مرکز میں ہؤا تھا اس لئے وہ اس کے مجرموں کا خود ہی سراغ لگا کر ان کو خود ہی سزا دے گا۔ یہ بحران ختم کرنے کا آسان ترین طریقہ تو یہی ہو سکتا تھا کہ سعودی عرب اس معاملہ میں ملوث مجرموں اور اس وقت موجود دیگر لوگوں کو کسی عالمی تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پیش کرے تاکہ ایک خود مختار ادارہ اصل ذمہ داروں کا تعین کرسکے۔ البتہ سفارتی مراعات کی بدترین خلاف ورزی کرنے کے باوجود ملک کے وزیر خارجہ اس سانحہ کے تین ہفتے بعد جب میڈیا کو انٹرویو دیتے ہیں تو وہ یہ وضاحت تو نہیں کرتے کہ سفارتی مراعات کی خلاف ورزی کی وجہ سے سعودی عرب اب ترکی اور دنیا کو اپنی نیک نیتی کا کیسے اعتبار دلوائے گا بلکہ ولی عہد کی وکالت پر اپنا زور خطابت صرف کرتے ہیں۔ اسی طرح سعودی وزیر انصاف ولید بن محمد سلمانی یہ کہہ چکے ہیں کہ سعودی عرب اس معاملہ میں کسی دوسرے ملک کا اختیار قبول نہیں کرے گا۔ اس رویہ سے صرف اس شبہ کو تقویت ملتی ہے کہ اس معاملہ میں ولی عہد اور ان کے قریبی حلقے ملوث ہیں۔

اس شبہ کو دور کرنے کے لئے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے پاس یہ آپشن شاید اب تک موجود ہے کہ وہ اس اسکینڈل کی حقیقت فاش ہونے تک ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو ان کے عہدے سے معطل کر دیں اور امور مملکت میں ان کے اختیارات واپس لئے جائیں۔ سعودی عرب میں اس وقت شہزادہ محمد کو کلّی اختیارات حاصل ہیں اور ملک کا ہر ادارہ ان کی دسترس میں ہے۔ اس لئے دنیا کسی ایسی تحقیقات کو تسلیم نہیں کرے گی جس کی ساری ذمہ داری ان اداروں اور افسروں کے ہاتھ میں ہو جو شہزادہ محمد کے خلاف کسی کارروائی کے بارے میں سوچ بھی نہ سکتے ہوں جبکہ دنیا محمد بن سلمان کو ہی اس معاملہ کا ذمہ دار سمجھتی ہو۔

سعودی عرب اس حوالہ سے متعدد سوالات کا جواب سامنے لانے میں ناکام ہو رہا ہے۔ ان میں بنیادی نوعیت کا سوال تو یہی ہے کہ پندرہ ایسے ارکان کو خصوصی سرکاری مراعات اور اختیار کے ساتھ ترکی جانے اور جمال خشوگی سے پوچھ گچھ کرنے کا اختیار کیوں دیا گیا تھا۔ اور اگر بعض سعودی افسروں کے اس بیان کو پیش نظر رکھا جائے کہ اس ٹیم کا مقصد خشوگی کو بہلا پھسلا کر یا اغوا کرکے سعودی عرب واپس لانا تھا، قتل کرنا مقصود نہیں تھا ۔۔۔ تو یہ سوال اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ کیا سعودی عرب سرکاری وسائل اور سفارتی سہولتوں کو ایک ایسا کام کرنے کے لئے استعمال کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا جو تمام بنیادی انسانی اصولوں اور عالمی قوانین کے خلاف ہیں۔ کسی حکومت کو بیرون ملک مقیم اپنے کسی بھی شہری کو غیر قانونی طریقہ سے اٹھا کر واپس لانے کا حق کیوں کر حاصل ہو سکتا ہے۔

شہزادہ محمد نے اس بحران کے ذریعے سعودی عرب کی سیاسی اور سفارتی پوزیشن کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ سعودی عرب اپنی تمام تر دولت اور سفارتی اہمیت کے باوجود اس بحران کے منفی اثرات کی بھاری قیمت ادا کرنے پر مجبور ہو گا۔ شاہ سلمان کو اپنے بیٹے سے پہلے اپنے ملک کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بھی اس معاملہ میں درست طرف ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ شاہ سلمان اس حوالہ شہزادہ محمد کو ولی عہد کے عہدہ سے برطرف کرتے ہوئے ان کے خلاف عائد کئے جانے والے الزامات کی عالمی تحقیقات کو قبول کرلیں تو دوست ہی نہیں دشمنوں کو بھی ان کی انصاف پسندی اور قانون کا احترام کرنے کے اس رویہ کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ یوں بھی سعودی شاہ خادم الحرمین الشریفین کا اعزاز رکھتے ہیں۔ اس حیثیت سے وہ صرف اپنے خاندان یا ملک کے مفادات ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے مفادات کے محافظ تصور کئے جاتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ ایک باپ یا بادشاہ ہونے سے پہلے خادم الحرمین الشریفین کے طور پر فیصلہ کرتے ہوئے دنیا بھر میں مسلمانوں کے وقار کو بحال کرنے کے لئے اقدام کریں۔

شہزادہ محمد نے شاہ سلمان کی طرف سے ملنے والے اختیارات کے تحت کئے گئے متعدد فیصلوں سے سعودی مفادات کو نقصان پہنچانے کے علاوہ اس کی مسلمانوں کے غیر متنازعہ قائد کی حیثیت کو داغدار کیا ہے۔ گو کہ ان میں سب سے المناک فیصلہ یمن میں جنگ اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی انسانی تباہ کاری ہے لیکن شہزادہ محمد اس غلطی کو تسلیم کرنے اور اس کی اصلاح کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کے علاوہ شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے ساتھ بغض میں باغیوں اور انتہا پسند گروہوں کی امداد سے پورے خطے اور عالمی سیاست پر بھیانک اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ پھر ایران کے خلاف محاذ آرائی کو اس قدر بڑھایا گیا کہ مشرق وسطیٰ عملی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔

اپنے چند حلیف ملکوں کے ساتھ مل کر قطر کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ مشرق وسطیٰ کو مزید بحران اور جنگ میں دھکیلنے کا سبب بنا ہے۔ اس کے بعد ملک میں آزادی عام کرنے اور اصلاحات کا نعرہ لگاتے ہوئے ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنی پالیسیوں میں کمزوریوں کی نشاندہی کرنے والے لوگوں کے خلاف سخت اقدامات کئے ہیں۔ انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھانے والوں کو قید و بند اور ہلاکت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جمال خشوگی اسی پالیسی کی وجہ سے سعودی ریاست کے بعض بااثر اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں۔ اگر شہزادہ محمد نے خود اس کارروائی کا اشارہ نہیں بھی دیا تھا تو بھی اگر ان کی سربراہی میں کام کرنے والے ادارے ان کے کنٹرول میں نہیں رہتے اور ’ باغیانہ‘ طرز عمل اختیار کرتے ہیں تو اسے ولی عہد کی نااہلی ہی کہا جائے گا۔ شاہ سلمان کے لئے یہی عذر شہزادہ محمد کے اختیارات واپس لینے کے لئے کافی ہونا چاہئے۔

شاہ سلمان کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ خادم الحرمین الشریفین کے طور پر مسلمانوں کی نیک نامی اور بہبود کے محافظ ہونے کے علاوہ انصاف کے بارے میں اسلام کی اعلیٰ روایات کے امین بھی ہیں۔ اگر وہ ایک باپ اور خاندان کے سربراہ کی معمولی حیثیت سے اوپر اٹھ کر غلطیوں کی اصلاح کا حوصلہ کرسکیں تو انہیں دنیا و آخرت میں نیک نامی حاصل ہوگی۔ سوال ہے کہ کیا شاہ سلمان واقعی خادم الحرمین الشریفین کا کردار ادا کرسکتے ہیں یا وہ صرف ایک بادشاہ ہی رہیں گے۔ ان کے طرز عمل سے ہی دنیا سعودی عرب کے بارے میں رائے قائم کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali