درندوں سے بیٹیوں کی حفاظت؟


گزرے وقتوں میں ہمارے معاشرے کی خوبصورتی سب پر عیاں تھی، اخلاقی اقدار اس کا خاصہ تھیں۔ زمانہ کمرشلائزیشن کی حشر سامانیوں سے محفوظ تھا۔ سائنس و ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔ لوگ سادہ تھے اور اُن کی نظروں میں انسانیت کی قدر تھی، خاندانی اور محلے داری نظام مضبوط جڑیں رکھتا تھا، لوگ ایک دوسرے کے دُکھ درد کے ساتھی تھے۔ محلے کے کسی ایک گھر کے مصائب پر پورا محلہ اُسے اپنا مسئلہ سمجھ کر اُس کے حل کی کوشش کرتا۔ اگر کسی کو کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو سب اُس کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ سب سے بڑھ کر تمام ماؤں، بہنوں، بہوؤں اور بیٹیوں کو بے پناہ تحفظ حاصل تھا اور انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا اور سب کی عزت سانجھی تصور ہی نہیں کی جاتی تھی بلکہ درحقیقت بھی ایسا ہی تھا۔

اس لیے محلے/ علاقے کے لوگ ہر ماں، بہن، بہو اور بیٹی کو اپنے گھروں کی عزت جیسا متصور کرتے تھے۔ کسی میں اُن کو نظر اُٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ اُس زمانے میں عصمت دری کے واقعات رونما نہیں ہوتے تھے۔ قتل کے واقعات تو ناپید ہی تھے۔ لوگ چوری، راہزنی سے محفوظ تھے۔ اسی لیے گھروں کو مقفل کرنے کا تصور ہی مفقود تھا۔ لوگ بے فکر ہوکر راتوں کو سکون کی نیند لیتے اور اس دوران اُن کے گھر کھلے رہتے تھے۔ غرض عزتیں محفوظ تھیں، وقت کی گرد نے جنہیں آج غیر محفوظ ترین کردیا ہے۔ پُرانے وقتوں میں کوئی معصوم کلیوں یعنی چھوٹی بچیوں کے مسلے جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اب اکثر واقعات میں اپنے ہی بعض رشتے دار اُن کو روندنے میں ذرا نہیں ہچکچاتے۔

پھر آہستہ آہستہ وقت گزرا جو اپنے ساتھ کئی اچھی اقدار کو بھی لے گیا۔ جدیدیت آتی گئی، سائنس و ٹیکنالوجی نے خوب ترقی کی۔ پھر ہمارے معاشرے میں پڑوسی بھی اجنبی ہونے لگے، محلے داری نبھانے اور ایک دوسرے کے کام آنے والی خوبصورت قدر بھی گم ہوگئی۔ سماج میں برائیاں تھوک کے حساب سے در آنے لگیں۔ سائنسی میدان میں خوب معرکے سر ہوئے، نت نئی حیران کن ایجادات نے دُنیا کو ایک گلوبل ولیج میں ضرور تبدیل کردیا لیکن اُس سے ہمارا خاندانی اور محلے داری نظام ازحد متاثر ہوا۔ جو عزت سب کی سانجھی ہوتی تھی، اب سر بازار لُٹنے لگی۔ مائیں، بہنیں، بہوئیں اور بیٹیاں اپنے ہی محلے کے ہوس زدہ مردوں کی نگاہوں کا نشانہ بنتی ہیں، دست درازی کی نوبت بھی آجاتی ہے اور بعض اوقات عزت سے محروم ہوجانے کا زخم بھی سہتی ہیں، وہ بھی اُن سے جو پُرانے وقتوں میں اُن کے رکھوالے ہوتے تھے۔

کتنی ہی خواتین عصمت دری کا نشانہ بن چکی ہیں، اُن کے درست اعداد و شمار میسر نہیں اور کسی صورت ہو بھی نہیں سکتے، کیوں کہ جو واقعات رپورٹ ہوتے ہیں، اُس سے کہیں زیادہ مخفی رہتے ہیں کہ متاثرین کی بہت بڑی تعداد اپنی عزت کا جنازہ سر بازار نکلوانا نہیں چاہتی۔ ہوس کے ماروں سے اب معصوم کلیاں بھی محفوظ نہیں۔ جنہیں وہ انتہائی بے رحمی سے مسل دیتے ہیں، اُن کی جان تک لے لیتے ہیں، کیوں کہ گزشتہ کچھ برسوں میں اس حوالے سے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔

پچھلے سال زینب قتل کیس کا خوب چرچا رہا۔ کچھ دنوں تک ہر سطح پر اس حوالے سے آوازیں بلند ہوتی رہیں۔ عوام میں بھی سخت اشتعال پایا جاتا تھا۔ پھر اس ضمن میں سابق حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مستعدی دِکھائی اور قاتل عمران کی گرفتاری عمل میں آئی۔ اس درندہ صفت مجرم کو مختصر عدالتی کارروائی کے بعد چار بار سزائے موت، ایک بار عمر قید اور سات برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ ہمارے بھولے ذہنوں سے یہ سانحہ محو ہوگیا۔

اب عمران علی کی سزائے موت پر عمل درآمد سے یہ واقعہ دوبارہ تازہ ہوا ہے، معصوم زینب سمیت 8 بچیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اُن کی جانیں لینے والے سفّاک ترین مجرم کو گزشتہ روز لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ عمران علی کی پھانسی سے درندوں کی فوج ظفر موج ختم نہیں ہوگئی ہے، کیوں کہ زینب کے بعد بھی اب تک کئی معصوم کلیاں مسلی جاچکی ہیں۔ اب بھی انسان کے روپ میں درندے دندناتے پھر رہے ہیں۔ شرافت کا لبادہ اوڑھے۔ اُن کا کردار دُنیا سے مخفی ہے، جو موقع ملتے ہی سفّاکیت و درندگی میں شیطان کو بھی مات دینے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے۔

زینب کیس کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا بیٹیوں کو تحفظ دیا جاتا لیکن اس ضمن میں کچھ نہیں کیا جاسکا۔ آخر درندوں اور بھیڑیوں سے اس دیس میں معصوم بیٹیوں کو تحفظ کون دے گا؟ ہماری حکومتیں محض باتیں بگھارنا جانتی ہیں، وہ تو بیٹیوں کو تحفظ دینے سے رہیں، کیوں کہ اُن کا مطمح نظر محض اقتدار کو طول دینا ہوتا ہے۔ عوام کے مسائل کیا ہیں؟ وہ کس طرح اپنی زیست گزار رہے ہیں۔ اُنہیں بنیادی سہولتیں میسر ہیں، اُنہیں بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں کہ نہیں۔ اس سے ہماری حکومتوں کو کوئی غرض نہیں ہوتی۔

بہرحال حکومت سے تو اس ضمن میں کچھ ہونے سے رہا۔ عوام کو یعنی کہ ہمیں خود اپنی ذمے داری محسوس کرتے ہوئے انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنی بہنوں، ماؤں، بہوؤں خصوصاً بیٹیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ سنہرے ماضی کی طرح ہر عورت کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا ہوگا۔ باغبانوں یعنی والدین کو اپنی کلیوں کی حفاظت خود یقینی بنانا ہوگی، اس معاملے میں ذرا بھی کوتاہی نہ برتی جائے، اُن کی رہنمائی و رہبری کرنی ہوگی، زندگی کے ہر موڑ پر اُن کے ساتھ سائے کی طرح رہ کر تحفظ دینا ہوگا۔ اُن کی تربیت ان خطوط پر کرنا ہوگی کہ بوقت ضرورت خود وہ اپنی حفاظت کو ممکن بناسکیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو پھر کسی درندے کو کسی معصوم کلی کو مسلنے کی ہمت نہ ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).