پائڈ پائپر، خوفزدہ اساتذہ اور ڈاکٹر مجاہد کامران


گزرے زمانے کا ذکر ہے!
ایک چھوٹے سے قصبے میں انسانی آبادی سے زیادہ چوہے آباد تھے۔ وہاں کے لوگوں کی زندگی مشکل ہو گئی تھی۔ گھر کے ہر کونے میں چوہے۔ جوتوں اور ٹوپیوں تک میں چوہے رہا کرتے۔ بچوں کو کاٹتے کھانا کھا جاتے کپڑے چبا جاتے۔ بچے، جوان اور بوڑھے سب ہی چوہوں سے تنگ۔ ہر کوشش کے باوجود چوہے قابو سے باہر۔ ایک روز قصبے کی تمام افراد جلوس کی صورت میں علاقے کے حاکم کہ پاس پہنچے اور چوہوں کی شکایت کی، حاکم نے بھی اپنے گھر اور دفتر کا رونا رویا۔ اب سوال یہ تھا کہ کیا کیا جائے کہ چوہے جان چھوڑیں؟ اسی اثناء میں دربار میں ایک عجیب وغریب کردار نمودار ہوا۔ اپنے لباس اور چال ڈھال سے وہ جوکر دکھائی دیتا۔ اس شخص کو دیکھ کر وہاں موجود سب ہی ہنسنے لگے جملے کسنے لگے۔ ایک دم وہ اجنبی گویا ہوا ”میں اس علاقے کو چوہوں سے پاک کر سکتا ہوں“ ایک لمحے کو ہرشخص خاموش ہو گیا۔

پھر حاکم نے پوچھا کیا واقعی؟
اجنبی نے کہا بلاشک۔
بس مجھے دس ہزار اشرفیاں دو کام ہو جائے گا۔
سب نے ایک زبان ہوکہ کہا ہاں!

پھر اجنبی نے بانسری بجائی اور سارے قصبے کے چوہے اس کے پیچھے چل پڑے ایک مقام پر جا کہ وہ سارے چوہے سمندر میں غرق ہو گئے۔ لیکن جب اجنبی نے پیسوں کا تقاضا کیا تو سب منکر ہو گئے اور حاکم نے اس کی طرف حقارت سے ایک سکہ اچھالا۔

اجنبی نے وہ سکہ اسی کی چوکھٹ پہ پھینکا اور قلعہ کی فصیل سے باہر نکلنے لگا۔ جس وقت وہ نکلا اس نے دوبارہ بانسری اپنے ہونٹوں سے لگائی اور اس بار پہلے سے زیادہ سریلی دھن میں۔ کچھ ہی دیر میں قصبہ کہ سارے بچے اجنبی کہ پیچھے دوڑنے لگے اور دیکھتے دیکھتے سارا قصبہ بچوں سے خالی ہو گیا محض ایک معذور بچے کے سوا کیونکہ وہ بیساکھی کی وجہ سے تیز رفتار میں چل نہ پایا۔ جب بچوں کہ والدین اس مقام تک پہنچاے تو غار کا دروازہ بند ہو چکا تھا اورصرف ایک معذور بچہ پیچھے رہ جانے کی وجہ سے رو رہا تھا۔ کہانی ختم!
عزیز قارئین آئیں اب ہم اس کہانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

چند روز قبل سابق وی سی پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران اور ان کے چھ ساتھیوں کو نیب نے گرفتار کیا اور ہتھکڑی لگا کر کورٹ میں پیش کیا۔ اس واقعے کی چیف جسٹس آف پاکستان نے خود مذمت کی، فرمایا کے اساتذہ قوم کا سرمایہ ہیں ان کی عزت کرنا ہم سب پر فرض ہے۔

اس واقعے کے دوسرے روز ہی پورے ملک کے یونیورسٹی ٹیچرز نے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھی اور جامعہ کراچی کے اساتذہ نے اس موقع پر آرٹس لابی سے لے کر آئی آر ڈپارٹمنٹ تک واک بھی کی۔
یہاں یہ بتاتی چلوں کے یہ فاصلہ کم ازکم چالیس قدموں جتنا تو ہو گا۔ جامعہ کراچی کے خوفزدہ اساتذہ یقیناً بہت تھک بھی گئے ہوں گے بہرحال آتے ہیں پھر ڈاکٹر مجاہد کامران صاحب کی ہتھکڑی کی طرف۔

محترم چیف جسٹس اور تمام اساتذہ کرام ایسا پہلی بار تو نہیں ہوا۔
چار اکتوبر دو ہزار سولہ کی منحوس شام جب ایف آئی اے والوں نے ڈاکٹر فرحان کامرانی کو جامعہ کراچی کے دروازے سے اغواء کرنے کے بعد ایف آئی اے سائبر کرائم برانچ میں قید کیا اس وقت بھی انہیں ہتھکڑی لگائی گئی۔ جب اگلے روز کراچی سٹی کورٹ ڈسٹرکٹ ایسٹ میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا اس وقت بھی وہ ہتھکڑی کے ساتھ کٹہرے میں پیش کیے گئے۔ پھر تین روز کے ریمانڈ کے بعد جب دوبارہ کورٹ لایا گیا تو بھی ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں اور جیل کسٹڈی کے تین ماہ تک انہیں عادی مجرموں کے ساتھ بیرکوں میں رکھا گیا۔ آج تک ایک قدم کیس آگے نہیں بڑھا اور وہ دو سال سے جیل میں ہیں۔

یہ واقعہ اتنا پرانا نہیں، سات اکتوبر دو ہزار سولہ کو جب اس دھماکہ خیز خبر کو نشر کیا گیا تو گھر کا پتہ، سارے خاندان کے نام بھی دھوم دھام سے نشر کیے گئے۔


اب سوال یہ ہے کہ اس وقت جامعہ کراچی کے اساتذہ نے چند قدم چلنے کی توفیق کیوں نہ کی؟ بلکہ شعبہ نفسیات کے طلبہ کی طرف سے کیے جانے والے احتجاج کو بھی روک دیا گیا۔ طلبہ کو امتحان میں فیل کرنے کی دھمکی دی گئی۔ اور اس حادثے کو زمین میں دفن کر دیا گیا۔

جواب یہ ہے، کہ ڈاکٹر فرحان کامرانی پہ آن لائن جنسی ہراسانی کا الزام ہے اور ڈاکٹر مجاہد کامران پہ اقربا پروری اور مالی خوردبرد کا۔ چونکہ می ٹو کی چھتری کو پاکستان میں لانچ کرنے کےلئے ڈاکٹر فرحان کامرانی سے اچھا کوئی شکار ملنا مشکل تھا۔ ایف آئی اے سائبر کرائم برانچ کو اپنی پرفارمینس بھی دکھانا تھی ساتھ ہی بین الاقوامی ایڈ کہ لیے ایک فرضی کردا یا سائبر مختاراں مائی بھی۔

لیکن مالی خوردبرد اقربا پروری سے تو خواتین نہیں بچ سکتیں۔ یوں بھی جامعات میں اب زیادہ تر تدریسی خدمات خواتین ہی انجام دے رہی ہیں۔ لہذا ڈاکٹر مجاہد کامران کے لیے سب ایک ہو گئے۔ دراصل سب ہی بری طرح ڈر گئے کہ کہیں اگلا نمبر خوف زدہ خواتین کا نہ ہو۔

اور کہیں اس بار پائڈ پائپر خواتین اساتذہ کو اپنے پیچھے لگا کر لیاری ندی میں غرق نہ کر آئے۔

ایک گزارش!
محترم چیف جسٹس آف پاکستان آپ سے جو خبریں مس ہو جائیں وہ یوٹیوب پر دیکھ لیا کریں۔ تاکہ ہم پہ بھی آپ کی نظر کرم ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).