”مسٹر عمران خان“ کی ریاست مدینہ


موجودہ حکومت کا طرز حکمرانی دیکھ کر ان لوگوں پر ترس آتا ہے جن کو تبدیلی اور مدینہ ریاست کے نام پر الو بنایا گیا اور پاکستانی تاریخ کے سب سے مضحکہ خیز حکمران سیلکیٹ کروائے گئے۔ یہ سچائی بھی ننگی ہوچکی ہے کہ ان کا ماڈل کوئی جمہوری ریاست نہیں بلکہ سعودی اور مصری بادشاہت ہے۔

دعوی اگر یہ ہے کہ اس وقت ملک میں طبلچیوں، مہا مہروں اور شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفاداروں کی حکومت ہے تو مانے بغیر کوئی چارہ نہیں بچتا۔ اس بحران کا اندازہ لگانا بڑا آسان ہے۔ اگرچہ ہماری زندگی کا ہر شعبہ اس سے متاثر ہوا ہے۔ مگر اس وقت عام عوام کے ساتھ ساتھ حکومت اپنا سارا نزلہ میڈیا اور صحافی برادری پر گرانے کی جان توڑ کوشش کر رہی ہے۔ کیونکہ اس وقت میڈیا کو جس غیراعلانیہ سنسرشپ کے دوزخ میں جھونکا گیا ہے۔ ایسی صورتحال شاید ایوبی، یحیائی و ضیائی اور مشرفی سیاہ ترین دور آمریت میں بھی نہ رہی ہو۔

ہمارے جیسے ملک میں صحافت کرنا گویا آگ ہاتھ میں لینے کی مترادف ہے۔ یہاں صحافت واحد ایسا شعبہ ہے جو بلاتفریق ملک کے بزعم خود بہی خواہوں اور دشمنوں کے نشانے پہ رہا ہے۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح حامد میر کو مخصوص ”سبق“ سکھایا گیا۔ پھر کس طرح اس واقعہ کو سردخانے میں ڈال دیا گیا۔ تقدیس خوان جمہوریت اس وقت بھی سر بہ زانو تھے آج بھی ان کی حالت وہی کی وہی ہے۔ اخباروں میں کالمز شائع نہ کرنے کی ایک ریت چلی ہے جو تبدیلی سرکار کی دین ہے۔

پچھلے کچھ عرصہ سے صحافی برادری اور میڈیا حکومت کے خصوصی نشانے پہ ہے۔ میڈیا سے وابستہ افراد کے بارے میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ وہ ملک دشمن ہیں۔ ہمارے ملک کی ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ یہاں پر حب الوطنی کا سرٹیفیکٹ بانٹنے والے جب وردی اتارتے ہیں تو ان ان کی اگلی صبح امریکہ، سعودی عرب یا دبئی جیسے ممالک ہوتے ہیں۔ مگر وطن کی اس مٹی میں لت پت ہونے والے ہمیشہ راندہ درگاہ ٹھیرائے جاتے رہے۔ اس وقت میڈیا ہاؤسز جن مالی اور انتظامی بحران سے گزر رہے ہیں۔ مستقبل کا منظرنامہ یہی لگ رہا ہے کہ ہماری سرزمین صحافت کے لئے عقوبت خانہ بننے جا رہی ہے۔

خان صاحب پہلے بھی میڈیا اور اظہار آزادیٔ رائے کے حوالے سے کسی اچھی شہرت کے حامل نہیں رہے ہیں۔ انھوں نے تاک تاک کر کچھ چینلز کے بارے میں اپنے مذموم ارادوں کا واشگاف انداز میں اظہار کیا ہے۔ اب جبکہ وہ ملک میں سیاہ و سفید کا مالک بن چکا ہے تو ایسے میں ان سے جمہوری اقدار کی توقع رکھنا ذہنی بانجھ پن کی علامت ہے۔ صحافی برادری کو مزید شکنجہ میں کسا جائے گا۔ ان کو اس کے لئے خود کو ذہنی طور پر تیار رکھنا چاھئیے کہ آئندہ اس ملک میں جمہوری اصولوں اور اظہار آزادی رائے کی جنگ انھوں نے اکیلے لڑنا ہے۔ ملک میں ایک تبدیلی ضرور آئی ہے کہ جمہوری اقدار کا گلا گھونٹنے کے لئے حکمران اور اسٹیبلبشمنٹ متفق ہوچکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).