نیب اور کرپٹ افراد


اکتوبر 1999ء میں نیب کے قیام کا مقصد تھا وائٹ کا لر کرائم کوٹریس کرنا اور غیر ذرائع آمدن کی سورس معلوم کر کے سزا تجویز کرنا۔ تاہم نیب کی ترجیحات کچھ اور ہی رہی ہے۔ اس کی اصل وجہ سیاسی بنیادوں پر نیب چیئرمین کی تعیناتی ہے۔ اب ظاہر بات ہے جب چیئرمین ہی سیاسی ہو گا تو باقی نیب عملہ بھی اُسی کے ماتحت ہوتا ہے۔ اگر ایک آدھ کوئی آواز نکا لے بھی تو اُسے خاموش کروا دیا جائے گاکہ ابھی کچھ بو لنا بیکار ہے جب ان کا زور کم پڑے گا تو بولنے کی ہمت کرنا۔ جب تک زور کم پڑتا ہے تب تک وہ بیچارہ ٹرانسفر ہو کے کسی بیکار جگہ پہنچ چکا ہوتا۔ نیب افسران کو جب تک ڈرا کے کام کرائیں گے وہ بھی کرپٹ افراد کو پکڑنے کی بجائے ڈرتے ہی رہیں گے اور اپنا کام بھی کسی کو دھمکا کر کرواتے رہیں گے۔ نتیجہ نیب کی بدنامی اور کارگردگی پر سوالات اُٹھیں گے۔

2013ءمیں ایک نیب آفیسر کامران فیصل مشہور زمانہ رینٹل پاور پرُاجیکٹ کی تحقیقات کے لیے تعینات تھے۔ مگر ایک دن اپنے کمرے میں مرُدہ حالت میں پائے گئے۔ پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق خودکشی کا واقعہ تھا۔ مگر اسُ کے باوجود کئی سوالات زیرِ غورتھے جیسے کہ گلے پر پھانسی کا نشان تو موجود تھا مگرکسی کرُسی یا میز قریب میں موجود نہی تھی جس کی وجہ سے خودکشی کا واقعہ مشکوک ہو رہا تھا۔ اس کے بعد سے دیگر افسروں نے کا نوں کو ہاتھ لگائے ہوں گئے کہ آئندہ کوئی کسی سیاسی کیس کو تفتیش نہی کرے گا۔ ہر ایک کو اپنی زندگی عزیز ہوتی ہے۔ ڈیل کی افواہیں بھی نیب کی کارگردگی پر برُا اثرڈالتی ہیں کہ اگر کہیں صاف شفاف تحقیقات چل رہی ہے اور ملزم کو قا نون کے مطابق رعایت دی جا رہی ہے تو ڈیل کا شور مچا کر تحقیقات کو متاثر کیا جائے اور افسران کو بھی متنازع بنایا جا ِئے۔ جس سے حا صل نتیجہ بالآخر کیس منتقل ہو کے ملزم کے من پسند افسران کے پاس چلا جائے اور کمزور تفتیش اور دیگر قانونی پہلووں کا فائدہ اُٹھا کر ضمانت کروا لی جائے یا تو مقدمہ ہی ختم ہوجائے۔ یہاں قابلَ ذکر بات کمزور اور پیچیدہ قانونی شقوں کا فائدہ ملزم کو ہوتا ہے پھر ثبوت کے لئے بھی بھاگ ڈور کی جائے۔ پیسے خرچ کیے جائے تب جا کے کچے پکے ثبوت ملے گے۔

گزشتہ دنوں ایک دوست سے بات ہوئی جو کراچی کے ایک نامور ادارے سے وابستہ ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ کچھ دفتری ساتھیوں کے ہمراہ ایک آسڑیلین کمپنی کے لیے کام کیا جس کے اچھے پیسے ملنے تھے۔ پیسے ملنے سے کچھ دن قبل ہی کمپنی کے اوپر کیس ہو گیا۔ یہ لوگ ڈر گئے کہ ہمارے محنت کے پیسے خاک ہوں گئے تاہم کمپنی کے نمائندے نے یقین دلایا کہ سب کے پیسے ٹرانسفر کے بعد ہی کمپنی پر کیس ہوا ہے لہذا سب کو پیسے ملِ جائیں گے۔ جب پیسے پاکستان پہنچے تو بڑی رقم دیکھ کر نیب نے پیسوں کی منتقلی روک لی۔

اب میرے دوست سب ساتھیوں کے ہمراہ نیب کے دفتر پہنچے اور تمام ثبوت اور بینک اسٹیٹمنٹ سامنے رکھی۔ مگر نیب والے معاملے کو طول دیتے گئے کہ کمپنی تو کیس میں پھنسی ہے تو آپ لوگوں کو اُتنی بڑی رقم کیسے پہنچا دی۔ میرے دوست نے تو نئی گاڑی کا آرڈر بھی دے دیا تھا جس کی قسطیں ادا کرنی ہے۔ دیگر لوگ بھی آنکھوں میں خواب سجائے بیٹھے تھے کہ سب چکنا چور ہو گئے۔ یہ صرف ایک واقعہ کے آنکھوں دیکھا احوال ہے۔ ایسے کئی واقعات موجود ہوں گے۔ سیدھے سادھے محنت کش آدمی کو قانونی شقوں سے کیا لینا دینا۔ اُسے تو بس اپنی کمائی کے پیسے ملنے چاہیے۔

موجودہ دور میں بھی نیب مکمل طور پر سیاسی اثر رُسوخ سے آزاد نہیں ہے۔ حکومتِ وقت کو خوش رکھنے کی کوشش میں نیب اکثر اعتدال کا دامن چھوڑ دے دیتی ہے۔ جعلی بینک اکاوئنٹس کا نام ُسنتے ہی شریف لو گ تو پیچھے مڑُ کر نہیں دیکھتے کہ یہ بلا ہما رے سر نہ آجائے۔ وائٹ کالر کرائم کرنے والوں کو بھی سیدھے سادھے اور شریف لوگوں کی ہی تلاش ہوتی ہے کہ انِ کے نام جعلی اکاوئنٹ بنایا جائے اور موقع ملتے ہی اپنی رقم مکھن سے بال کی طرح نکال لی جائے۔

عدالت کی کبھی کبھی اتنی تیزی دیکھنے میں آتی ہے کہ جرُم کر نے والوں کو راتوں رات ملک سے فرار ہونا پڑتا ہے۔ بعد میں جب معاملہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ جب چھپتے چھپاتے واپس تشریف لایا جاتا ہے۔ موجودہ نیب مقدمات محض سیاسی نہیں اس میں کرپشن کی بڑی خوفناک داستانیں رقم ہیں۔ جس کا بلا تفریق حساب ہونا چاہیے۔ ضرورت اسِ امر کی ہے کہ اس مملکت ِخداداد پاکستان کی دولت لوٹنے والوں سے حساب لیا جائے۔ اور ملکی دولت کو واپس لانے کے اقدامات کیے جائے۔ اسِ کے ساتھ ساتھ نیب قوانین بھی ایسے بنائے جائیں جسِ میں بڑی کرپشن کے مجرم کے لیے چھوٹ کم سے کم ہو۔ اور بے گناہوں کے مقدمات پر نظرِ ثانی کر کے انہیں با عزت برّی کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).