ٹرمپ انتظامیہ خواجہ سراؤں کی شناخت ختم کےلیے کوشاں


خواجہ سرا

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کی کوشش ہے کہ امریکہ میں خواجہ سراؤں کو دی گئی باضابطہ شناخت کو ختم کر دیا جائے۔

ٹرمپ انتظامیہ یہ مقصد جنس کی تشریح کو تبدیل کر کے صرف مرد اور عورت تک محدود کرنے کی کوشش میں ہے جس کی تعین پیدائش کے وقت کیا جائے گا اور بعد میں اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

نیو یارک ٹائمز نے سرکاری میمو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ محکمہ صحت اور ہیومن سروسز نے کئی محکموں سے رابطہ کر کے جنس کی قانونی تشریح کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے۔

اس تشریح کے مطابق جنس یا تو مرد یا پھر عورت ہو گی جس کا فیصلہ پیدائش کے وقت جنسی اعضا کو دیکھ کر کیا جائے گا اور اس کو بعد میں تبدیل نہیں کیا جا سکے گا۔

جنس کی تشریح میں تبدیلی سے امریکی صدر براک اوباما کے دورِ حکومت میں جو خواجہ سراؤں کو حقوق ملے ہیں وہ ختم ہو جائیں گے۔

امریکہ میں صفر اعشاریہ سات فیصد عوام اپنی شناخت خواجہ سرا کے طور پر کراتی ہے اور خدشہ ہے کہ ان کے حقوق ختم ہونے سے معاشرے میں برداشت اور مساوات ختم ہو جائے گی۔

ٹرمپ

نیو یارک ٹائمز کے مطابق محکمہ صحت اور ہیومن سروسز نے اس خبر پر یہ کہتے ہوئے تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔

ٹیکساس کی ایک عدالت نے 2016 میں ایک کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ جنسی شناخت کے بنیاد پر استحصال سے بچاؤ کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔

اوباما انتظامیہ نے خواجہ سراؤں کو استحصال سے بچانے کے لیے قوانین بنائے۔

امریکہ: خواجہ سراؤں پر پابندی عدالت میں چیلنج

تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے خواجہ سراؤں پر فوجی سروس پر پابندی لگانے کی کوشش کی اور سرکاری سکولوں میں خواجہ سراؤں کو اپنی مرضی کے باتھ روم استعمال کرنے کے اجازت نامے کو منسوخ کیا۔

ٹرمپ انتظامیہ کے میمو کے مطابق جنس کا تعین حیاتیاتی بنیادوں پر ہونی چاہیے جو کہ ایک سائنسی طریقہ ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یہ قدم ایسے وقت میں اٹھایا جا رہا ہے جب دنیا کے دیگر ممالک خواجہ سراؤں کو زیادہ حقوق دینے کے لیے پرعزم ہیں۔

پاکستان میں گذشتہ سال ہونے والی مردم شماری میں پہلی بار خواجہ سراؤں کی مردم شماری کے لیے ایک علیحدہ خانہ رکھا گیا۔

مردم شماری کے مطابق پاکستان میں 10 ہزار 418 خواجہ سرا ہیں جن میں سے سب سے زیادہ صوبہ پنجاب میں ہیں۔

’جو خواب دیکھا تھا اس کی پہلی سیڑھی چڑھ گئی ہوں‘

‘خوش ہوں کہ مجھے بھی انسان سمجھا جا رہا ہے’

اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں چھ ہزار 709، خیبر پختونخوا میں 913، بلوچستان میں 109، سندھ میں 2527، فاٹا میں 27 جبکہ اسلام آباد میں 133 خواجہ سرا ہیں۔

خواجہ سرا

پاکستان میں یکم جنوری 2010 سے خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ جاری کیے جانے لگے تھے۔

شناختی کارڈ میں مرد خواجہ سرا کا اندراج بطور ‘خواجہ سرا’ جبکہ خاتون خواجہ سرا کا ‘زنخا’ کے طور پر اندارج کیا جاتا ہے۔ تاہم خواجہ سراؤں کو جاری ہونے والے شناختی کارڈ پر ان کی جنس ’مُخنث‘ ہی لکھی ہوتی ہے اور ان کے خواجہ سرا یا زنخا ہونے کا ریکارڈ صرف نادرا کے پاس ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp