رحم دل شہزادہ، بے خبر بادشاہ اور مقتول ہرکارہ


عبداللہ حسین کے ناول ’اداس نسلیں‘ کا مسودہ اشاعتی ادارے ’نیا ادارہ‘کے مالک چوہدری نذیر احمد کے پاس رکھا تھا۔ ایک کے بعد ایک صاحب علم کی رائے چلی آ رہی تھی کہ اردو ادب میں ایک معجزہ تخلیق کیا گیا ہے۔ ادھر چوہدری نذیر احمد کا ذہن کاروباری تھا۔ سعادت حسن منٹو کی آنکھیں دیکھ رکھی تھیں۔ کہنے لگے کہ ناول کی ضخامت ساڑھے چھ سو صفحے ہے اور مصنف کی عمر کل تیس برس ہے جس کی کوئی تحریر اب تک شائع نہیں ہوئی۔ ایک تو یہ کہ مصنف کے حقیقی نام محمد خان کا صوتی تاثر ٹھیک نہیں بیٹھتا۔ اسے تبدیل کیا جائے۔ سو محمد خان، عبداللہ حسین ہو گئے۔ اور دوسرے یہ کہ عبداللہ حسین چند افسانے تحریر کریں جن کی اشاعت سے پڑھنے والوں کی یادداشت میں مصنف کا نام مرتسم ہو سکے۔ اس فرمائش کی تکمیل میں جو افسانے لکھے گئے، ان میں ’ندی‘ بھی شامل تھا۔ حیرت ہے کہ اداس نسلیں کا پس منظر، لہجہ اور کیفیت بیسویں صدی کے نصف اول کا ہندوستان ہے اور ’ندی‘ ساتویں دہائی کے مغربی معاشرے کی کہانی ہے جہاں جنگ عظیم دوم کے دوران پیدا ہونے والی نسل اقدار کی شکست و ریخت سے دست و گریبان تھی۔ اس سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ عبداللہ حسین کی آنکھ کسی ایک منظر کی اسیر نہیں تھی۔ اردو ادب میں شاید ہی کوئی ایسا افسانہ لکھا گیا ہو جس میں جدید مغربی دنیا کے تضادات کی ایسی گہری اور تخلیقی تفہیم ملتی ہو۔ ندی کی ابتدائی سطور میں سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو، ’….یہ ہماری یاد کی رحم دلی ہے کہ منزل منزل پر ہمارا ساتھ چھوڑتی رہتی ہے۔ سارے وقتوں کی یاد کو لے کر ہم نہ چل سکتے ہیں اور نہ مستقبل کے اندھیروں میں شریک ہو سکتے ہیں….”

’ یاد کی رحم دلی‘ ہی کا معجزہ ہے کہ بیسویں صدی کو رخصت ہوئے کل اٹھارہ برس گزرے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے گویا ایک جُگ بیت گیا۔ ایک سو برس میں کیسی کیسی واردات گزری۔ دو عالمی جنگیں۔ ساٹھ سے زیادہ ملک غیر ملکی غلامی سے آزاد ہوئے اور اپنوں کی قید میں گرفتار ہو گئے۔ انسان چاند پر جا اترا۔ انسان نے ایٹم بم کی تباہی دیکھی۔ ستر برس پر محیط اشتراکی تجربہ، چالیس برس طویل سرد جنگ، معنی اور بے معنویت کی سیربین، حقوق کے خواب سے ہتک کی پاتال تک اور آزادی کے منزلوں سے جبر کی تکان تک، کیا کچھ نہیں گزرا۔ اور پھر ایسی صدی کہ ایک سے بڑھ کر ایک عبقری خیال اور امکان کی نئی زمینیں دریافت کرتا رہا…. انیسویں صدی کی سائنسی رجائیت تو کم عمری کا رومان بن کر رہ گئی۔ پوری صدی سے دو نام لینا چاہتا ہوں۔ درویش اپنی تحریر میں فہرست سازی کی غرض سے نام نہیں لیتا۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ مجرد خیال کی تجسیم ہو سکے۔ ایک تو اٹلی کا انتونیو گرامچی تھا۔ فکر اور عمل کا منفرد امتزاج۔ کہتا تھا کہ دنیا کو بدلنا ہے تو دانش کی ناامیدی میں ارادے کی چنگاری رکھنا ہو گی۔ جن برسوں میں گرامچی مسولینی کے قید خانے میں خون تھوک رہا تھا، اٹلی ہی میں اوریانا فلاچی نام کی لڑکی 1929ءمیں پیدا ہوئی۔ پندرہ برس کی عمر میں بندوق اٹھائے فسطائیت کے خلاف مزاحمت میں شریک تھی۔ فلاچی کا نام ہم تک تو 1972ءمیں بھٹو صاحب کے انٹرویو کے ذریعے پہنچا لیکن صحافت سے ہٹ کے فلاچی انسانی تاریخ کی شناور بھی تھی۔ کیا خوب لکھا کہ ’جہاں شہری آزادی، جمہوریت اور سیاسی اختلاف کا احترام نہیں کیا جاتا، وہاں بھوک، ناانصافی اور ذلت کی فصل اگتی ہے۔‘

گزشتہ دنوں آزادی اور اختلاف رائے کے سوالات نے دل و دماغ میں بوجوہ دہشت پھیلائے رکھی۔ جمال خشوگی کے قتل کی ہیبت ناک تفصیلات وقفے وقفے سے ملتی رہیں۔ مارنے والوں کے ہاتھ تو آلودہ ہیں، واویلا کرنے والوں کا دامن بھی صاف نہیں۔ یہ طاقت کا کھیل ہے۔ بندوق سے لفظ قتل کیا جاتا ہے اور مالی مفاد کے ہتھیار سے انصاف کی پکار کو خاموش کیا جاتا ہے۔ خود ہمارے ملک میں ایک مہینے کے اندر کم و بیش ایک ہزار صحافیوں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے۔ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو…. طاقت اور اختیار کے اس کھیل کو تدریسی اصطلاحات میں سمجھنا لاحاصل ہے۔ وطن عزیز میں آزادی صحافت کے بہت بڑے علمبردار لیفٹنٹ جنرل مجیب الرحمن مرحوم کو کسی بااصول صحافی کے بارے میں معلوم ہوتا تو از رہ شفقت کہا کرتے تھے ’معصوم آدمی ہے‘۔ معصوم کے اسم صفت میں حقارت، اپنی قوت پر بے پناہ اعتماد اور استہزا، غرض کیا نہیں تھا۔ ٹھیک ایسے ہی مبینہ طور پر برادر اسلامی ملک کے قونصل جنرل نے دوسرے برادر اسلامی ملک کی زمیں پر ہم وطن صحافی کو زبح ہوتے دیکھ کر صرف یہ درخواست کی کہ اسے کہیں باہر لے جا کر مارو۔ جواب ملا کہ تمہاری باری آئے گی تو ایسا ہی کریں گے۔ یہ قصہ بہرصورت اب پاک ہونے کو ہے۔ اسلحہ بیچنے والوں کی لغت میں دیانت کا صرف ایک مفہوم ہے، متعلقہ فریق کو بلاتاخیر اور طے شدہ کک بیک ادا کرنا۔ 727 الفاظ پر مبنی کالم کے دام اپنی جان سے چکانے والوں کی منطق الگ ہے۔

دیکھئیے، ہر ملک میں ریاست ایک غیرشخصی بندوبست ہے جس کے اجزا میں پارلیمان، حکومت، عدالت، فوج، انتظامیہ، تھانہ اور جیل وغیرہ شامل ہیں۔ لکیر کے دوسرے طرف معاشرہ ہے جو انسانوں سے تشکیل پاتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ پارلیمان غیر منصفانہ قانون بنا سکتی ہے۔ حکومت پارلیمان کو بے دست و پا کر سکتی ہے، عدالت حکومت کے ساتھ گٹھ جوڑ کر سکتی ہے۔ تھانہ عقوبت خانہ بن سکتا ہے۔ جیل کی دیواریں قیدی کی کوٹھری سے شہری کی خوابگاہ تک پھیل سکتی ہیں۔ فوج ریاست کی کل مشینری کو چت کر سکتی ہے۔ انتظامیہ شہریوں کے خلاف جرائم میں حصہ دار بن سکتی ہے۔ دستور کی کتاب میں ریاست شہریوں کا عمرانی معاہدہ ہے لیکن عملی طور پر ریاست کا ہر جزو اس عمرانی معاہدے کی حسب خواہش خلاف ورزی کی طاقت رکھتا ہے اس لئے کہ شہریوں نے ریاست تشکیل کرتے ہوئے ریاستی اداروں کو طاقت کے استعمال پر اجارہ سونپا ہے۔ عوام سیاسی جماعت کو ووٹ دیتے ہیں لیکن یہ فیصلہ سیاسی جماعت کو کرنا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد اسے شہریوں کے حقوق کی پاسداری کرنا ہے یا ریاست کے مستقل اداروں کے ساتھ مل کر اختیار کی سازش کا حصہ بننا ہے۔ سیاسی جماعت کی فیصلہ سازی پر شہریوں کا اختیار محدود ہے کیونکہ بہرصورت حکومت میں آنے کے بعد سیاسی جماعت ریاست کا حصہ بن جاتی ہے۔

اس صورت حال میں صرف صحافت ایسا ادارہ ہے جو اپنی پیشہ ورانہ اخلاقیات کا پابند ہوتے ہوئے شہریوں کو زبان عطا کر سکتا ہے۔ صحافت ریاست کا حصہ نہیں بلکہ ریاست کے کسی ممکنہ استحصال یا غفلت کے خلاف شہریوں کے حقوق کا پرچم اٹھانے کی تمدنی خدمت ہے۔ جہاں ریاست صحافت کے اس منصب اور آزادی کا احترام نہیں کرتی، وہاں قانون کی بالادستی قائم ہو سکتی ہے اور نہ کوئی ریاستی ادارہ اپنے حقیقی فرائض ادا کر سکتا ہے۔ صحافت شہریوں اور ریاست کے باہم تعلق کی شفافیت کی ضمانت دیتی ہے۔ اس لئے، اکیسویں صدی کے لوگو، جان لو کہ جہاں ہرکارہ قتل کیا جاتا ہے، جہاں اخبار جلایا جاتا ہے، جہاں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی آواز بند کی جاتی ہے، جہاں انٹرنیٹ میں رخنہ ڈالا جاتا ہے، وہاں شہزادہ رحمدل نہیں ہوتا اور بادشاہ کو بے خبر سمجھنے والے لاعلمی کے اندھیرے میں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).