تحریک انصاف سے پشاور والے ناخوش، کراچی والے خوش


الیکشن

پاکستان میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کراچی میں منقسم متحدہ قومت موومنٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے قدم جما رہی ہے لیکن دوسری جانب اسے اس صوبے میں ضمنی انتخابات میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جس نے پہلی بار اسے اقتدار کا راستہ دکھایا تھا۔

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں حکمران جماعت تحریک انصاف کو دوسری مرتبہ زبردست کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کے اکثر رہنما اس جیت کو ٹاک شوز میں بڑے زور و شور اور فخر سے بیان کیا کرتے تھے اور بطور مثال یہ کہتے کہ ہم نے خیبر پختونخوا کی انتخابی تاریخ تبدیل کرکے رکھ دی ہے جہاں سے وہ دوسری مرتبہ کامیاب ہو گئے۔ لیکن شاید ان کو اندازہ نہیں تھا کہ پختونخوا کے ووٹر کا مزاج کبھی اتنا جلدی تبدیل بھی ہوجاتا ہے۔

موروثی سیاست یا عوام بدظن

پشاور

اتوار کو پشاور میں صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی کے 71 پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں حکمران جماعت تحریک انصاف اپنی ایک اور نشست سے محروم ہوگئی ہے ۔ یہ نشست تمام اپوزیشن جماعتوں کے حمایت یافتہ عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار صلاح الدین موند نے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق جیت لی ہے۔

اے این پی کے امیدوار نے تقریباً گیارہ ہزار ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جبکہ ان کے مدمقابل پی ٹی آئی کے مضبوط سمجھے جانے والے امیدوار اور موجودہ گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان کے بھائی ذوالفقار خان تقریباً ساڑھے نو ہزار ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

صوبائی اسمبلی کا حلقہ پی کے 71 سے 25 جولائی کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے صوبائی رہنما شاہ فرمان واضح برتری کے ساتھ جیت گئے تھے تاہم گورنر کی حیثت سے نامزدگی کے بعد انہوں نے یہ نشست خالی کردی تھی۔

انتخابات جیتنے والے نو منتخب ایم پی اے صلاح الدین موند تقریباً ایک ماہ پہلے تک پی ٹی آئی کا حصہ تھے اور 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں انہوں نے اپنے حلقے سے پی ٹی آئی کے نامزد امیدواروں کی مہم بھی چلائی تھی۔

تاہم جب ضمنی انتخابات کا مرحلہ آیا اور ٹکٹوں کی تقسیم شروع ہوئی تو صلاح الدین موند نے بھی پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے کےلیے درخواست دے دی لیکن انہیں ٹکٹ نہیں ملا بلکہ یہ ٹکٹ موجود گورنر شاہ فرمان کے بھائی ذوالفقار خان کو ملا جس کے بعد وہ ناراض ہوکر پارٹی چھوڑ گئے اور اے این پی میں شامل ہوئے۔

خیبر پختونحوا میں گذشتہ تقریباً دو ماہ کے قلیل عرصے میں پی ٹی آئی مجموعی طورپر اپنی چار نشستوں سے محروم ہوچکی ہے۔ ان میں دو سوات اور دو پشاورکی صوبائی اسمبلی کی نشستیں کے علاوہ ایک بنوں کی واحد قومی اسمبلی کی نشست بھی شامل ہے جہاں سے عام انتحابات میں موجودہ وزیراعظم عمران خان جیت گئے تھے۔

سوال یہ ہے کہ خیبر پختونخوا اور بالخصوص پشاور کے ووٹر کا مزاج اتنا جلدی کیوں تبدیل ہوجاتا ہے۔ کیا یہ حکمران جماعت کے اندر ہونے والی گروپ بندیوں کی وجہ سے ہوا یا عوام کا ایک لحاظ سے موجودہ حکومت کی پالیسیوں اور ان کے اقدامات پر عدم اعتماد کا اظہار ہے؟

صوبے کی سیاست پرگہری نظر رکھنے والے انگریزی اخبار سے وابستہ پشاور کے سینیئر صحافی اسماعیل خان کا کہنا ہے کہ حکومت کو اقتدار میں ائے ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے لیکن وہ تقریباً پانچ نشستوں سے محروم ہوچکی ہے جو ان کےلیے ایک بڑا لمحہ فکریہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے حالیہ دنوں میں کچھ ایسے اقدامات لیے ہیں جس سے بجلی ،گیس، تعمیراتی سامان اور دیگر ضروری اشیا کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے جس سے بظاہر لگتا ہے کہ عام ووٹر ان سے بدظن ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا یا پشاور کا ووٹر اگر ایک طرف کسی جماعت کو دو مرتبہ عام انتخابات میں کامیاب کراسکتا ہے تو پھر اسی جماعت کو دو مہینوں کے دوران ہرا بھی سکتا ہے۔ ان کے مطابق صوبے میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات میں اگر کسی جماعت نے ٹھوس ووٹ لیا ہے وہ عوامی نیشنل پارٹی ہے اور جنہوں نے مجموعی طورپر تین نشتیں جیت کر بڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔

پشاور کے سنئیر اینکر پرسن وقاص شاہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں ٹکٹوں کی تقسیم پر اختلافات کی وجہ سے وہ پشاور کی اہم سیٹ گنوا بیٹھے۔ انہوں نے کہا کہ جیتنے والے امیدوار صلاح الدین موند کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں پی ٹی آئی کا ووٹ بھی ملا ہے کیونکہ تمام ناراض ووٹر ان کے ساتھ تھے۔

وقاص شاہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان مورثی سیاست کی شدید مخالفت کرتے رہے ہیں لیکن حالیہ اور اس سے پہلے ہونے والے ضمنی الیکشن میں بیشتر ٹکٹ پارٹی کے اہم رہنماؤں کے بیٹوں یا عزیزوں رشتہ داروں میں تقسیم کئے گئے جس سے بظاہر لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کا تعلیم یافتہ ووٹر بھی بدظمن سا ہوگیا تھا ۔

‘امید کو ووٹ’

کراچی

جولائی کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے کراچی سے غیر معمولی نتائج حاصل کر کے وہاں دہائیوں سے مقامی سیاست میں راج کرنے والی سیاسی جماعت ایم کیو ایم کے متبادل کے طور پر خود کو منوایا تھا اور اب حالیہ ضمنی انتخابات میں بھی یہ ہی تسلسل جاری ہے۔

کراچی کی شہری آبادی کئی برسوں سے بدامنی دیکھ چکی ہے اور شہر کی سب سے بڑی جماعت ایم کیو ایم کی بھاگ دوڑ سنبھالنے اور آپسی کشیدگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلا کو کہا جائے تو تحریک انصاف نے ‘ نیا پاکستان’ کے نعرے سے پر کیا ہے۔

کراچی میں پی ٹی آئی کی جانب سے اپنی جگہ بنانے کے حوالے سے تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ کراچی میں پاکستان تحریک انصاف کی جیت میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس شہر میں کوئی قومی سیاسی پارٹی نہیں ہے جس کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہوا۔

‘دیکھیں کراچی میں ایم کیو ایم تقسیم ہے، کراچی والے پاکستان پیپلز پارٹی کو قبول کرنے کو تیار نہیں، مسلم لیگ نواز نے کام نہیں کیا۔ اس لیے کراچی والوں کو پی ٹی آئی سوٹ کرتی ہے۔’

انھوں نے مزید کہا کہ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ کراچی میں پی ٹی آئی کا کوئی ماضی نہیں ہے۔ اس سے قبل وہ اس شہر میں نہیں تھے اور پہلی بار اس جماعت نے شہر میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔

‘کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی سب کا ماضی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کا کوئی ماضی نہیں ہے کراچی میں اور اسی لیے لوگوں کو اس سے امید ہے۔’

کراچی میں گذشتہ کئی سالوں سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے جس میں بجلی کا غائب ہونا، پانی کی قلت، کچرے کے انبار اور ان مشکلات کے ازالے کے لیے صوبائی حکومت اور بلدیاتی نظام بری طرح ناکام رہی۔

تجزیہ کار ڈاکٹر توصیف احمد کہتے ہیں کہ کراچی کی عوام کو اتنی مشکلات درپیش تھیں اور وہ متبادل کی تلاش میں تھی اور وہ متبادل ان کو پاکستان تحریک انصاف میں نظر آیا۔

’پی ٹی آئی کا کراچی میں قدم جمانا زرداری حکومت کے ڈاکٹرائن کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ گورننس میں بہتری لانا ضروری ہو گیا ہے۔‘

ڈاکٹر توصیف سے سہیل وڑائچ متفق ہیں اور کہتے ہیں کہ اس بات کو بھی مدنظر رکھیں کہ 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے علاوہ اور آپشن کیا تھی۔ اس بار اس جماعت کو دیکھیں گے اور اگر یہ ناکام ہوتی ہے تو پھر نہیں دیں گے۔

‘کراچی کی عوام کا یہ تجربہ اگر کامیاب رہا تو وہ اس کے ساتھ ہی رہے گی اور اگر یہ خواب چکنا چور ہو گیا تو ۔۔۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp