ایڈیٹروں کی قلابازیاں


ایڈیٹری ایک مفید پیشہ

پٹیالہ میں ایک صاحب پنڈت ملکھی رام شرم کسی دفتر میں کلرک تھے، وہاں ساٹھ روپیہ تنخواہ پاتے۔ انہوں نے پٹیالہ میں دیکھا، کہ ایڈیٹر لوگ وہاں آتے ہیں، بڑے بڑے افسروں اور مہاراجہ سے ملتے ہیں، اور رخصت ہوتے وقت سو دو سو روپیہ بطور رخصتانہ بھی وصول کرتے ہیں۔ آپ نے سوچا، کہ اس کلرکی کے مقابلہ پر تو ایڈیٹری ہی اچھی ہے۔ کلرکوں کو تو ڈپٹی کمشنر سے ملنا بھی ممکن نہیں، اور یہ ایڈیٹر مہاراجہ سے مل لیتے ہیں۔ سرکاری دعوتیں اڑاتے، اور چلتے وقت بطور رخصتانہ روپیہ وصول کرتے ہیں۔

آپ اس کلرکی سے مستعفی ہو گئے، اور دہلی تشریف لے آئے۔ دہلی پہنچنے کے بعد آپ راقم الحروف سے ملے، اور اپنا اخبار جاری کرنے کے سلسلہ میں مشورہ طلب کیا۔ راقم الحروف سے نیا اخبار جاری کرنے کے متعلق جب بھی کوئی مشورہ لیتا، تو وہ مشورہ لینے والوں کی کبھی حوصلہ شکنی نہ کرتا۔ حالانکہ وہ جانتا، کہ اخبار جاری کرنا ایک خاردار میدان میں قدم رکھنا ہے۔ کیونکہ اگر حوصلہ شکنی کی جاتی، تو راقم الحروف پر پیشہ ورانہ حاسد ہونے کا الزام لگایا جاتا۔ پنڈت ملکھی رام شرم نے ”انصاف“ کے نام سے ڈیکریشن داخل کر دیا، اور یہ اخبار جاری ہو گیا۔

پنڈت ملکھی رام شرم ذاتی اعتبار سے بہت ہی مخلص اور دوست نواز شخصیت تھے۔ آپ نے اخبار جاری کر دیا۔ چند ماہ تو یہ اخبار ہر ہفتہ باقاعدہ شائع ہوتا رہا۔ اس کے بعد جب مالی مشکلات پیدا ہوئیں، تو یہ اخبار کبھی دو ہفتہ بعد اور کبھی تین ہفتہ بعد شائع ہوتا۔ آپ اکثر دفتر ”ریاست“ میں تشریف لایا کرتے۔ جنگ کے زمانہ میں آپ نے حکام سے مل کر کنٹرول کے اشہارات حاصل کر لئے۔

آپ کے اخبار کا نام عدالتی اشتہارات کی سرکاری لسٹ میں شامل کر دیا گیا۔ سینما کا بھی کوئی نہ کوئی اشتہار حاصل کر لیتے، اور اپنا گزارا کر لیتے۔ مگر آپ اپنی مشکلات بیان کیا کرتے۔ ایک روز راقم الحروف نے پنڈت ملکھی رام سے کہا، کہ پنڈت جی اس صورت میں اخبار جاری رکھنے سے کیا حاصل، جبکہ یہ اخبار نہ تو آپ کے لئے کافی مالی منافع کا باعث ہے، اور نہ پبلک کی کوئی خدمت انجام دے رہا ہے۔ کبھی کبھی شائع ہوتا ہے، اور اسے کوئی نہ اہمیت حاصل نہیں۔ پنڈت جی نے میرے اس سوال کا جو جواب دیا، وہ بہت ہی دلچسپ تھا۔

آپ نے فرمایا
” اخبار جاری کرنے سے پہلے میں پٹیالہ کے ایک دفتر میں ساٹھ روپیہ ماہوار کا کلرک تھا، اور ایک کلرک کی جو پوزیشن ممکن ہے، وہ آپ پر ظاہر ہے۔ اب میں ایک ہفتہ وار اخبار کا ایڈیٹر ہوں۔ جب چاہتا ہوں، چیف کمشنر اور دوسرے افسروں سے مل سکتا ہوں۔ لوگ مجھے ایڈیٹر صاحب کہتے ہیں، اور میری بیوی بھی محلہ میں ایڈیٹرنی صاحبہ کہلاتی ہے۔ ٹی پارٹیوں میں مدعو کیا جاتا ہوں، سینما کے پاس مفت مل جاتے ہیں۔ کئی لوگ میرے پاس آتے ہیں، اور مجھ سے افسروں سے سفارش کراتے ہیں۔

اب میں پٹیالہ یا سنگرور وغیرہ کسی ریاست میں جاتا ہوں، تو وہاں سرکاری مہمان ہوتا ہوں، اور وہاں سے رخصت ہوتے وقت سو دو سو روپہ بھی دیا جاتا ہے۔ اخبار جاری کرنے سے پہلے پٹیالہ کے ڈپٹی کمشنر سے ملنا ممکن نہ تھا۔ اب میں وہاں کے وزراء سے بے تکلف ملتا ہوں، اور میں کھاپی کر سو ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار بچا لیتا ہوں۔ آپ ہی بتائیے، کہ وہ کلر کی اچھی تھی یا یہ ایڈیٹری۔ اور اگر میں اب اخبار بند کر دوں، تو پھر کلرکی کرنا میری حماقت نہ ہو گی؟ کیونکہ اخبار بند کرنے کے بعد میں اب سوائے کسی دفتر کی کلرکی کے کر بھی کیا سکتا ہوں“۔

پیڈت ملکھی رام شرما کی یہ صاف بیانی مجھے لاجواب کرنے کے لئے کافی تھی۔ کیونکہ اگر پبلک کی خدمت کا سوال نہ ہو، تو معمولی قابلیت کے لوگو ں کے لئے اخبار جاری کرنا منافع بخش پیشہ ہے۔

خریدار کم ہونے کا روشن پہلو

دہلی سے ایک ہفتہ وار انگریزی اخبار ریاستوں کے معاملات کے لئے وقف تھا۔ اس اخبار میں بعض ریاستوں کی تعریفیں اور بعض کی مخالفت ہوتی۔ یہ اخبار ہمیشہ ہی دو سو زیادہ کبھی نہ چھپا، اور ان دو سو پرچوں میں سے بھی پچاس کے قریب تو خریدار تھے، ایک سو کے قریب اخبار بڑے بڑے لوگوں اور اخبارات کو مفت بھیجا جاتا، اور پچاس پرچے دفتر میں پڑے رہتے۔ چنانچہ اس اخبار میں تین ماہ تک پنجاب کی ایک مسلم ریاست کے خلاف مضامین شائع ہوتے رہے، اور نواب صاحب پر الزامات لگائے گئے تین ماہ کی اس ”صحافتی گولہ باری“ کے بعد نواب صاحب کے سیکرٹری دہلی آئے، اور اس اخبار کے ایڈیٹر صاحب سے ملے۔

پانچ سو روپیہ میں فیصلہ ہوا۔ تو اگلے ہفتے معاہدہ کے مطابق ایڈیٹر صاحب نے ایک ایڈیٹوریل شائع کیا، جس میں اس بات کا اظہار افسوس کیا گیا، کہ اس اخبار کو ان نواب صاحب کے متعلق غلط اطلاعات ملی تھیں، جن کی اب تردید کی جا رہی ہے۔ اس اخبار کے مدراسی ایڈیٹر صاحب دوسرے چوتھے روز دفتر ”ریاست“ میں تشریف لایا کرتے۔ اس تردیدی ایڈیٹوریل کے شائع ہونے کے بعد آپ جب دفتر ”ریاست“ میں تشریف لائے، تو باتوں باتوں میں راقم الحروف نے ان ایڈیٹر صاحب سے دریافت کیا، کہ تین ماہ تک مسلسل مخالفت کے بعد اب تردید کرنے کا اس اخبار کے پڑھنے والو ں پر کیا اثر ہو گا؟ تو ایڈیٹر صاحب نے بے تکلفی سے ارشاد فرمایا:۔
” سردار صاحب خریدار ہیں کہاں، جو محسوس کریں گے۔ “

یعنی جب اخبار کے خریدار ہی نہیں، تو محسوس کون کرے گا۔ پچاس خریدار ہیں، اور دو سو کی تعداد میں اخبار چھپتا ہے۔ یہ پچاس خریدار محسوس کرتے ہیں، تو کریں، ایڈیٹر صاحب کو پانچ سو روپیہ بھی تو ملا، جس سے اب کئی ماہ کے لئے کاغذ خرید لیا جائے گا۔ راقم الحروف اس جواب کو سن کر خاموش ہو گیا۔ کیونکہ ایسی تردیدیں کرنا ان اخبارات کے لئے ممکن نہیں، جو ہزارہا کی تعداد میں چھپتے ہیں۔ ان اخبارات کے خریدار اعتراضات سے بھرے ہوئے خطوط لکھ دیتے ہیں۔ ایسی تردیدیں ان اخبارات میں شائع ہونا بہت آسان ہیں، جن کے خریدار نہ ہوں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon