کوک سٹوڈیو اور مومنہ مستحسن کے حق میں


سچ تو یہ ہے کہ لیپ ٹاپ گھر اس لیے لے کر آیا تھا کہ مزدوری کر کے دو چار کام جو دن میں اٹکے رہے، ختم کر دوں گا، مگر پھر موئے ٹویٹر پر جانا ہوا، تو محترمہ شیریں مزاری صاحبہ کی اک ٹویٹ، جس کا جواب مومنہ مستحسن نے دیا، سے شروع ہونے والے سلسلہ کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس سے قبل بھی پچھلے تین دنوں سے سوشل میڈیا پر کوک سٹوڈیو پر مسلسل تنقید، تبری، طنز اور کئی مرتبہ تضحیک کا اک نہ رکنے والا سلسلہ دیکھنے کو مل رہا ہے تو دل بہت کھٹا ہوا۔

کیوں؟ بتاتا ہوں۔

بقول استاد ۔۔۔۔ ، جو #گدھےکےبچے کی حالیہ شبنم افشانی کی وجہ سے بھی مشہور ہوئے ہیں، ہم پاکستانی دنیا کی تیسری ذہین ترین قوم ہیں۔ اپنی جان بچانے کے لیے کہتا ہوں کہ استاد ۔۔۔۔ کی عظیم کنیت بھی اک مشہور کالم نگار چوہدری صاحب کی دین ہے جنہوں نے شاید سنہ 2006 میں استاد کے ساتھ ہونے والی اک کالمی جنگ میں، یہ عظیم صحافتی ”راز“ سرِعام کیا۔

تو ہم تیسری ذہین ترین قوم کے اکثریتی ارسطؤں، بقراطوں، افلاطونوں اور فیاض چوہانوں کو معلوم ہی نہیں ہو گا کہ کبھی پاکستان میں سُر، سنگیت، فلم، ڈرامہ، ادب اور دیگر فنونِ لطیفہ سے جڑے بے شمار معاملات کو پرانے پاکستان کی اصلی کاروباری کلاس مدد اور سرپرستی فراہم کرتی تھی۔

یہ پاکستان کی وہ شہری اپر۔ مڈل، جینٹری اور صنعتکار کلاس تھی جنہوں نے اپنی زندگی اور معاشی فوائد پاکستان کے ساتھ جوڑے، اور پاکستان کو صنعت و حرفت کی جانب گامزن کیا۔ بھٹو مرحوم نے ان پر قومیانے کی اک بے سمت، بے مغز، گہری اور ایسی کاری ضرب لگائی کہ پاکستانی صنعتکار کا آج تک مقامی معاشرے اور ریاست پر اعتماد بحال نہ ہو سکا۔ پیسوں کے ساتھ ساتھ، اک مغربی ملک کی شہریت، اکثریتی پاکستانی کاروباری طبقے کے پاس ہے، اور یہ پچھلے چالیس سالوں کی معاشی پالیسیوں پر اک بھدا تبصرہ بھی ہے۔

تو صاحبو، پرانے اور اصلی پاکستان میں کہ جب تک یہ جزیرہ نما عرب کی سیاسی محبت میں الباکستان نہیں بنا تھا، کاروباری، بالخصوص کراچی سے تعلق رکھنے والے صنعتکار خاندان سماج کو نرم اور خوبصورت رکھنے کی اہمیت کو جانتے ہوئے فنونِ لطیفہ کی مسلسل سرپرستی کرتے تھے۔

ان میں آدم جی تھے۔ ان میں داؤد تھے۔ ان میں حبیب تھے۔ ان میں ولیانی تھے۔ ان میں آواری تھے۔ ان میں شیخانی تھے۔ ان میں رنگون والا تھے۔ ان میں نینی تال والا تھے۔ ان میں دیوان تھے۔ ان میں (چنیوٹی) شیخ تھے۔ ان میں دادا بھائی تھے۔ ان میں سعید۔ بھائی تھے۔ ان میں لاکھانی تھے۔ ان میں ہاشوانی تھے۔ ان میں دادا تھے (یہ دادا بھائی سے الگ خاندان تھا)۔ ان میں فیکٹو تھے۔ ان میں صدیقی، بخاری تھے۔ پولانی، تابانی اور یونس برادرز تھے۔ انہی میں ہارونز تھے اور ٹاٹا بھی۔ باوانی تھے، فینسی تھے اور اصفہانی اور مل والا تھے۔

پنجاب کی طرف آئیے تو خدا بخشے، شاہزادہ عالم منوں تھے۔ سہگل تھے۔ ابراہیم گروپ تھا۔ سروس گروپ تھا۔ ان میں نون تھے۔ ان میں کریسینٹ گروپ تھا۔ ان میں پیکیجز گروپ تھا۔ ان میں عابد گروپ تھا۔ ان میں دین گروپ تھا۔ ان میں کالونی گروپ تھا۔ غنی گروپ تھا۔ مولابخش اور فتح گروپ تھا۔

اوپری گروپس، جلدی اپنے ذہن سے تحریر کیے۔ کمی بیشی کی پیشگی معذرت۔

ان تمام گروپس نے تو نہیں، مگر ان میں سے کئی ایک نے پاکستان میں فنون کے اک وسیع انتخاب کو زندہ رکھا۔ ان گروپس کی اپنے وطن کے ساتھ، آپ اس کی بھلے جو بھی ہو تشریح کر لیں، مگر اک کمٹمنٹ تھی جو ہماری ریاست اور مسلسل بے یقینی کی کیفیت نے اگر مکمل ختم نہ کی تو قریب قریب توڑ کر ضرور رکھ دی۔ ان گروپس میں سے تمام کے بانیان، شاید سارے کے سارے پاکستان میں ہی مدفون ہیں، یا ہونا چاہیں گے، مگر ان تمام کے بچوں کی اکثریت کے پاس کم از کم اک مغربی پاسپورٹ ضرور ہے۔

اب آ جائیے کوک سٹوڈیو اور مومنہ مستحسن کی جانب۔

کوک سٹوڈیو نے سنہ 2006۔ 2007 میں اپنے سفر کا آغاز کیا اور پچھلے گیارہ برس میں پاکستان میں بصورت دیگر مر جانے والے سازوں، قریب مرگ سازندوں، گلوکاروں، موسیقی اور نغمات کی مختلف اقسام کو زندہ کیا، اور مرنے سے بچایا۔ انہی مختلف اقسام کو آپس میں ایسے ملایا کہ جگنی، تاجدار حرم، جانے بھی دو، من کنت مولا، بابو بھائی، سلطنت کے علاوہ بہت سارے ایسے نغمات عطا کیے جو بلاشبہ عالمی معیار کے مطابق تھے اور بار بار، ہزار بار سنے جانے کے قابل بھی ہیں۔

اس سلسلہ کو چلتے ہوئے اب گیارہ برس ہو چکے ہیں اور ان گیارہ برسوں میں اس پلیٹ فارم نے پاکستان میں موسیقی کی اک اچھوتے انداز میں ایسے خدمت کی ہے کہ تمام کے تمام پاکستانی کاروباری گروپس مل کر اس کا پچیس فیصد بھی نہیں کر سکے۔ بہت ساری نئی آوازوں میں، اسی پلیٹ فارم نے مومنہ مستحسن کو بھی متعارف کروایا، اور آج وہ جانی جاتی ہیں۔

کوک سٹوڈیو کی تخلیقات پر تخلیقی تنقید اک نہیں، ہزار بار جائز ہے، مگر تضحیک، طنز اور دشنام کیسے جائز ہے، میری سمجھ سے باہر ہے۔ تشدد کی بارڈر لائن پر ڈولتے اک مردانہ معاشرے میں مومنہ مستحسن جیسی اک خاتون سنگر کا اپنا سفر جاری رکھنا ہی بڑی نعمت ہے، وگرنہ میری نسل نے تو سنہ 1979 سے موسیقی اور فلم میں پاکستانی تخلیق کے معیار کو مسلسل گرتے ہوئے ہی دیکھا۔

ازل تا ابد کی مستقل عظیم ترین اور تیسری ذہین ترین پاکستانی عوام سے دلی درخواست ہے کہ یا تو کوک سٹوڈیو سے بہتر پلیٹ فارم بنائیں؛ مومنہ مستحسن اور دیگر گلوکاروں سے بہتر گلوکاری کریں؛ کوک سٹوڈیو یا پیپسی بیٹل آف بینڈز سے عمدہ تخلیقات کریں یا پھر عقل سے بھرے دماغوں سے جڑے مستقل کھلے دہانے بند کریں۔

اگر بہتر نہیں کر سکتے، تو صاحبو، خود کو بدتر بھی ثابت نہ کریں۔
ویسے بھی اسلام میں خاموشی بھی اک عبادت گردانی گئی ہے۔ کم از کم یہی عبادت ہی کرلیں۔ بہتر حوروں کا سوال ہے۔ خدارا!
دانشگردی ہو گئی۔ اب میں پھر سے مزدوری کروں گا۔ شکریہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).