مومنہ مستحسن، شیریں مزاری کے انسانی حقوق سلب کرتے ہوئے


ہمیں دور پار سے جاننے والے بھی اس بات سے آشنا ہیں کہ ہمیں کھانے سے کس قدر رغبت ہے۔ ہمارے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بھی ہمارے اسی عشق مجازی کے گواہ ہیں۔ جہاں ہماری عمر کے باقی لوگ اپنے بچوں کی سکول میں منائی جانے والی سالگرہ پر فیسبک رنگین کر دیتے ہیں وہیں اس خاکسار کی کل خوشی لبرٹی میں کپری ریستوران میں بیٹھ کر نرم گرم حلوے اور پوریوں کے صدقے واری جانا ہے۔ ہر کسی کی اپنی انٹرٹینمنٹ ہے نا بھیا۔ کسی کا خزانہ کنبہ تو کسی کی متاع بریانی۔ ہمارے ٹوئٹر کے فالوورز تو ہماری خوش خوراکی سے باقاعدہ عاجز آ چکے ہیں۔ کسی ہمسائے کو بھی کھاتا دیکھیں تو کیمرہ اور چمچہ لے کر پہنچ جاتے ہیں۔

یہاں یہ بھی کہتے چلیں کہ جس طرح ہماری خوشی کھانا کے اسی طرح ہمارا غم بھی اسی دشمن جاں سے مشروط ہے۔ جس دن گھر میں دال پکے صف ماتم بچھائے دیتے ہیں۔ جس قدر دال کے دانے اسی قدر ہمارے آنسو۔ اور اگر گوشت کے بھننے میں کوئی کسر رہ جائے تو وہیں جان دینے اور لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے ہماری یونیورسٹی کی کینٹین والے ہمارے کوئی خاص دوست نہیں۔ اینٹ کتے کا یہ مقابلہ جاری رہتا ہے۔

آپ کی سہیلی کی اسی شوقین مزاجی سے روح کی غذا یعنی موسیقی بھی محفوظ نہیں۔ جو خوشی اچھا گانا دیتا ہے وہی دل برا گانا چیر دیتا ہے۔ ہم نے پورے دن کو کھانے اور موسیقی کے اعتبار سے تقسیم کر رکھا ہوتا ہے۔ صبح میں ہندوستان تو شام میں انگلستان کی موسیقی کا راج رہتا ہے ہمارے دل میں۔

برا گانا گانے والے سے ہمارا وہی تعلق ہے جو اپنی کینٹین والوں سے ہے۔ اگر آپ کو لگ رہا ہے کہ ہم کوک اسٹوڈیو کی فاتحہ خوانی کی خاطر یہ تمہید باندھ رہے ہیں تو بالکل صحیح لگ رہا ہے۔ اور اگر آپ کو یہ بھی گمان ہے کہ ہم اس سیزن میں گائے جانے والے کوکو کورینا کا تذکرہ کرنے والے ہیں تو بھی صحیح پہنچے۔ یہ جہاد بس شروع ہونے کو ہے۔

ابھی ہم آفرین آفرین کا غم نہ بھلا پائے تھے کہ مومنہ بی بی کوکو کورینا کی چیر پھاڑ کرنے لگیں۔ ہمارا دل کتنے ٹکڑوں میں بٹ گیا ہم نہیں جانتے کہ اب شمار ممکن نہیں۔ اس گانے میں یوں تو احد رضا میر بھی تھے لیکن مومنہ کے پچھلے گناہوں نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ اور انٹرنیٹ ان پر دھڑا دھڑ میمز بنانے میں جٹ گیا۔

یہی نہیں انسانی حقوق کی وفاقی وزیر محترمہ شیریں مزاری نے بھی ملک میں ہونے والی انسانی حقوق کی اس سنگین خلاف ورزی کا بھرپور نوٹس لیتے ہوئے جھٹ ایک ٹویٹ دے ماری۔ آخر کو کسی کو جرآت بھی کیسے ہوئی اس گستاخی کی؟ یہ گانا انہیں گانے ہی کیوں دیا گیا؟ بالکل بجا فرمایا عالم پناہ۔

مومنہ بھی اپنے فینز کے بل بوتے پر اپنا قد بتاتی دکھائی دیں اور جھٹ وزیر صاحبہ کو لتاڑ ڈالا کہ اپنے عہدے کا لحاظ کریں اور کسی بھی ایسے پنگے میں نہ پڑیں۔ بس جی یہیں سے عالمی جنگ سوم کا آغاز ہوا اور ٹوئٹر بغیر حامد میر کا کیپٹل ٹاک بن گیا۔ شیریں مزاری کی دختر نیک اختر بھی مومنہ مستحسن کے حق میں کھڑی ہو گئیں کہ گھر میں بیلنس ہونا چاہیے۔ گڈ کاپ بیڈ کاپ۔ اس وقت ٹوئٹر پر وہ واویلا ہے کہ ہمارا وعدہ ہے آپ کو اپنے گھر میں ساس بہو کے جھگڑوں کا چسکا لینے کی چنداں ضرورت نہیں۔ سیاست بھی کیوں پیچھے رہتی؟ ہمارا تو جی ہے کہ ہیش ٹیگ #شیمنہ بنا ڈالیں اور پاپ کارن کی ریڑھی لگا لیں۔ بزنس چکے گا۔

دیکھیے صاحب اگر آپ نے تیلی لگانے کے لئے ہمارا تبصرہ مانگا تو ہم آنکھیں چرا کر چلتے بنیں گے۔ شیروں کے اس میلے میں ہمیں تو بس اپنی پاپ کارن اور کڑک چائے بیچنے سے مطلب ہے۔ کہ جہاں کوک اسٹوڈیو نے محض اسٹار پاور کی بنیاد پر موسیقی کا جنازہ نکالا ہے وہاں وزیر مملکت کو بھی احساس کرنا ہو گا کہ اب وہ اپوزیشن میں رولا مچانے کی پوزیشن سے نکل چکی ہیں۔ ایک اہم۔ وزارت کی منصب دان ہیں۔ جہاں مومنہ مستحسن کو موسیقی کا جنازہ پڑھانے کا حق نہیں وہیں وزیر صاحبہ کو بھی کنٹینر سے اترنا ہو گا۔
ہائے اللہ یہ انجانے میں کیا کہہ بیٹھے ہم؟ لگی رہیے خواتین۔ ہم زیاں کار نہیں بنیں گے اور اپنے پاپ کارن کے کاروبار کو دن دگنی رات چوگنی ترقی دیں گے۔ چسکے آپ لیں منافع ہم لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).