کراچی میں ڈرون حملہ


بچپن سے ہی کوا میرا پسندیدہ پرندہ رہا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی کوّے کی مضبوط پوزیشن دیکھ کے خوشی ہوتی ہے۔ کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ کوئی چھٹے ساتویں فلور سے کوّا کاں کاں کرتا ہوا گزرا تھا۔ وہ بیچارا کسی گیلری کے قریب تو پہنچا بھی نہیں تھا۔ پھر بھی سارے فلیٹوں میں بے چینی کی لہر سی اٹھی اور بھگدڑ مچ گئی۔ مہمانوں سے بیزار فلیٹوں والے ہائی الرٹ ہوگئے ایک دم ایمرجنسی نافذ ہوگئی۔ مہمانوں کے آنے کے امکانی خطرے کو دیکھتے ہوئے کچھ لوگ جلد تیار ہوکے باہر نکل گئے۔

جو لوگ باہر نہیں جاسکے وہ باہر سے تالا لگواکے بیٹھے تھے کہ تالا دیکھ کر جو بھی آئے وہ واپس چلا جائے۔ آج کل مہمان کی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ جب کہ ہم مہمان نوازی کی قدیم روایتیں رکھنے والی قوم ہیں۔

مختلف اقتصادی اور علمی ماہرین نے مہمان کی مختلف و صفیں بیان کی ہیں۔ رابنسن کے مطابق وہ فرد یا افراد کسی بھی وقت آپ کے گھر آجائیں اور آپ کو ان لوگوں کو کچھ نہ کچھ کھلانا پڑے تو یہ مہمان کھلائیں گے۔

مالتھس نے بلکل الگ ڈیفی نیشن بتائی ہے۔ مالتھس کے مطابق آپ کے گھر کی آباد ی میں عارضی اضافہ کرنے والے بلاشبہ مہمان کھلائیں گے۔

روسو نے اپنی کتاب سوشل کانٹریکٹ کہ کسی کے گھر آنے پر آپ ہونٹوں پہ زبردستی مسکراہٹ لاکر باتیں کریں تو یہ شخص مہمان کہلائے گا۔ کارل مارکس نے اپنے کمیونزم والے نظریے کی بنیاد ہی مہمان کو قرار دیا ہے۔

یونان کے بڑے فلاسفر افلاطون کہتے ہیں جو شخص گھر میں گھس آئے اور بھگانے سے بھی نہ بھاگے تو یہ مہمان ہی ہوگا۔
اب میں یہ سوچنے لگی ہوں کہ آخر مہمان ایسا کیا کرتے ہیں کہ میزبان کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔
پرانے وقتوں میں مہمان کو رحمت برکت سمجھا جاتا تھا۔ آخر کیا چکر ہے کہ اب آفت سمجھا جاتا ہے مہمان اور نیوا کوئین کی گولی میں کی چیز مشترکہ ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا میزبان غریب ہوتے ہیں اور وہ خرچہ برداشت نہیں کرسکتے۔ پر دیکھا تو یہ گیا ہے کہ میزبان غریب ہو تو کہیں سے ادھار لے کر بھی مہمان کو کھلاتا پلاتا ہے۔ اور خوش ہوتا ہے۔ مہمانوں سے بیزار تو بینک بیلنس والے دکھائی دیتے ہیں جو مہمان کو دیکھتے ہی اداکار محمد علی جیسی گھمبیر شکل بنالیتے ہیں۔

سوچنا تو اب یہ چاہیے کہ میزبان کے رویئے میں تبدیلی کس طرح لائی جاسکتی ہے اور یہ کہ مہمان کو کیا اقدامات کرنے چاہیں۔ جب مذہب نے مہمان کو حقوق دے رکھے ہیں تو میزبان اتنا دنیاوی کیوں ہوا جاتا ہے۔ کیا آئین میں تبدیلی کرکے مہمان کے حقوق بھی ڈال دیے جانے چاہیں؟

میری ایک سہیلی جو کراچی میں رہتی ہے میں نے ایک دفعہ ان کو تحفتاً طوطا بھیجا۔ جیسا کہ کراچی کی زندگی بہت مصروف ہوتی ہے اس لئے گھر میں کسی کے پاس بھی اتنا وقت نہیں تھا کہ وہ طوطے سے باتیں کریں یا ناز اٹھائیں۔ اس لئے طوطے کو پنجرے میں ڈال کر ٹیوی لاؤنج میں رکھ دیا گیا تھا۔ جہاں ان کی دادی سارا دن ہی خبریں دیکھتی رہتی تھیں۔

سہیلی نے بتایا کہ ایک دفعہ ان کے گھر گاؤں سے مہمان پہنچے ان میں سے ایک بیمار تھا سات ساتھ آئے ہوئے تیمار دار تھے۔
جیسے ہی مہمان گھر میں اندر تک آئے تو طوطا جو سارا دن ہی خبریں سنتارہتا تھا اور ان دنوں ڈرون حملے کی بڑی خبریں چلا کرتی تھیں تو طوطا چلانے لگا ڈرون حملہ ڈروں حملہ اصل میں وہ سمجھ چکا تھا کہ مالکان پر مہمان کا حملہ ہوچکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).