آئیے آکسفرڈ اور کیمبرج چلتے ہیں


لندن میں قیام کو مختصر کرنا تنگی داماں کے سبب تھا۔ ارادہ تھا کہ دو روز دوسرے شہروں جیسے برمنگھم اور بلیک پول میں دوست اور ہم جماعت کے ساتھ بتا لوں گا۔ منصوبہ دوم تھا کہ آکسفرڈ اور کیمبرج کاً دیدار ”سہی۔

گذشتہ برس جب پاکستان گیا تھا تو تمام نمبروں کی ڈائریکٹری پر مشتمل ایک پرانا چھوٹا موبائل فون سیٹ وہیں رہ گیا تھا جو سنا کہ بعد میں کسی سے پانی میں گر گیا اور بالکل خراب ہو گیا یوں برمنگھم والے کا تو شمارہ فون مل ہی نہ سکا البتہ بلیک پول والے ہم جماعت نے اپنا نمبر فیس بک کے توسط سے دے دیا تھا۔

یہ ہم جماعت مصروف سرجن قلندر خان ہیں۔ لندن سے فون کیا تو بولے ہاں یار ویک اینڈ پر آ جاؤ۔ مجھے تو جمعرات کی صبح سویر واپسی کی پرواز لینی تھی۔ لفٹ ہانزا کی یہ پرواز میونخ سےدو گھنٹے بعد بدلنی تھی۔ اس لیے کہا بھائی میں ویسے ہی آ جاتا ہوں تو بولے یار میں صبح 8 سے رات آٹھ بجے تک میسر نہیں ہونگا تو کیا مزہ آئے گا۔ ہاں آنے سے دو ماہ پہلے مطلع کر دیتے تو میں چھٹیاں لے لیتا۔ میں نے اتنا کہا، لعنت ہے ایسی زندگی پر، یہ بھی بھلا کوئی زندگی ہے۔ وہ فوراً ہی متفق ہو گیا کہ ہاں یار، یہاں کوئی زندگی نہیں ہے۔

اب منصوبہ دوم پر ہی عمل کیا جا سکتا تھا۔ ندیم سعید بھی مصروف تھا البتہ اس نے گوگل سے آکسفرڈ سے متعلق معلومات لے کر مجھے پوسٹ کر دیں۔ یہ بھی بتا دیا کہ کس طرح گھر کے نزدیک سٹیشن ہیکنی سنٹرل سے پیڈنگٹن پہنچوں اور وہاں سے ریل گاڑی پکڑ لوں۔

پیڈنگٹن ریلوے سٹیشن پر چہل پہل تھی۔ مجھے ٹکٹ گھر دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ ایک جوان شخص سے پوچھا تو اس نے اشارہ کرکے بتا دیا کہ وہاں سامنے۔ چند افراد پر مشتمل مہذب طرز کی ایک قطار تھی یعنی چار سیلز ڈیسکس پر سے کوئی خالی ہوتا تو شروع کی لکیر پر کھڑے شخص کو آواز دے کر بلا لیا جاتا اس کے پیچھے والا شخص چند قدم پیچھے موجود دوسری لکیر سے چل کر پہلی لکیر پر جا کھڑا ہوتا۔ جب میں پہلی لکیر پر تھا تو ایک خشخشی داڑھی والے، عینک لگائے انگریز شخص نے ہاتھ اٹھا کے میری جانب دیکھتے ہوئے“ نیکسٹ ”کہہ کر کے بلا لیا۔ میں نے آکسفرڈ کی ٹکٹ مانگی۔ اس نے پوچھا یک طرفہ یا واپسی سمیت، میں نے کہا ریٹرن۔ اس نے 26 پاؤنڈ 60 پنس مانگے۔ میں نے پچاس کا نوٹ اس کے ہاتھ میں دیا۔ اس نے اگلی ٹرین کا وقت اور پلیٹ فارم بتاتے ہوئے دو ٹکٹ اور بقایا مجھے تھما دیا۔ شکر ہے میں روس سے گیا تھا اگر پاکستان سے گیا ہوتا تو فوراً 174 سے ضرب دیتا اور لاہور سے گوجرانوالہ تک کے واپسی سفر کا کرایہ 4628 روپے جان کر چکرا کے رہ جاتا۔

سامنے ہی پلیٹ فارم تھے۔ ہوائی جہاز کے منہ متھے والی خوبصورت رنگوں کی ٹرین کھڑی تھی۔ پہلے دو چھکڑوں پر“ فرسٹ کلاس ”لکھا تھا یعنی اور بھی مہنگے ٹکٹ والی کلاس۔ تیسرے چھکڑے میں داخل ہو گیا۔ ہر دو جانب دو دو نشستیں تھیں۔ میں ان میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ ریل گاڑی اچھی اور صاف ستھری تھی۔ ہمارے روس میں ریلوے سٹیشن سے ہوائی اڈوں تک جانے والی“ ایرو ایکسپریس ”نام کی گاڑیاں اس سے بھی اچھی اور دو منزلہ ہیں جن کا اتنے ہی سفر کا واپسی کرایہ 1000 روبل ہے یعنی 2000 روپے سے چند روپے زیادہ۔

مسافر کم تھے۔ اس لیے سب علیحدہ علیحدہ نشستوں کی طرف رخ کر رہے تھے۔ پھر ایک شخص نے جو بڑا سا رک سیک اٹھائے ہوئے تھا مجھ سے استفسار کیا آیا آپ کے ساتھ والی نشست خالی ہے۔ میں نے اثبات میں جواب دینے کو نگاہ اٹھا کر دیکھا تو سیاہ و سفید ہلکی داڑھی، عینک کے شیشوں کے پیچھے چمکتی آنکھوں والا بلند قامت اور بھرے جسم والا یورپی مرد تھا۔

جونہی وہ بیٹھا میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔ اس نے بتایا آکسفرڈ اور یہ کہ وہ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے ایک سکول میں جرمن زبان کا استاد ہے۔ میں نے سوچا، اوہ یہ بھی آکسفرڈ دیکھنے جا رہا ہے اور اپنا مقصد بتا دیا۔ اس نے کہا کہ وہ کئی بار جا چکا ہے۔ اسے آکسفرڈ اچھا لگتا ہے۔ میں چمٹ گیا کہ بھائی اگر تکلیف نہ ہو تو میں بھی سیر میں تمہارے ساتھ ہو لوں۔ اس نے کہا کیوں نہیں، ہاں البتہ مجھے دو بجے کے بعد آکسفرڈ سٹیڈیم پہنچنا ہے۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں تم چلے جانا۔ اسی روز آئی ایس پی آر کے جنرل آصف غفور بھی آکسفرڈ میں تقریرکرنے والے تھے، مگر مجھے اس سٹیڈیم سے متعلق معلوم نہیں تھا۔

ہم گپ شپ لگا رہے تھے کہ ایک بوڑھا ٹکٹ چیکر ٹکٹ چیک کرتا آتا دکھائی دیا۔ میں نے ہنس کے کہا کہ ٹکٹ تو مشین سے گزرا ہوا ہے تو اسے چیک کرنے کی ضرورت کیا آن پڑی۔ اتنے میں چھوٹی چھوٹی داڑھی والا یہ نسبتاً چھوٹا ادھیڑ عمر انگریز ہمارے نزدیک آ گیا۔ پہلے ایلیکس نے اسے اپنا آکسفرڈ تک کا ٹکٹ پکڑاتے ہوئے پوچھا کہ ٹکٹ پر“ آف پیک ”لکھا ہوا ہے اس کا کیا مطلب ہوا۔ چیکر نے بتایا کہ یا تو آپ چار بجے سہ پہر تک لوٹ آئیں یا پھر چھ بجے کے بعد۔ اس وقت کے دوران رش ہوتا ہے، اس لیے ٹکٹ کی قیمت بھی مختلف ہوتی ہے۔ پھر میں نے اپنا ٹکٹ پکڑایا۔ اس نے واپس کیا تو میں نے ٹکٹ دیکھتے ہوئے ایلیکس سے کہا، شکر ہے اس نے ٹکٹ پنچ نہیں کیا۔ اپنے موبائل فون پر ٹکٹ رکھ کے ٹکٹ پر بال پوائنٹ سے کاٹے ماٹے مار دیے تھے، شاید اس کے دستخط تھے۔ ایلیکس بھی مسکرا دیا۔ ہم دونوں متفق ہوئے کہ چیکر برطانوی روایات کی باقیات کے طور پر برقرار تھا۔

ایلیکس نام کا یہ استاد خوش مزاج تھا۔ 52 برس کی عمر میں بھی کنوارا اسی لیے اپنی عمر سے کم کا لگ رہا تھا۔ کہنے لگا شادی کرنے کا جھنجھٹ کون پالے، دوستیاں لگانے پر ہی اکتفا کرنا چاہیے۔ اسے کیا بتاتا کہ ہم مسلمان تو نکاح نہ کریں تو گناہگار اور کر لیں تو سزاوار ہونے کے انتہائی شوقین ہیں۔

ایلیکس نے بتا دیا تھا کہ ہمیں نکلتے ہی شہر کے لیے بس پکڑنی ہے چنانچہ نکلتے ہی ہم دونوں نے دو دو پونڈ کا واپسی سمیت بس کا ٹکٹ خریدا اور بس چلنے کے تھوڑی ہی دیر بعد ہم شہر کے مرکز میں پہنچ گئے۔ بارش ہو رہی تھی۔ میں نے ندیم کی دی ہوئی رنگین زنانہ چھتری کھول لی۔ ایلیکس نے تو چھجے والی ٹوپی پہنی ہی ہوئی تھی۔

تھوڑی دور چلنے کے بعد اس نے ایک چوکور ستون کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ یہ شہر کا ٹاور ہے۔ یہ بہت زیادہ اونچا نہیں تھا۔ اوپر والے حصے میں گھڑیال تھا اور نیچے دفتر کھلا ہوا تھا جہاں سے ٹکٹ لے کر اوپر چڑھا جا سکتا تھا اور بقول ایلیکس کے سارا شہر دیکھا جا سکتا تھا۔ ریل میں اس نے پوچھا بھی تھا کہ کیا تم مینارے پر چڑھو گے مگر وہاں تصویریں لیتے، چھتری سنبھالتے میں اس بارے میں بھول گیا تھا۔

ایلیکس نے کتابوں کی دکانوں میں جانا تھا۔ پہلے وہ ایک دکان میں داخل ہوا۔ اس نے کسی کتاب کے بارے میں معلوم کیا تو چینی شکل والی خاتون نے کمپیوٹر پر دیکھ کر نفی میں جواب دیا تھا۔ میں نے سوچا میں بھی اس کتاب سے متعلق معلوم کر لوں جو خریدنے سے متعلق ایک دوست نے واٹس ایپ پر پیغام بھیجا تھا۔ خیر سے وہ کتاب بھی نہیں تھی۔

پھر سڑک پر نکل لیے۔ ہجوم بہت زیادہ تھا۔ میں نے پوچھا اتنے زیادہ لوگ کیوں ہیں تو ایلیکس نے بتایا کہ یا تو سیاح ہیں ہماری طرح یا طالبعلم۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں کثیر تعداد میں تھے اس لیے میں نے پوچھا کہ یہ طالبعلم پڑھنے کی بجائے گھوم پھر کیوں رہے ہیں۔ ایلیکس مسکرا دیا۔

وہ مجھے بتا ہی چکا تھا کہ اس شہر میں اڑتیس کالج ہیں جن میں سے بیشتر وہ دیکھ چکا ہے۔ ہر کالج میں داخلے کی خاطر ٹکٹ لینا پڑتا ہے۔ جس کالج میں داخل ہوکر اس نے ٹکٹ گھر کی کھڑکی پر کہا“ ون ایڈلٹ ”تو مجھے ہنسی آ گئی تھی پھر میں نے پیسے پکڑاتے ہوئے کہا تھا“ ون فار اوور ایڈلٹ“۔ ٹکٹ دینے والا ہنسے بنا نہ رہ سکا تھا۔ بوندا باندی ہو رہی تھی۔ ایلیکس نے داخل ہوتے ہی ایک جگہ اپنی تصویر بنانے کو کہا۔ تصویریں بنا، ہم مزید اندر گئے۔ ایک باغیچہ عبور کیا۔ وکٹورین سٹائل عمارت کی سیڑھیاں چڑھنے لگے تو لکھا ہوا تھا کہ تماشبینوں کے لیے بند ہے۔ دو مرد آئے اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دروازہ کھول کر داخل ہو گئے۔ میں نے ایلیکس سے کہا وہ تو گئے ہیں۔ کہنے لگا وہ طالبعلم ہوں گے۔ اڑتیس چالیس برس کے طالبعلم؟ ہو بھی سکتے ہیں۔ مجھے تین پاؤنڈ دینے کا افسوس تھا۔ خیر واپسی دروازے پر پہنچے تو دو لڑکیاں کالج کے اندر کھڑی گپ لگا رہی تھیں۔ میں نے کہا بھئی ایلیکس کے ساتھ میری تصویر بنا دو۔ ان میں سے ایک بخوشی راضی ہو گئی۔ چھتری رکھنے کو ادھر ادھر دیکھا تو دوسری نے میری چھتری تھامنے کا فریضہ ادا کر دیا۔

جہاں تعلیم ہو وہاں لوگ خلیق ہو جاتے ہیں، اچھی روایات بھی ان کے رویوں کو سدھارتی ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بیلیول کالج تھا جو فرانس سے منتقل ہوئے لارڈ بیلیول نے بنوانا شروع کیا تھا۔ یہاں سے معروف شخصیت ایڈم سمتھ نے پڑھا تھا جس نے سرمایہ دارانہ معیشت کے خدوخال وضع کیے تھے۔ یہ صرف مردوں کے لیے کالج تھا جہاں پہلی لڑکی 1979 میں داخل کی گئی تھی اور آکسفرڈ کا پہلا کالج ہے جہاں برطانیہ کی وزارت خارجہ کی ایک سیکرٹری ڈیم ہیلن گھوش کو 2017 میں اس کالج کا ماسٹر ( پرنسپل ) منتخب کیا گیا ہے۔

وہاں سے نکل کر میں نے ایلیکس سے پوچھا کہ تم اس کالج کو ہی دیکھنے کیوں گئے تو اس نے جواب میں کہا اس لیے کہ میں نے باقی دیکھے ہوئے ہیں۔ وہ مجھے گھماتا رہا اور معروف جگہیں جیسے دو عمارتوں کے درمیان ایک پل۔ بادلین لائیبریری، گرجا گھر باہر سے دکھاتا رہا۔ ہر طرف سائکلیں ہی سائکلیں تھیں کیونکہ طالبعلم سائکلیں استعمال کرتے ہیں۔

وہ ایک بار پھر بلیک ویل نام کی کتابوں کی ایک دکان میں داخل ہو گیا۔ وہاں سے اسے کچھ چیزیں پسند آ گئیں۔ وہ خریدنے لگا تو میں نے مطلوبہ کتاب کا معلوم کیا۔ کتاب کا نام تھا“ آفٹر دی پرافیٹ“، ریسیپشن پر موجود شخص نے کمپیوٹر پر دیکھ کر پوچھا کہ شیعہ سنی معاملے سے متعلق ہے کیا کتاب؟ میں نے کہا مجھے معلوم نہیں البتہ اگر مصنفہ وہی ہے جو میں نے بتائی تو کتاب کی قیمت بتا دیں۔ بولا بارہ پاؤنڈ اور بتایا کہ نیچے دوسری منزل میں فلاں ریک میں ہے۔ آپ خود چلے جائیں گے کہ میں ساتھ چلوں۔ کہا بھائی ساتھ ہی چلو۔ فارغ ہو چکے ایلیکس کو کہا“ منتظر باش“۔

بلند قامت خوبرو انگریز مرد مجھے نیچے لے گیا۔ یا خدا اندر سے اتنی بڑی دکان، جو نچلی دو منزلوں کے علاوہ اوپر کی تین منزلوں میں بھی تھی۔ میں نے استعجاب ظاہر کیا کہ انٹرنیٹ کے دور میں بھی اتنی بڑی کتابوں کی دکان تو اس نے کہا ہاں ہماری دکان بہت بڑی ہے۔ کتاب نکال کر اس نے مجھے پکڑائی اور کہا کہ یہیں کاؤنٹر پر قیمت چکا دیں۔ لڑکی نے مجھے سے بارہ پاونڈ لے کر ایک پنس واپس کر دیا یعنی اپنا ایک پیسہ۔ کسی کا ایک پیسہ بھی رکھنا ان پر حرام ہے۔

میں جب باہر نکلنے کو تھا تو غور کیا کہ چھتری وہیں کاؤنٹر کے نزدیک دھر کے بھول گیا تھا۔ پھر گیا اور چھتری لے کر لوٹا تو ایلکس نہیں تھا۔ میں باہر نکل کر بھونچکایا ہوا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ پیچھے سے ایلیکس کی آواز سنائی دی، “ ہے میرزا“۔ جان میں جان آئی۔ ہم پھر چل پڑے اور وہ مجھے آکسفرڈ کے سب سے بڑے کالج“ سینٹ کرائسٹ کالج ”کے دروازے پر چھوڑ کر یہ کہتے ہوئے کہ میں ساڑھے تین بجے سٹیشن پہنچوں گا، سٹیڈیم کو چل دیا۔ میں کالج میں داخل ہو گیا۔ اس کا داخل ہونے والا دروازہ خاصا دور تھا جہاں جا کے معلوم ہوا کہ کالج وزیٹرز کے لیے کھلنے میں آدھا گھنٹہ باقی ہے۔ میں نے ٹکٹ کی قیمت دیکھی 9 پاؤنڈ تو سوچا باہر سے ہی دیکھ لو بھائی، پرانی طرز کی عمارت ہی ہے ناں۔ اندر جا کر کونسی میری نیوٹن سے ملاقات ہو جائے گی۔

احتیاج انسانی تھی۔ پیاس کے باوجود کچھ نہیں پیا جا سکتا تھا۔ میں واپس شہر کو چل دیا کیونکہ وہاں مجھے میکڈونلڈ دکھائی دیا تھا جو دنیا بھر میں صاف جگہ پر کچھ دیے بنا مثانہ خالی کرنے کی جگہ ثابت ہوتی ہے۔ اندر داخل ہوا تھا تو لیویٹری پر لکھا ہوا تھا، “ محض گاہکوں کے لیے، مینیجر سے چابی پوچھیے“۔ عجیب بات ہے کہ میکڈونلڈ میں بھی ایسا لکھا ہے۔

نکل پڑا کہ کہیں اور دیکھوں تو اتفاق سے آکسفرڈ کی معروف ڈھکی ہوئی مارکیٹ میں داخل ہو گیا۔ تھک بھی چکا تھا۔ ایک بنچ مل گیا۔ اس پر بیٹھ کر ڈرائی فروٹس کا رک سیک میں رکھا پیکٹ نکالا اور فروٹ کھانے شروع کر دیے۔ سامنے سے ایک عرب دکھائی دینے والا نوجوان برآمد ہوا تو اس سے بیت الخلاء کا پوچھا تو اس نے نفی میں گردن ہلا دی۔ یہ سوچ کر کہ شاید کوئی ریستوران مل جائے میں الٹ جانب چل پڑا اور پھر سے عین میکڈونلڈ کے سامنے جا نکلا۔

سنیکس کی ایک چھوٹی دکان تھی۔ ایک ٹھرکی انگریز موبائل پکڑے سیلز گرل کی تصویر بنانے کو کاؤنٹر پر جھکا ہوا تھا۔ پھر لڑکی نے کوئی سنیکس ہاتھ میں لیا، تھوڑا سا پوز بنایا اور وہ شخص تصویر لے کر شکریہ کہہ کر نکل گیا۔ میں نے بی بی کو جو موٹی سی خوش اخلاق لڑکی تھی کہا کہ کیا تم ماڈل ہو، وہ مسکرا دی۔ میں نے کہا ایک تو یہ بتاؤ کہ سٹیشن کے لیے بس کہاں سے پکڑی جائے، دوسرا یہ کہ ٹوائلٹ کہاں ملے گا۔ بس تو اس نے بتایا کہ بغل کی سڑک سے پکڑی جا سکتی ہے اور ٹوائلٹ سامنے میکڈونلڈ میں۔ میں نے کہا کہ وہاں تو تالا پڑا ہے۔ وہ بولی اوپر چلے جائیے وہاں کھلا ہو گا۔ اس کے کہے پر عمل کیا۔ کچھ دیر اوپر کی منزل پر بیٹھا اور پھر کچھ کھائے پیے بن یہ سوچ کر کہ جب ٹرین میں تھا تو انعام رانا کا فون آیا تھا جس نے کہا تھا کہ چھ بجے لازمی میرے دفتر پہنچیں، کچھ اور لوگ بھی آئیں گے، نکل پڑا تھا۔

رانا نے خاص طور پر ارشد بٹ کا ذکر کیا جو ناروے سے آئے تھے، فیض امن میلے میں میرے ساتھ بیٹھے رہے تھے لیکن گپ شپ نہیں ہو سکی تھی۔ بغل کی سڑک سے بس پکڑی، ایلیکس کو میسیج کیا کہ بھئی میں چلا، خدا حافظ اور سٹیشن پہنچ کے اگلی گاڑی پر سوار ہو کر پیڈنگٹن ریلوے سٹیشن، لندن۔ جہاں سے رانا کی ہدایت کے مطابق سفر کرتا ہوا فارسٹ گیٹ نکلا اور ایک بلیک گرل سے رومفرڈ روڈ پوچھ کر دفتر سے باہر کھڑے موبائل پر مصروف انعام رانا کو واؤ کرکے ڈرایا۔ وہ ڈرنے کی بجائے حیران ہو کر میرے گلے لگ گیا کہ آپ کیسے پہنچ گئے، میرا تو خیال تھا کہ مجھے آپ کو گائیڈ کرنا پڑے گا۔ میں نے کہا کہ نہ تو پینڈو ہوں اور نہ پنڈ سے آیا ہوں۔ ایڈریس تھا، پہنچ گیا۔ اب ایک تو یہ کہ پیٹ میں چوہے کود رہے ہیں دوسرے یہ کہ فون مر رہا ہے۔ اس نے کہا کہ پیٹ کے چوہوں کا انتظام تو کر دیتا ہوں، فون شاید زندہ نہ کیا جا سکے کیونکہ سب کے پاس آئی فون ہیں سیم سنگ کا چارجر نہیں ہوگا۔

تھوڑی دیر بعد تنویر افضال پہنچ گیا جس سے فیس بک کے توسط سے شناسائی تھی۔ فیض میلے کے موقع پر جب وہ ہال سے باہر ٹکٹس کی فروخت پر ڈاکٹر عامر مختار کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اس کے ساتھ پہلی سرسری ملاقات ہو چکی تھی۔ تھوڑی دیر میں راشد بٹ بھی مرزا اسلام اور پرویز کے ہمراہ پہنچ گئے تھے۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد سفید داڑھی اور بکھرے ہوئے سفید باوں والے انورسن رائے بھی پہنچ گئے جن کی اہلیہ اور مشہور شاعرہ عذرا عباس پہلے داخل ہوئی تھیں۔ ان کے فوری بعد عاصم علی شاہ، اکرم قائم خانی، عاصم کا بھائی فیصل اور ان کا پاکستان سے آیا کوئی نوجوان رشتہ دار سرکاری اہلکار بھی آن پہنچے تھے۔ کمرہ بند تھا اور سگریٹ نوش زیادہ، بالخصوص عذرا جو باوجود ذیابیطس اور دیگر امراض میں مبتلا ہونے کے پے در پے سگریٹ پیتی ہیں۔ سگریٹ کے دھوئیں سے میں اور اکرم بہت اکتائے ہوئے تھے۔ کبھی کوئی دروازہ کھلواتے تھے، کبھی سگریٹ محدود کیے جانے کی استدعا کرتے تھے۔

انعام نے عذرا کو اپنی گھومنے والی کرسی پر سرفراز کر دیا تھا جبکہ انور سن رائے میرے ساتھ ہی ایک عام کرسی پر بیٹھ گئے تھے۔ عذرا کا خیال تھا کہ محفل ادبی ہوگی مگر میں نے یہ کہہ کر ان پر ٹھنڈے پانی کا گھڑا انڈیل دیا کہ سب کے سب سابق سیاسی کارکن ہیں اور یہ آپ کو اکتا دینے والی گفتگو کریں گے۔

پھر گفتگو شروع ہو گئی، بات سماجیات سے چلتی ہوئی سماجی سیاسی رویوں اور بالآخر سیاست تک آئی۔ سبھی بہت سی باتوں پر ہم میں سے بیشتر ہم خیال ہوتے ہوئے بھی مختلف الخیال تھے۔ عذرا بور تو نہیں ہوئیں لیکن گفتگو میں دلچسپی کا اظہار بھی نہیں کیا اور چپ رہیں۔ اتنا البتہ ضرور پوچھا کہ ادب سے کس کس کا تعلق ہے۔ سب خاموش تھے، میں نے ہمت کرکے وہ کہہ ہی دیا جو کبھی نہیں کہتا کہ میرا تعلق ہے، شاعری بھی کی ہے، ناول بھی لکھا ہے اور خودنوشت بھی اگرچہ شائع نہیں ہوئے مگر بہت سے بڑھ چکے ہیں۔

یہاں سے معاملہ بڑھ کر مشاعرے تک آ گیا۔ انعام نے عذرا کو صدر محفل قرار دیا اور سب سے پہلے مجھ سے کہا کہ ارشاد کیجیے۔ میں نے جتنی شاعری کی ہے وہ بیشتر نثری اور فلسفیانہ ہے جو یاد نہیں رکھی جا سکتی۔ کتاب تو اپنی کبھی رکھی ہی نہیں چنانچہ 1972 میں کہی دو چھوٹی چھوٹی غزلیں سنائیں۔ عذرا کو بھی پسند آئیں۔ پھر انورسن رائے نے محمود درویش کی چند ترجمہ کردہ نظمیں جنہیں وہ درویش سے اخذ کردہ اپنی نظمیں کہتے ہیں، سنائیں۔ انعام رانا نے بھی ایک نظم سنائی اور پرویز نام کے شریک محفل نے پنجابی نظم۔

بعد میں انورسن رائے نے محمود درویش کی اردو کی گئی نظموں پر مشتمل اپنی کتاب مجھے دی۔ جب ایک اور عرب شاعر ادوینس کی ترجمہ شدہ نظموں کی کتاب دینے کو اس پر لکھنے کے لیے کھولا تو کہہ اٹھے بھئی یہ کتاب میں آپ کو نہیں دے سکتا۔ میں سمجھا کہ فوری طور پر کسی اور کو دینے کا خیال آ گیا ہے شاید۔ جب میں نے ان کی جانب دیکھا تو بولے کہ جلد کرنے والے سے غلطی ہو گئی۔ جلد میری کتاب کی ہے مگر اندر کسی اور کی کتاب ہے۔ اندر انجم قریشی کی پنجابی نظموں کی کتاب“ میں تے املتاس ”تھی۔ میں نے انور صاحب سے کہا کہ دیکھ لیں شاید آپ کی بھی کچھ نظمیں ہوں تو دکھاتے ہوئے بولے دیکھو سب پنجابی میں ہیں اور کتاب کے آدھے صفحے یکسر کورے۔ میں نے نکلتے ہوئے انعام کو بتا کر اس کے دفتر میں پڑا ایک انگریزی ناول اٹھا لیا۔

سب کار والے تھے اور مجھے بالکل اور طرف جانا تھا۔ انعام نوبیاہتا ہے شاید اسی لیے چھوڑنے نہیں گیا۔ بولا سامنے سے بس پکڑ لیں سیدھی زیر زمین ریلوے سٹیشن لے جائے گی مگر عاصم نے کہا ہم چھوڑ دیتے ہیں سٹیشن تک۔ راستے میں سڑک مرمت کی وجہ سے ایک راستہ بدلنا پڑا۔ مڑنے والی دوسری سڑک بھی روکی ہوئی تھی چنانچہ میں کار سے اتر کر پیدل سٹیشن پہنچا اور دیر گئے ندیم سعید کے ہاں، جہاں میں مقیم تھا۔

دوسری یعنی لندن میں چوتھی صبح پروگرام کے مطابق مجھے کیمبرج جانا تھا مگر میں ایک روز پہلے کی تھکاوٹ کے سبب جانے سے گریز کر رہا تھا۔ ظاہر ہے مجھے مشورہ تو سیانے ندیم سے ہی کرنا تھا۔ وہ گیارہ سوا گیارہ بجے اٹھ کر میری طرف آیا تھا۔ میرے استفسار بلکہ میرے انکار پر اس نے پہلے تو کہا کہ آپ کی مرضی ہے مگر جب میں نے کہا کہ بھائی مشورہ دو، مرضی کا ذکر مت کرو تو کہنے لگا کیمبرج دیکھ ہی آئیں۔ مجھے آکسفرڈ سے زیادہ اچھی جگہ لگی ہے۔ اس نے ایک بار پھر گوگل سے کیمبرج بارے لنک مجھے بھیج دیا اور سمجھا دیا کہ اس بار ہیکنی سنٹرل سے نہیں بلکہ ہیکنی ڈاؤن جائیں جو بالکل علیحدہ سٹیشن ہے، وہاں سے کیمبرج کے لیے براہ راست ٹرین مل جائے گی۔

ڈھونڈ ڈھانڈ کے مطلوبہ سٹیشن پہنچا۔ ٹکٹ گھر میں موجود سیاہ فام خاتون نے کہا کہ ہمارے ہاں سے صرف ہفتے اتوار کو ہی براہ راست جایا جا سکتا ہے۔ آپ لیورپول سٹریٹ چلے جائیں، وہاں سے کیمبرج کا ٹکٹ لے لیں۔ چاہیں تو میں یہاں سے جاری کر سکتی ہوں۔ میں سینتیس سیڑھیاں چڑھ کر پلیٹ فارم ایک پر گیا۔ ٹرین آنے میں ابھی بیس منٹ باقی تھے کہ دوسری طرف کے پلیٹ فارم پر موجود ایک ادھیڑ عمر اہلکار نے آواز دے کر کہا کہ ٹرین اس پلیٹ فارم پر آئے گی۔ سینتیس زینے اتر کے دوسرے سینتیس زینے چڑھ کر وہاں پہنچا تو اس نے مجھ سے پوچھ لیا کہاں جانا ہے۔ جب میں نے کیمبرج کا بتایا تو اس نے کہا کہ تین سٹیشن پیچھے جا کر واپس وہی تین سٹیشن آنا عقلمندی نہیں ہوگا۔ پلیٹ فارم چار پر جاؤ اور فلاں سٹیشن پر چلے جاؤ۔ اگلا ہی سٹیش ہے، وہاں سے کیمبرج۔ لو جناب پھر سینتیس زینے نیچے اور سینتیس زینے اوپر جانا پڑ گیا۔ اب جس نام کا سٹیشن اس نے بتایا تھا۔ نقشے میں اس نام کے ساتھ مختلف سابقوں والے دو سٹیشن تھے۔ پھر ندیم کو فون کیا۔ اس نے کہا کہ میں چیک کرکے فون کرتا ہوں۔ اس نے اس سٹیشن کا نام بتایا۔ قریب ہی بنچ پر بیٹھی عورت نے سمجھایا کہ اگلے سٹیشن پر جا کر ٹرین تبدیل کریں تو تیسرا سٹیشن یہ ہوگا۔ وہاں باہر نکلیں اور کیمبرج کا ٹکٹ لیں۔

خیر ایسے ہی کیا۔ باہر نکل کے دیکھا تو دور ایک چھوٹا سا ٹکٹ گھر تھا۔ جس کی کھڑکی پر جھکی ایک سفید فام خاتون ٹکٹ گھر میں موجود سیاہ فام خاتون سے کسی جگہ کا ٹکٹ خرید رہی تھی۔ اسے فارغ کرنے کے بعد مجھے اندر والی نے بتایا کہ سب سے سستی ٹکٹ والی ٹرین بیس منٹ میں جائے گی، جس کا ٹکٹ میں ابھی نہیں بیچ سکتی۔ میں نے کہا بی بی قیمتیں تو بتا۔ کہنے لگی بیس منٹ بعد والی سترہ پاؤنڈ کی اور دس منٹ بعد والی ساڑھے بائیس پاؤنڈ کی۔ مجھ میں انتظار کا یارا نہیں تھا۔ کہا مہنگی والی ہی دے دو۔

ریل گاڑی میں داخل ہوا تو مناسب ڈبہ اور مناسب نشستیں تھیں۔ نشست کے اوپر سر والے کور پر لکھا تھا، “ فرسٹ کلاس ”اوہ تو یہ فرسٹ کلاس ہے۔ میری بات پر کان پڑتے ہی بوڑھے انگریز نے بوڑھی بیوی سے کہا یہ تو فرسٹ کلاس کا ڈبہ ہے۔ اندر ہی اندر چلتے جب“ غیرطبقاتی ”ڈبے میں پہنچے تو چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں کھلی ہوئیں یعنی اے سی نہیں تھا، اگرچہ گرمی تھی۔ سامان رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ آج ندیم سعید نے رک سیک میں چھتری کے علاوہ ڈرائی فروٹ اور پستے کے پیکٹ رکھ دیے تھے، ارتقاء نے اس میں ایک لٹر اورنج جوس کا ڈبہ اڑس دیا تھا۔ کیونکہ میں آکسفرڈ جاتے ہوئے پاور بینک بھول گیا تھا اس لیے ندیم نے پاور بینک بھی چارج کرکے ڈال دیا تھا۔ میں ہلکی جرسی پر بھاری جیکٹ پہن کر نکلا تھا۔ وہ جیکٹ بھی اتار کے دھرنی تھی۔ شکر ہے لوگ نہیں تھے۔ سیٹوں کے کور پر گرد تھی اور سیٹ کور نیچے یا اوپر سے کہیں سے ادھڑے اور کہیں سے پھٹے ہوئے تھے۔ مجھے لگتا تھا ٹکٹ والی نے سترہ پاؤنڈ والا ٹکٹ غلطی سے ساڑھے بائیس پاؤنڈ میں دے دیا تھا۔

آکسفرڈ جاتے ہوئے راستے میں دو شہر سلاؤ اور ریڈنگ آئے تھے، جہاں گاڑی رکی تھی مگر یہ کیمبرج جانے والی طبقاتی اور غیر طبقاتی گاڑی ہر دیہاتی سٹیشن پر رک رہی تھی۔ اطراف میں لینڈ سکیپ ویسے ہی تھا جیسے پنجاب کا ہے۔ کھیتوں کے قطعے اور باغ۔ کچھ کچھ گرمی کے سبب مجھے باغ بھی آموں کے لگ رہے تھے، اگرچہ وہ شاید سیب یا کسی اور پھل کے ہوں یا یہ کہ باغ ہوں ہی نہ بس درخت ہوں۔ سب سے پہلے جو بڑی عمارت دکھائی دی اس پر موٹے حروف میں کیمبرج یونیورسٹی پریس لکھا ہوا تھا اور اگلی ماڈرن عمارت پر دوائیوں کی کمپنی اسٹرا زینکا۔ گاڑی رک گئی تھی۔ میں ڈبے سے نکل کر ایک پرانے سے سٹیشن سے باہر نکل گیا تھا، جس کے سامنے ٹائلوں کے فرش والا ایک بڑا سا میدان تھا اور اس کے پار بڑی بڑی ماڈرن عمارات۔

سٹیشن کے سامنے ایک چھوٹا سا کھلا سٹال تھا جس پر انگریزی میں“ معلومات ”لکھا تھا۔ وردی میں ملبوس عورت ایک جوان چینی جوڑے سے بات کر رہی تھی۔ جونہی وہ ان سے فارغ ہوئی، میں نے کہا کہ کیا آپ مجھے معلوماتی کتابچہ دے سکتی ہیں۔ وہ بولی میں نقشہ دے سکتی ہوں۔ نقشہ نکالا تو میں نے پوچھا کہ تین معروف کالج کہاں ہیں؟ اس نے ایک جگہ پر قریب قریب نشان لگا دیے۔ اس عورت کا لہجہ کچھ عجیب تھا، میں نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ اطالوی ہے۔ اس سے پوچھا دریا بھی وہیں ہے کیونکہ ندیم سعید نے کہا تھا کہ دریا کے کنارے بید مجنوں کے بہت سے درخت ہیں۔ ایسے بہت سے درخت میں نے ہالینڈ کے شہر ہیگ میں دیکھے تھے جن کی پانی کو چھوتی ہوئی نیچے کی جانب آتی نازک شاخین بہت بھلی معلوم ہوتی تھیں۔ اس نے کہا، ہاں نزدیک ہی ہے۔ اس کے ساتھ شکریے کے طور پر ایک تصویر بنوائی اور میدان پار کر لیا۔

ہلکے گدلے سبز شیشوں والی بڑی سی عمارت کے سامنے سڑک کے پار کھپریل کی جھکی ہوئی چھتوں والے قدیم مکانات تھے جن کی دیواروں پر چڑھی بیلوں کے پتے خزاں سے قرمزی ہوئے بہت بھلے لگ رہے تھے۔ ان کے سامنے سرخ اینٹوں کی ایک کوتاہ سی دیوار تھی جو تصویر بنانے میں رکاوٹ تھی۔ ان مکانوں کے سامنے طلبا طالبات آ جا رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ یہ طلباء کی رہائش گاہیں ہیں۔

جب میں دوسرے چوک میں پہنچا تو کئی سڑکیں تھیں۔ اس پار ایک پارک تھا جس پر کیمبرج یونیورسٹی بوٹینیکل گارڈن لکھا ہوا تھا۔ داخلہ فیس 16 پاؤنڈ تھی۔ پاکستانی روپے خود بنا لیں۔ فوری طور پر اتنا ٹکٹ لے کر نباتات دیکھنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں نے راہ چلتی بظاہر ایک ہندوستانی خاتون سے دریا سے متعلق پوچھا تو اس نے بتایا کہ بس لے لیں۔ میں نے کہا کہ نہیں میں پیدل ہی معروف کالج دیکھنا چاہتا ہوں، وہاں پیدل جایا جا سکتا ہے نا؟ اس نے کہا جایا کیوں نہیں جا سکتا لیکن دور ہیں۔ اس نے بوٹینیکل گارڈن کے ساتھ والی سڑک پرمڑنے اور جہاں سڑک تمام ہو پھر دائیں کو مڑ جانے کا مشورہ دیا۔ سڑک پر مڑ کر کے تھوڑی دور چلنے کے بعد میں نے ایک نوجوان سے تصدیق چاہی۔ اس نے انتہائی مہذب طریقے سے جواب دیتے ہوئے بتایا کہ آپ درست جا رہے ہیں۔ ایک جگہ سڑک تو تمام نہ ہوئی لیکن متوازی سڑک خاصی بڑی تھی۔ وہاں سے ٹائیوں میں ملبوس تین نوجوان جا رہے تھے جو دفاتر کے اہلکار لگتے تھے۔ ان سے پوچھا تو انہوں نے پہلے آپس میں مشورہ کیا، پھر پہلے شخص کی طرح بہت مہذب انداز میں بتایا کہ آپ سیدھے جا کر دائیں ہاتھ مڑیں اور پھر سیدھے چلتے جائیں۔

دائیں ہاتھ مڑ کر میں چلتا چلا گیا۔ میں نے دیکھا سڑک کے پار بڑے بڑے ستونوں والی ایک عمارت ہے جس کے ایک طرف پتھر سے ترشے بڑے بڑے دو ببر شیر دو دیواروں پر بیٹھے ہیں مگر شیر دیوار کے اس جانب تھے۔ میں نے سڑک پار کی اور اس عمارت میں داخل ہو گیا۔ بہت سے زینے چڑھ کر اوپر پہنچا۔ یہ شہر کا بڑا عجائب گھر تھا۔ داخلے سے پہلے ایک بہت زیادہ اونچی چھت والا بہت ہی بڑا برآمدہ تھا جس میں دروازے سے ہٹ کر ادھر ادھر سیمنٹ اور پتھر سے بنے دو بنچ تھے۔ بائیں طرف آخر میں نیچے باغیچے میں جانے کی سیڑھیاں تھیں اور ان سیڑھیوں کے اطراف کی دیواروں پر ہی ببر شیر دھرے تھے۔ میں نیچے اترا۔ شیروں کی تصویر بنائی کہ ایک سیاح بڑھیا بھی پہنچ گئی۔ اس سے میں نے درخواست کی کہ تین ببر شیروں کی تصویر بنا دیں۔ تیسرا ببر شیر پتھر سے ترشے شیروں کے درمیان مگر زمین پر کھڑا میں تھا۔ بڑھیا تین ببر شیروں والی بات پر محظوظ ہوئی اور اس نے بہت اچھی تصویر بھی بنا دی۔ میں حیران ہوا مگر پھر خیال کیا کہ بڑھیا کوئی ہمارے پاکستان کی بڑھیا تھوڑا نہ تھی۔

گھاس والے ایک تختے پر کوئی سرریئل قسم کا سٹرکچر بھی تھا مگر جب سمجھ ہی نہ آئے تو تصویر کیا لیتا چنانچہ پھر شیروں والی سیڑھیاں چڑھا، بنچ پر بیٹھ کر پستہ کھایا اور اورنج جوس کے گھونٹ بھرے۔ جس کے بعد نیچے اتر کر پھر چلنا شروع کر دیا۔ اب ایک بہت بڑا قدیم گرجا سامنے تھا۔ اس کی ایک دو تصویریں لینے کی کوشش کی اور چلتا گیا۔ آگے کیمبرج کا سب سے بڑا کالج کنگز کالج آ گیا۔ یہ تعمیر کا ایک خوبصورت اور دلچسپ نمونہ ہونے کے ساتھ ساتھ وسعت میں بہت بڑا بھی ہے۔

اس کے دروازے کی جانب گیا تو وہاں لکھا تھا کہ سیر کرنے والوں کا داخلہ منع ہے۔ پھر بھی دو قدم آگے بڑھ کر بے وردی انگریز دربان سے استفسار کیا تو اس نے کہا کہ کیمبرج یونیورسٹی سنٹر جائیں۔ میں سڑک کے اس طرف گیا۔ ایک گلی میں گھستا گیا۔ وہاں چھوٹے چھوٹھے کیفے تھے اور ایک پرانی کتابوں کی چھوٹی سی دکان جس میں ایک ڈیسک کے پیچھے بیٹھا ادھیڑ عمر مرد کسی کتاب میں گم تھا۔ میں نے لندن پہنچتے ہی ندیم سعید سے کہا تھا کہ اس بار میں سیکنڈ ہینڈ کتابوں کی دکان میں ضرور جاؤں گا۔ ندیم نے مجھے کیمبرج بھیجتے ہوئے بتایا تھا کہ وہاں آپ کو پرانی کتابوں کی کئی دکانیں ملیں گی۔ اس دکان میں پرانی کتابوں کی قیمت آسمان کو باتیں کرتی ہوئی تھی یعنی ڈیڑھ سو سے چار سو پاونڈ فی کتاب۔ کتابیں وہی تھیں جو میں دس دس ڈالروں میں پڑھ چکا ہوں۔ یہ شاید اولیں ایڈیشنز تھے ان کے۔ میں دکان سے نکل آیا اور ساتھ بنی ایک ماڈرن عمارت کے اندر چلا گیا، جہاں بیٹھی ایک طناز نے بتایا کہ کیمبرج یونیورسٹی سنٹر گلی کے آخر پر دائیں جانب ہے۔ اس میں کیمبرج سے متعلق سوغاتیں بک رہی تھیں۔ کالج میں داخل ہونے کی فیس 16 پاؤنڈ تھی۔ شاید میں دل پر ہاتھ رکھ کے دے بھی دیتا مگر کالج میں داخلے کا وقت تمام ہو چکا تھا۔ میں ہمیشہ کی طرح دیر کر چکا تھا مگر یہ کالج باہر سے بھی اتنا شاندار اور دلکش ہے کہ اندر نہ جانے کا ملال نہیں ہوا۔

کالج کے آخر پر ایک گلی کے بعد دو رویہ دکانوں والا شہر شروع ہو رہا تھا۔ میں نے ادھر جانے کا سوچا مگر سنٹر سے دوسری دکان پر ہی اس کے اندر کا منظر دیکھ کر رک گیا۔ سفید سنگ مرمر کی اونچی میز پر بکھرے سنہری شہد کے سے مواد کو ایک شخص لوہے کے کھرچے سے ادھر ادھر کر رہا تھا۔ ساتھ ہی تانبے کی ایک ناند پڑی تھی۔ باہر لکھا تھا“ فج“۔ فج ٹافی کی جدید شکل سے پہلے والی ٹافی ہوتی ہے جو مجھے پسند ہے۔ اسے بنتا دیکھنا بہت دلچسپ لگا۔ دکان چھوٹی تھی اور دیکھنے کے شوقین زیادہ۔ میں نکل آیا، تھوڑا سا دو رویہ دکانوں والے حصے میں اندر گیا مگر یاد آیا کہ کالج کی آخری گلی کے ساتھ لکھا تھا“ دریا کی جانب“۔ بس اس میں چلنا شروع کر دیا۔ بائیں ہاتھ ہی دوسرا معروف کالج ٹرینیٹی کالج تھا۔

گلی کیا تھی خواب تھی۔ ویسی ہی جیسی قدیم پینٹنگز میں ہوتی ہے، پتھروں کے فرش والی۔ ادھر ادھر زرد پتھروں کی ممٹیوں والی عمارتیں۔ بہت آگے ابھرا ہوا پل دکھائی دے رہا تھا۔ یقینا“ وہی دریا تھا۔ کتابچے میں ”پل آہ“ کا اندراج تھا شاید یہ وہی پل تھا۔ اس پل سے تھوڑا پہلے ایک کھلے در کے باہر کرسیاں ڈال کر چند قوی مرد بیٹھے ہوئے تھے ساتھ ہی ایک پتھر پر لکھا تھاً پنٹس کرائے پر“۔ میں نے بیٹھے ہوئے مردوں سے پوچھا بھائی یہ پنٹ کیا شے ہے۔ ان میں ایک بولا کشتی، دوسرے نے کہا کہ روایتی قدیم کشتی کو پنٹ کہتے ہیں۔ پل پر چڑھا تو کئی پنٹوں پر سیاح سیر کر رہے تھے۔
پل کے ایک طرف نئی عمارت تھی جو لائیبریری تھی، جس کے شیشوں کے پیچھے نوجوان کتابوں پر جھکے دکھائی دے رہے تھے۔ لائیبریری سے اس طرف پتھروں سے بنی دریا سے جڑی دیوار پر بھی ٹانگ لٹکائے بیٹھی ایک لڑکی پڑھ رہی تھی۔ شکر ہے دونوں ٹانگیں دریا پر نہیں لٹکائی تھیں۔ ممکن ہے اونگھ سے چھپاک کرکے پانی میں جا گرتی۔ جس دیوار پر وہ بیٹھی تھی اس کے دوسری طرف بنچوں پر بھی لڑکے لڑکیاں بیٹھے یا تو پڑھ رہے تھے یا باتیں کر رہے تھے۔

بارش زیادہ نہ ہونے کے سبب پانی سے ہلکی ہلکی بساند اٹھ رہی تھی۔ بید مجنوں کے درخت ناپید تھے۔ راستہ ڈھونڈ کے دریا کے کنارے کنارے سیر کرنے کا ارادہ کیا۔ پل کے دوسری طرف اترا مگر کوئی راستہ نہ ملا۔ سب کالجوں کے مقبوضہ علاقے تھے۔ لوٹنے کو پلٹا تو ایک چینی جوڑا اکٹھے تصویر بنانے کو جھوجھ رہا تھا۔ میں نے انہیں ان کی تصاویر بنانے کی پیشکش کی اور بعد میں چینی پاکستانی دوستی کا ورد کیا۔

لوٹتے ہوئے ٹرینیٹی کالج کا ایک گیٹ کھلا مل گیا۔ اگرچہ داخل ہونا منع تھا مگر دروازے کے آخر تک جا کر تصویریں بنائی جا سکتی تھیں۔ احاطے کو دیکھ کر مجھے نشتر میڈیکل کالج کاً کواڈرینگل“ یاد آیا اگرچہ وہ ہرا بھرا اور چھوٹا ہے جبکہ یہ چھوٹے چھوٹے پتھروں کی روشوں والا اور بہت بڑا۔ اس کواڈرینگل میں نشتر کے کواڈرینگل کی نسبت بہت کم طلباء دیکھنے کو ملے۔ شاید کالج کا وقت تمام ہو چکا تھا۔

لوٹ کے شہر آ گیا۔ وہی انسانی احتیاج کا مسئلہ۔ کئی گلیاں گھومیں مگر انسانی احتیاج رفع کرنے کا عالمی مقام میکڈونلڈ کہیں نہ ملا۔ ایک بہت بڑی دکان میں بھی داخل ہوا جہاں ڈریسنگ روم تو تھے، ریسٹ روم نہیں۔ اب لوگوں سے سٹیشن کی راہ پوچھنا شروع کی۔ لوگ حد سے زیادہ مہذب تھے۔ اس حد تک کہ میرے چہرے پر تھکاوٹ کے آثار دیکھ کر ویسے ہی پوچھ لیتے تھے، ”جناب آپ بالکل ٹھیک ہیں نا“۔ چلتا گیا بہت دور جا کر ایک بڑا سا پارک تھا۔ میں نے سوچا اس کے اندر سے شارٹ کٹ لیا جائے کہ وہاں سے سائیکل سوار چینی شکل والی لڑکی نکلی، میں نے اس سے پوچھا تو وہ بولی کہ یہ شارٹ نہیں لمبا راستہ ہوگا۔ آپ سیدھے ہی چلے جائیں، کوئی تین ٹریفک سگنل کے بعد بائیں مڑیں گے تو آپ کو سٹیشن کی عمارت دکھائی دے جائے گی۔ کیمبرج اور آکسفرڈ میں چینی طلباء کی بھرمار ہے۔ میں نے سوچا مارکیٹ اکانومی سے متعارف یہ جوان لوگ جب اپنے وطن لوٹیں گے تو وہاں کیا کریں گے؟

تیسرے سگنل پر بائیں جانب کچھ نہیں تھا۔ اب احتیاج بڑھ گئی۔ پہلا اچھا پب دکھائی دیا تو میں اندر گھس گیا۔ نوجوان انگریز خدمت گار نے ”جی جناب“ کہہ کر مقصد آمد دریافت کیا تو میں نے احتیاج رفع کرنے کی اجازت چاہی۔ اس نے بھی بہت مہذب طریقے سے خوش آمدید کہتے ہوئے سیڑھیاں اتر کر نیچے چلے جانے کو کہا۔ نیچے اتنے صاف اور پرسکون ٹوائلٹ تھے جیسے گھر پر بھی نہ ہوں۔

باہر نکل کے پھر پوچھا تو اس نے بھی تیسرا سگنل مڑنے کو کہا۔ وہاں بھی کچھ نہیں تھا تو ایک جوان خاتون سے پوچھا۔ اس نے کہا سیدھا جائیں، میں ہنس کے ”اور تیسرے سگنل سے بائیں مڑ جائیں“ کہنے ہی والا تھا کہ اس نے کہا اگلے سگنل سے مڑ جائیں۔ وہ سچی تھی، سامنے سٹیشن دکھائی دے رہا تھا۔ افسوس کہ اطلوی خاتون سٹال سمیت غائب تھی ورنہ میں پیدل چلوانے کا گلہ ضرور کرتا۔
میرے پاس جو ٹکٹ تھا اس سے میں لندن کے اسی سٹیشن تک جا سکتا تھا جہاں سے سوار ہوا تھا۔ چند منٹ بعد وہی منحوس پرانی ٹرین ملی اور جس کمپارٹمنٹ میں میں سوار ہوا اس میں سکولوں کے بچے بھر گئے۔ انہوں نے باتیں کر کر کے اتنا شور مچایا کہ میری تکان دوچند ہو گئی۔ میں نے دوسری طرف سامنے بیٹھی سات سالہ بچی کو دیکھا جو دو انگلیوں سے اپنی سنہری زلفیں کھینچے، منہ گول کیے، دوسرے ہاتھ میں آئی فون 5 پکڑے سیلفی بنا رہی تھی۔ میں اس کی حرکت دیکھ کر مسکرا دیا اور وہ میری توجہ دیکھ کر سنجیدہ اور نالاں دکھائی دینے لگی۔ شکر ہے تیسرے ہی سٹیشن پر تین بچوں کے علاوہ سب اتر گئے اور اس سے اگلے سٹیشن پر وہ بھی اتر گئے۔ اس سٹیشن پر کسی سکول یا کالج کی جو بڑی عمر کی لڑکیاں اتریں ان کے پیٹی کوٹ ٹخنوں تک تھے، وہ اچھی لگیں، ہمارے اندر سے پاکستانی کہیں نہیں جاتا۔ سکارف ہوتا تو اور بھی اچھی لگتیں شاید۔

متعلقہ سٹیشن پر اترا اور وہاں سے صبح کی طرح دو ریل گاڑیاں تبدیل کرکے جب ہیکنی ڈاؤن اترا تو سب باہر نکلنے کے لیے پلیٹ فارم کے آخر کی جانب جا رہے تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ اندر ہی اندر سے بہت دور چل کر ہیکنی سنٹرل سے ہی باہر نکلنا پڑا۔ میں اس قدر تھک چکا تھا کہ ایک قدم بھرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا اوپر سے ہیکنی سنٹر سے نکل کر گھر کی راہ قدرے طویل ہو گئی تھی۔ پہنچنا تو تھا ہی، پہنچا۔

ندیم سعید کے گھر کے باہر ایک بڑا سا اجتماعی صحن ہے یعنی میدان۔ میرا دل کیا وہاں چارپائی بچھی ہوتی، پیڈسٹل چل رہا ہوتا اور میں گاؤ تکیے سے ٹیک لگا کے حقہ گڑ گڑا رہا ہوتا۔ کیمبرج دیکھ کر قلق ہوا تھا کہ نہ خود ان مقامات پر پڑھ سکے نہ بچے پڑھا سکے کہ تھکاوٹ نے مجھے اپنا باپ بننے کی طرف مائل کر دیا۔ فون کے ایپ پر چیک کیا تو اس روز میں تیرہ اعشاریہ سات کلومیٹر پیدل چلا تھا مسلسل۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).