تبدیلی خطرناک ہوسکتی ہے، اہل نظرکو اس پر نظر رکھنا ہوگی


اقتدار اور طاقت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں یہ اندازہ تو تھا لیکن جس طرح سے تبدیلی سرکار عمل کرہی ہے وہ تو حیرت انگیز ہے یعنی اقتدار میں آنے کے بعد بھی روش وہی پرانی ہے کہ ہر طرح کی خرابی کا ذمہ دار دوسروں کوٹھہرایا جارہا ہے وہی زبان، وہی انداز جو کنٹینر پر چڑھے وقت تھا اس کا نشہ شاید کچھ اتنا زیادہ چڑھ گیا ہے کہ اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اس وقت حکومت وقت زد پر تھی آج اپوزیشن کو رگیدا جار ہا ہے یعنی تبدیلی کے بعد بھی تبدیلی نہیں آئی۔ لیکن کچھ ایسے بیان اور رویے سامنے آرہے ہیں جو کچھ خطرناک پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کچھ دن پیشتر حکومت کے وزیر اطلاعات نے پارلیمنٹ کے اندر کھڑے ہوکرسعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی طرز پر مخالفین اور کرپشن میں ملوث افراد کو الٹا لٹکانے کی بات کی، اور اب جناب وزیر اعظم نے کہا ہے کہ حزب مخالف کے سیاستدان قومی مجرم ہیں۔

اس طرح کے بیانات اور رویے ایک خطرناک رجحان کی عکاسی کرتے ہیں۔ حکومت کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں وہ جس انقلاب کی آس لگا کر یہاں تک آئے تھے وہ ہوا میں تحلیل ہوتا نظرآرہا ہے اوپر سے حالات کا معروضی اور حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے کے بجائے ایک بار پھر اپنے سادہ لوح مداحین کو ایک اور سراب دکھایا جارہا ہے کہ یہ سب کچھ صرف چند افراد کے کرتوتوں کی وجہ سے ہوا ہے اس لیے اگر انھیں سزا دے دی جائے تو سارے معاملے حل ہوجائیں گے۔

سیاست میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کوئی نئی بات نہیں ہے اور پاکستان ہی نہیں دوسرے ممالک میں بھی یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے لیکن اس میں ایک فرق ہے۔ دوسری جماعتوں کے رہنما اور ان کے پیروکار اس طرح کے بیانات کو سیاسی سطح پر ہی لیتے ہیں اور ان کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیتے لیکن تحریک انصاف کے پیروکاروں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان بیانات اور اعلانات کو بہت سنجیدہ لیتے ہیں (کیونکہ بعض اوقات ان کی اکثریت پیروکاروں سے زیادہ پیر پرستوں کا ساطرز عمل اختیار کرلیتی ہے)۔ جس سے اندیشہ ہے کہ حکومت کسی بھی طرح کے فسطائی ہتھکنڈوں پر اتر سکتی ہے ( جن کے آئیڈیل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ان کی پالیساں ہوں ان سے آپ اور کیا توقع کرسکتے ہیں؟ او رویسے بھی صحافی جمال خشوگی کا واقعہ بہت سوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے )۔

ایسا کیوں ہورہا ہے؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت اپنے آپ کو ناکامی کے تاثر سے بچانے کے لیے ناکامی کا ملبہ پچھلی حکومت یا دوسرے ایسے بیرونی عوامل پر ڈال سکتی ہے لیکن یہاں مسئلہ زیادہ گھمبیر ہے۔ یہ حکومت اور اس کے چاہنے والے کچھ ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو آگے چل کر بڑے سیاسی اور سماجی مسائل کھڑے کرسکتے ہیں۔ یہ خطرناک طور پر ایسی نفسیاتی کیفیت کے نرغے میں نظر آتے ہیں جس میں انھیں اپنے سو ا دوسرے سارے افراد قومی مجرم ہی نظر آتے ہیں اور یہ ہر اس شخص یا گروہ کوجو ان سے اتفاق نہیں کرتا ایک ایسے دوسرے (the other) کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے مخالفت محض سیاسی نہیں رہتی بلکہ ایک دشمنی میں ڈھل جاتی ہے۔

یہی وہ رویے ہیں جس کی وجہ سے اب تک نہ حکومت کوئی واضح لائحہ عمل دے سکی ہے اور نہ ہی اسے سمجھ آرہی ہے کہ کہاں سے شروع کرے وہ آتے ہی ایک سے دوسرے بحران میں گھری نظر آتی ہے یہ اسی رویے کی کارستانی ہے جس میں سوائے بڑے بول کے آپ کے پا س حقیقت میں کچھ کرنے کے لیے نہیں ہوتا۔

ہربرٹ ماکیز اور ایرک فرام نے ساٹھ کی دہائی میں اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ اب ایک ایسے یک رخے انسان کا ظہور ہورہا ہے جس کو آگے پیچھے کسی چیز کا پتہ نہیں ہے اور وہ انتہائی حدتک سادہ فکری کا شکار ہے۔ پھر سرمایہ دارانہ طرز معیشت کو بھی اسی طرح کا انسان ہی سوٹ کرتا ہے جو زیادہ غور وفکر کاعادی نہ ہو نہ زیادہ سوال کرتا ہو اور جو جواب مارکیٹ یا ریاست کے طرف سے دے دیے جائیں ان پر بلا چون وچرا نہ صرف یقین کرلیتا ہو بلکہ بخوشی عمل پیرا بھی ہوجاتا ہو۔ اب ظاہر ہے اس طرح کے آدمی سے پھر کوئی بھی کام لیا جاسکتا ہے اور اور اس کو کسی بھی چیز کا یقین دلایا جاسکتا ہے۔

بدقسمتی سے تحریک انصاف کے چاہنے والوں کی اکثریت بھی ایسے مڈل کلاس بورژواژیوں پر مشتمل ہے جو روایتی بورژواژی رویوں کے ہی حامل ہیں۔ ان کا تاریخی شعور خطرناک حدتک کم ہوتا ہے۔ بورژواژی کا ایک المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لمحہ موجود میں جیتا ہے اور جینا چاہتا ہے اسے آگے پیچھے اسے اور کسی چیز کا نہ شعور ہوتا ہے اور نہ احساس۔ اور اسے احساس صرف اس وقت ہوتا ہے جب وقت نہیں ہوتا اور جب اس پر کوئی افتاد پڑتی ہے تو وہ مکمل انہدام پر ہی منتج ہوتی ہے۔

اس بات کو بیسیویں صدی کے دوسرے اور تیسرے عشرے کی تاریخ کے تناظر میں بھی دیکھنا ضروری ہے جب مغرب ایک ایسے انسانی المیے کا شکار ہوا کہ وہ آج تک سمجھنے کی کوشش کررہا ہے کہ ایسا کیوں ہواتھا کہ انتہائی تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ معاشرے کس طرح پاپولزم کی سیاست کا شکار ہوکر ہٹلر اور مسولینی جیسے افراد کی جھولی میں جاگرے۔ اس المیے کا تجزیہ آج بھی جاری ہے لیکن جو بات وہاں کے ادیبوں اور ہنا ایرینڈ Hannah Arendt جیسے مفکرین نے واضح کی تھی وہ یہ تھی کہ جب مڈل کلاس کا پھیلاؤ بڑھنے لگے تو پھر ضروری ہے کہ سیاست کو ان عناصر سے بچایا جائے جو مڈل کلاس کی غیر حقیقی امنگوں کا استحصال کرسکتے ہوں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ان رویوںپر بھی نظر رکھی جائے جو حالات کو خدانخواستہ کسی اس طرح کی نہج پر لے جاسکتے ہوں۔ اس لیے اہل نظر کو تبدیلی پر کڑی نظر رکھنا ہوگی ورنہ یہ واقعی کسی ایسی تبدیلی کا روپ دھار سکتی ہے جو پورے معاشرے کا تاروپود بکھیر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).