پٹواری، یوتھیے اور امریکی


حادثاتی طور پر امریکہ کے صدر بننے والے ہیری ٹرو مین دنیا کی تاریخ کے سب سے بڑے حادثے کے براہ راست ذمہ دار ہیں۔ اس سے مشکل فیصلہ ابھی تک کسی بنی نوع انسان نے نہیں کیا۔ پلک جھپکتے ہی ڈیڑھ لاکھ لوگ بخارات بن کر ہوا میں گھل گئے۔ چیخ تک نہیں نکلی ، خاک تک نہیں بچی۔ عمارتیں کھنڈر بن گئیں، لوہا پگھل کر بہنے لگا۔ جاپان اپنا دفاع نہ کر سکا۔

جنگ عظیم دوم کے آغاز میں ہی امریکہ کے مقتدر حلقوں میں جرمنی کی طرف سے کوئی انتہائی مہلک ہتھیار بنانے کا خدشہ رینگنے لگا۔ وجہ آئن سٹائن کا صدر روزویلٹ کو لکھا گیا خط تھا جس میں انہوں خبردار کیا کہ جرمنی بم بنانے کے قریب ہے۔ ایٹم بم پر کام شروع ہوا لیکن کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہوئی۔ انیس سو بیالیس میں امریکی فوج کے سرابراہ جنرل مارشل کو بم بنانے کا منصوبہ سونپا گیا۔ انکی قیادت میں مین ہیٹن نامی پروجیکٹ نے تین سال میں ہی بم بنا لیا۔ جنگ عظیم دوم ابھی بھی جاری تھی۔ یہ پانچ کروڑ لوگوں کا خون پی کر بھی پیاسی تھی۔

جنگ کے سب سے اہم کرداروں میں فیرینکلن ڈی روزویلٹ سب سے نمایاں تھے۔ روزویلٹ نے ساری زندگی لڑائی لڑی۔ کبھی اپنے ساتھ اور کبھی حالات کے ساتھ۔ صدر بننے سے پہلے یہ انتالیس برس کی عمر میں ایک دن اچانک چلتے پھرتے دونوں ٹانگوں سے معذور ہو گئے۔ علامات سے قیاس یہی کیا جاتا ہے کہ پولیو کا دورہ تھا۔ زندگی کے ساتھ دوڑنا سہل نہ رہا۔ لیکن روزویلٹ ہارنے کے لئے تیار نہ تھے۔ اپنے علاج کے لئے ہر ممکن طریقہ اپنا لیا۔ طبی جدت کا ہر حربہ استعمال کیا۔ لیکن بغیر سہارے کے کھڑے ہونے اور چلنے کی سکت نہ واپس آئی۔ زیادہ نقل وحرکت ذاتی کار، ویل چیئر اور بیساکھیوں کے ذریعے ہوتی۔ خود اعتمادی کا بحر بیکراں تھا یہ شخص۔ اتنی بڑی معذوری کے باوجود امریکہ کی صدارت کا خواب دیکھ لیا۔ زمانہ بھلا تھا، لیکن اتنا بھی نہیں کہ لوگ بظاہر ویل چئیر تک محدود انسان کو اپنا صدر منتخب کر لیتے۔ مشکل یہی نہیں تھی۔ مقابلہ بھی ہربرٹ ہوور سے تھا جو پہلے سے امریکی صدر تھے اور دوسری باری کے لئے لڑ رہے تھے۔

Franklin D Roosevelt

قدرت نےبڑی سادگی سے اپنا کھیل کھیلا۔ چھیانوے فیصد امریکیوں کو پتا ہی نہیں چلا کہ صدارتی امیدوار چل پھر نہیں سکتا، اور نہ مخالف امیدوار نے روز ویلٹ کی جسمانی معذوری کو اپنی طاقت بنایا۔ روزویلٹ بھاری اکثریت سے امریکہ کے بتیسویں صدر منتخب ہوئے۔ مشکل دور میں ملک کی قیادت سنبھالی۔ ابھی قحط سالی سے حالت نہیں سنبھلی تھی کہ 1939 میں دوسری جنگ چھڑ گئی۔ روز ویلٹ جنگ نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ زندگی کی معرکہ آرئیوں سے نبرد آزما ہو کر کندن بن چکا تھا۔ اسےپتا تھا جیتنے کے لئے لڑنا ضروری نہیں۔ وہ صبر کا شجر سایہ دار تھا۔ عوام کو روزویلٹ پر اتنا اعتبار تھا کہ 94 فیصد لوگوں نےاسکے فیصلے کی حمایت کی۔ جنگ چلتی رہی۔ یورپ جل رہا تھا۔ لیکن امریکہ میں روزمرہ زندگی معمول کے مطابق تھی۔ برآمدات آسمان چھونے لگیں۔ صرف 1941 میں مجموعی ملکی پیداوار کی شرح نمو 19 فیصد تھی۔

Hiroshima

سات دسمبر 1941 کی صبح جاپانی ائیر فورس نے ہوائی میں امریکی بحری چھاونی پے حملہ کر دیا۔ ایک سو اسی طیارے تباہ ہوگئے، موقع پے موجود دو ہزار لوگ جان کی بازی ہار گئے۔ دوسرے دن کانگریس اور سینٹ کے مشترکہ اجلاس کو مخاطب کرتے ہوئے روزویلٹ نے کہا کہ جاپانی ائیر فورس نے چار ہزار میل کا سفر کر کے ہم پر حملہ کیا ہے۔ اب نہ صرف ہم نے اپنا بھر پور دفاع کرنا ہے بلکہ دنیا کو باور کرانا ہے کہ امریکہ وہ جگہ نہیں جہاں تاریخ اپنے آپکو دہرانے کا دعوی کرے۔ یہ باقاعدہ جنگ میں شمولیت کا طبل تھا۔ جنگ اب گھمسان کا رن بن چکی تھی۔ تین سال گزر گئے۔ پانچ کروڑ لوگ عبرت کی قبر میں جا لیٹے لیکن پھربھی نہ کوئی جیتنے کا دعوی کر رہا تھا نہ کسی کو ہارنے کا امکان نظر آ رہا تھا۔ فروری 1945 میں امریکی بم تیار تھا۔ بٹن دبانے کا انتظار تھا۔ روزویلٹ کو بریفنگ دی گئی۔ زندگی سے زندگی کے لئے لڑنے والے شخص نے بم کا استعمال رد کر دیا۔ اسے مہلک ہتھیاروں کے ہاتھوں انسانوں کا مستقبل بے بس ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ اقوام متحدہ کا تصور دیا۔وہ لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پے اکھٹا کرنا چاہتا تھا، جہاں بات چیت اور باہمی تعاون سے مسائل حل ہو سکیں۔ 26 اپریل 1945 کو اقوام متحدہ کانفرنس کا تاسیسی اجلاس منعقد کروانے کے دعوت نامے ارسال کروا کے روزویلٹ جارجیا کے گرم چشمے کی طرف چلا گیا ۔ بیس برس قبل یہیں سے اس نے پولیو کے خلاف خاموش اعلان بغاوت کیا تھا۔ دنیا کی پریشانیوں سے دور تیرہ دن ہی گزرے تھے کہ اچانک دل نے دھڑکنا بند کردیا۔ یہ ان آٹھ امریکی صدور میں سے ساتویں نمبر پر ہے جن کا دوران اقتدار انتقال ہوا۔ اتنی مقبولیت ملی کہ چار دفعہ امریکی عوام نے انہیں صدر چنا۔ کہتے ہیں کہ اگر یہ زندہ رہتے تو پانچویں دفعہ بلا مقابلہ منتخب ہوتے۔

Nagasaki

ان کی وفات کے بعد انکے نائب صدر ہیری ایس ٹرومین نے صدر کا حلف اٹھا لیا۔ جرمنی ہتھیار ڈال چکا تھا۔ جاپان پوری ڈھٹائی سے اپنی پوزیشن پے قائم تھا۔ امریکی افواج کا خیال تھا کہ جاپان پر حملہ کیا جائے۔ جبکہ امریکی صدر نے کچھ نیا ہی سوچا۔ لٹل بوائے نامی بم ہیروشیما پے گرا دیا گیا۔ 15 اگست صبح آٹھ بجے جاپان نے گھٹنے ٹیک دیئے ، جنگ ختم ہو گئی۔ امریکہ کی عظمت کا سفر شروع ہو گیا۔ ابھی تک جاری ہے۔ بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی اور ترقی کے اس دور میں پچھلے پچھتر سال سے اس کا اثر ورسوخ قائم ہے۔ انگریزی کی ایک کہاوت ہے کہ ایک کامیابی دوسری کامیابی کو جنم دیتی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ جنگی صلاحیت امریکہ کی کامیابی کی ایک وجہ ہے۔ لیکن یہ جنگی سازوسامان روس کو نہیں بچا سکا۔ دراصل سب چیزوں سے بڑھ کے کسی قوم کا رویہ ہوتا ہے جو اسے اوج ثریا تک لے جاتا ہے۔ یورپ اور افریقہ سے دھتکارے ہوئے تارکین وطن جنہیں ہم امریکی کہتے ہیں،یہ ڈیڑھ سو سال تک بھٹکتے رہے۔جب انکے رویے نے ایک متوازن شکل اختیار کی تو کامیابیاں انکے سامنے ڈھیر ہوتی گئیں۔ یہ توازن انکے رہنماوں کی اعلی اقدار کا مرہون منت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی قوم اپنے صدور کی دل سے عزت کرتی ہے بھلے ان سے کتنی ہی سنگین غلطیا ں کیوں نہ سرزد ہوئی ہوں۔
بے شک عوامی رویے کی تشکیل میں تعلیم سے زیادہ تربیت کا کردار ہوتا ہے۔ یہ سیاسی ، مذہبی اور سماجی رہنماوں کا کا م ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقلدین کو کیا سکھاتے ہیں۔ کس چیز سے روکتے ہیں۔ کس چیز کی ترغیب دیتے ہیں۔ واشنگٹن سے روزویلٹ یا اسکے بعد آنے والے صدور اگر امریکیوں کو پٹواری، یوتھیا، ڈیزل، گدھا، کھوتا، کافر اور غدار جیسی گردانیں سکھاتے تو آج ہمیں ان کے آئی ایم ایف سے پیسے لینے نہ جانا پڑتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).