کیا آپ کی بہن آپ کی دوست بھی ہیں؟


کیا آپ کی کوئی بہن ہے؟

کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں؟

کیا وہ بھی آپ سے محبت کرتی ہیں؟

کیا آپ ایک دوسرے کی رائے کا احترام بھی کرتے ہیں؟

کیا آپ کی ایک دوسرے سے دوستی بھی ہے؟

آج میں آپ سے اپنی بہن عنبرین کوثر سے دوستی کے بارے میں چند خیالات‘ جذبات اور واقعات شیر کرنا چاہتا ہوں۔

’ہم سب‘ پر جب میرا کالم ’عورتوں سے دوستی کا راز کیا ہے؟‘ چھپا تو عنبر کا پاکستان سے کینیڈا فون آیا اور انہوں نے کہا کہ بھائی جان آپ نے میری کچھ زیادہ ہی تعریف کر دی اور میں نے کہا کہ نہیں تعریف زیادہ نہیں، کم کی ہے اور میں نے سوچا کہ میں ان کے بارے ایک کالم لکھ کر اپنی محبت کا اظہار کروں کیونکہ ہم مشرقی مرد بہت کم اپنی بہن سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔

میری زندگی میں عورتوں کے ساتھ تمام خلوص و اپنائیت کے رشتوں میں سے ایک بہت ہی پیارا اور عمدہ رشتہ اپنی چھوٹی بہن عنبرین کوثر کا ہے جنہیں میں پیار سے عنبر کہتا ہوں۔ اس رشتے سے مجھے ہمیشہ چاہت کی خوشبو آتی رہی۔ وہ مجھ سے پورے پانچ سال بعد پیدا ہوئیں۔ میری تاریخ پیدائش نو جولائی اور ان کی تاریخِ پیدائش دس جولائی ہے۔ اس لیے دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جب میں نو جولائی کی شام کو انہیں کینیڈا سے فون کرتا ہوں تو پاکستان میں دس جولائی کی ٓصبح ہوتی ہے میں کینیڈا میں اور وہ پاکستان میں سالگرہ منا رہی ہوتی ہیں۔

اپنے فلسفہِ حیات اور طرزِ زندگی کے اختلافات کے باوجود ہم ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔ جب وہ رمضان میں کینیڈا آئیں تو میں ان کے افطار کے لیے بازار سے خاص طور پر مدینہ کھجوریں لے کر آیا۔

میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے صرف اپنی بہن سے ہی نہیں بلکہ ان کے شوہر ارشاد میر اور ان کے چار بچوں عفیفہ‘ عروج‘ ذیشان اور وردہ سے بھی بہت پیار ہے۔ میری بھانجیاں اور بھانجا مجھ سے اتنے بے تکلف ہیں کہ وہ مجھ سے ان موضوعات پر بھی تبادلہِ خیال کر لیتے ہیں جو وہ اپنے والدین سے نہیں کر سکتے۔ میرا ان سے بھی رشتہ غیر روایتی ہے۔ میری ان سے بھی دوستی ہے۔ میری بھانجی وردہ نے مجھے ایک کی چین دیا تھا جس پر لکھا ہے friendship token: good for life ۔ میری بہن کی طرح وہ بھی میری دوست ہیں۔

آج سے کئی برس پیشتر میں نے اپنی بہن اور ان کے بچوں کے لیے دو مختصر نظمیں لکھی تھیں وہ حاضرِ خدمت ہیں

                                ایک معجزہ

میری پیاری بہن عنبر

تمہاری زندگی کسی معجزے سے کم نہیں

میں جب کبھی تمہارے بارے میں سوچتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں

تم نے کیونکر

اپنے والدین کے تضادات کو ورثے میں پایا

ایک اجنبی سے شادی کی

زندگی کی آزمائشوں کا سامنا کیا

بچوں کی دیکھ بھال کی

اپنے زمانے کے جبر برداشت کیے

اور پھر بھی

نہ گھبرائیں نہ حواس باختہ ہوئیں

تمہیں دیکھ کر میرے ذہن کو سکون

روح کو تحریک

اور

قلب کو خوشی ملتی ہے

ایسی خوشی جو وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے

میری پیاری بہن

میرے قریب آئو

میں تمہیں گلے لگائوں

تمہاری پیشانی پر بوسہ دوں

تم عمر میں مجھ سے چھوٹی ہو

لیکن زندگی میں مجھ سے بہت آگے

٭٭٭   ٭٭٭

                                                بچے

جب میرا بھانجا اور بھانجیاں مجھ سے کھیلتے ہیں

میں خوشی سے جھوم اٹھتا ہوں

جب وہ مجھ سے بات کرتے ہیں

میرا دماغ بھینی بھینی خوشبو سے لبریز ہو جاتا ہے

جب وہ مجھے گدگدی کرتے ہیں

میرے دل میں خوشیوں کے پھوارے پھوٹتے ہیں

جب وہ مجھ سے گلے ملتے ہیں

میں اس کا حظ

روح کی گہرائیوں میں محسوس کرتا ہوں

ان کی والدہ

میری آنکھوں میں انکھیں ڈال کر پوچھتی ہے

آخر کب تک

تم یہ بےجان کتابیں تخلیق کرتے رہو گے؟

کب تم

ذی روح بچے پیدا کرو گےَ

میں اس کی بات سنتا ہوں

میں مسکراتا ہوں

اور خاموش رہتا ہوں

٭٭٭    ٭٭٭

ایک دن میں نے عنبر سے ہنستے ہوئے کہا آپ کے چار بچے ہیں دو آپ کے ہیں، دو میرے ہیں۔ اتفاق سے ان کے دو بچے ذیشان اور وردہ میرے پاس کینیڈا آگئے اور میں نے ماموں کے رول کو بہت انجوائے کیا۔

آخر میں میں آپ کو عنبر سے دوستی کا ایک اور واقعہ سناتا ہوں تا کہ آپ کو ہمارے رشتے کی معنویت کا اندازہ ہو سکے۔

جب میں 1982 میں ماہرِ نفسیات بنا تو میں نے اپنی امی جان سے پوچھا کہ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ کہنے لگیں ہم مہاجر ہیں ہم اپنا گھر امرتسر چھوڑ آئے ہیں مجھے ایک گھر خرید دو۔ میں نے کہا آپ ایک گھر پسند کر لیں۔ انہوں نے لاہور کے کرشن نگر میں جو بعد میں مشرف بہ اسلام ہو کر اسلام پورہ بن گیا تھا۔ ایک چار لاکھ روپے کا گھر خرید لیا۔ میں نے انہین کینیڈا سے 40 ہزار ڈالر بھیج دیے۔ ان دنوں ڈالر کی قیمت دس روپے ہوتی تھی۔ جب میں نے پاکستان جا کر امی جان کا گھر دیکھا تو اندازہ ہوا کی اس گھر کی ایک دیوار مسجد سے ملتی ہے، اس دن مجھے غالب کا شعر یاد آیا

مسجد کے زیرِ سایہ اک گھر بنا لیا ہے

یہ بندہِ کمینہ ہمسایہِ خدا ہے۔

1995 میں اپنے والد کی وفات کے وقت جب میں لاہور گیا تو میں نے والدہ سے پوچھا کہ آپ کی کیا خواہش ہے کہ آپ کی وفات کے بعد اس گھر کا کیا کیا جائے۔ کہنے لگیں تم کینیڈا میں رہتے ہو تمہارے بچے بھی نہیں ہیں تمہاری بہن عنبر لاہور میں رہتی ہے اس کے چار بچے بھی ہیں میری خواہش ہے کہ میں یہ گھر عنبر کو دے دوں۔

چنانچہ جب والدہ فوت ہوئیں اور میں پاکستان گیا تو میں نے ایک وکیل سے ملاقات کی اور وہ گھر اپنی امی کی وصیت کے مطابق اپنی بہن کے نام کر دیا۔ جب انہیں پتہ چلا تو انہوں نے لینے سے انکار کر دیا۔ ہم ایک سال تک لکھنئو کے لوگوں کی طرح ’پہلے آپ‘ ’پہلے آپ‘ کرتے رہے۔ عنبر کا موقف تھا کہ سہیل بھائی یہ گھر آپ کا ہے کیونکہ آپ نے امی جان کو خرید کر دیا تھا۔ میرا موقف یہ تھا کہ امی جان کی وصیت تھی کہ یہ گھر آپ کے پاس جائے۔ ہمارے دوستوں اور رشتہ داروں کو یقین نہ آتا تھا کہ ہم دونوں کی دوستی اتنی مضبوط ہے۔

آخر میں نے مشورہ دیا کہ اسے بیچ دیں اور اس کی رقم ہم برابر برابر بانٹ لیں۔ عنبر اس پر راضی ہو گئیں۔ چانچہ وہ گھر ساٹھ لاکھ میں بیچ دیا۔عنبر نے تیس لاکھ رکھ لیے اور مجھے تیس لاکھ کینیڈا بھیج دیے۔

یہ واقعہ ہماری دوستی ‘ خلوص اور محبت کی صرف ایک مثال ہے۔

سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ میری مذہبی بہن نے اپنے دہریہ بھائی کا گھر مسجد کو بیچ دیا اور میں مسکراتا رہا۔ ہو سکتا ہے میری بہن اپنے ذہن میں میرے لیے جنت کا اہتمام کر رہی ہوں تا کہ ان کے ذہن میں یہ دوستی دوسری دنیا میں بھی جاری رہے۔ (بہت سی مسکراہٹیں)

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail