کینسر کے مریضوں کے لیے بالوں کا عطیہ: ’میرا جو اعتماد ختم ہو گیا تھا وہ بحال ہو گیا ہے‘


بیرون ملک سے پاکستان پہنچنے کے بعد رومانہ نے سب سے پہلا کام اپنے بال کٹوانے کا کیا لیکن وجہ ہیئر سٹائل کی تبدیلی نہیں بلکہ اپنے بال کینسر کے مریضوں کے لیے عطیے کی صورت میں ایک تحفہ دینا تھی۔

‘شاید ہی کوئی ایسا انسان ہو جو یہ سوچے کہ میرے بال ختم ہو جائیں۔ میں نے کبھی اپنے بال اتنے چھوٹے نہیں کروائے تھے ایسا پہلی بار کیا ہے لیکن اگر اس سے کسی کے چہرے پر مسکراہٹ آتی ہے تو میں اگلے برس بھی انھیں دوبارہ سے کٹواؤں گی۔’

کراچی کے علاقے بہادر آباد میں اتوار کو معروف پارلر ڈپلیکس بیوٹی کلینک نے بلامعاوضہ بال کٹوانے کی سہولت فراہم کی۔ گیارہ بجے سے چار بجے تک جاری رہنے والی اس مہم میں لگ بھگ 50 خواتین نے اپنے بال عطیہ کیے۔

ان میں 12 سال کی بچی سے لے کر ادھیڑ عمر خواتین سب شامل تھیں۔ کسی نے فیس بک اور کسی نے وٹس ایپ پر اس مہم کے بارے میں سنا اور کچھ ایسی بھی تھیں جو ہر سال اس مہم میں بال عطیہ کرتی ہیں۔

بال کا عطیہ

کینسر کے مریضوں کے لیے بال عطیہ کرنے کی مہم کو سوشل میڈیا سے مدد ملی

بہادر آباد سے کچھ ہی فاصلے پر سہراب گوٹھ کے فلیٹس میں 23 سالہ روبیشہ بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان سے مل کر کوئی گمان نہیں کر سکتا کہ وہ گذشتہ تین سالوں سے کینسر کی ایک غیر معمولی قسم سے جنگ لڑ رہی ہیں اور اب تک 46 بار کیمو تھراپی کروا چکی ہیں۔

روبیشہ نے ایک خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ ہمارا استقبال کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘ایک اذیت جسمانی ہوتی ہے، دوسری نفسیاتی اور کینسر کا مریض ان دونوں سے گزرتا ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

آخر یہ خواتین سر کیوں منڈوا رہی ہیں؟

’پاکستان میں نوجوان لڑکیوں میں بریسٹ کینسر بڑھ رہا ہے‘

جب دوسری بار کیمو ہوتی ہے تو زیادہ تر مریضوں کے سر کے بال جھڑنا شروع ہو جاتے ہیں بالکل ایسے ہوتا ہے جیسے بال سر پر چپکے ہوں اور نکلنے لگیں اس سے بہت تکلیف ہوتی ہے۔

‘جب بال گر رہے ہوتے ہیں تو ہم سر ڈھکنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ تو جسمانی طور پر ہو رہا ہوتا ہے اور دوسرا جو نفسیاتی طور پر ہو رہا ہوتا ہے وہ معاشرے کو فیس کرنا ہوتا ہے۔ وہ بہت زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ گھر میں ایسے نہیں گھوم سکتے کہ بھائی دیکھ رہا ہے تو عجیب لگ رہا ہے کوئی اور دیکھ رہا ہے تو عجیب لگ رہا ہے۔’

دنیا کے بہت سے ممالک میں کینسر کے مریضوں کو بال عطیہ کرنے کی روایت موجود ہے۔ یہ مرض پاکستان میں بھی بہت سے شہریوں کو متاثر کرتا ہے لیکن پاکستان میں قدامت پسند رویے زیادہ نظر آتے ہیں یہاں عورت کا بال کاٹنا مذہبی طور پر ناپسندیدہ اور ایک معیوب فعل سمجھا جاتا ہے۔

بال تحفہ

روبیشہ کہتی ہیں کہ ‘ایک اذیت جسمانی ہوتی ہے، دوسری نفسیاتی اور کینسر کا مریض ان دونوں سے گزرتا ہے’

یہ سنہ 2012 کی بات ہے جب کراچی سے تعلق رکھنے والے 26 سالہ سید فہد علی نے کینسر کا شکار ہونے والی خواتین کو اصلی بالوں کی صورت میں ایک تحفہ دینے کا فیصلہ کیا۔

فہد کہتے ہیں کہ ‘جب میں سکول میں تھا تو میری ایک ہم جماعت کو اس لیے سکول چھوڑنا پڑا کیونکہ کینسر ہونے کی وجہ سے اس کے بال گر گئے تھے اور سب بچے اسے گنجی کہتے تھے۔ یہ بات مجھے بہت بری لگی کہ سب نے اسے ایسا کیوں کہا۔ پھر جب کئی سال بعد کسی دوسرے ملک میں کینسر کے مریضوں کے لیے وِگ کی فراہمی کے متعلق ایک رپورٹ دیکھی تو سوچا کیا پاکستان میں ایسی سہولت ہے لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں تھا۔ بس پھر میں نے خود یہ کام کرنے کی ٹھان لی۔’

انھوں نے یہ مہم فیس بک اور اپنے ویب پیج سے شروع کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ابتدا میں مذہبی طبقے کی جانب سے بہت شدید ردعمل ملا اور دھمکیاں دی گئیں۔

یہ بھی پڑھیے

سونالی بیندرے کس طرح کے کینسر سے لڑ رہی ہیں؟

’خواتین رسوائی کے ڈر سے کینسر چھپا رہی ہیں‘

وہ کہتے ہیں کہ ‘شروع میں مذہبی لوگوں کی طرف سے بہت مشکلات آئیں۔ لوگوں کے لیے یہ بالکل نئی سوچ تھی۔ ہم لوگوں کو اس بارے میں منفی فیڈ بیک ملی شروع ہوئی کہ آپ کالا جادو کر دو گے آپ اس بالوں کو بیچ دو گے۔’

بال کا عطیہ

انھوں نے مزید کہا: ‘لیکن جب ہم لوگوں نے وگز بنوائی اور کینسر ہاسپٹلز کو دیں تو لوگوں کا اعتماد بحال ہوا’

چھ سال کے دوران اب تک صرف تین پارلرز نے فہد کی مدد کی ہے۔

وہ چین اور لاہور میں اسی کام سے منسلک کاروباری حضرات کی مدد سے مریضوں کے لیے سستے داموں وگز بنواتے ہیں۔

وہ فی الحال صرف شوکت خانم کے گفٹ سینٹر میں وگ بھجواتے ہیں اور جو لوگ ان سے براہ راست رابطہ کرتے ہیں ان کی مدد کرتے ہیں۔

جس وِگ کی قیمت مارکیٹ میں 15 ہزار سے شروع ہوتی ہے وہ فہد کو تین ہزار میں مل جاتی ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ اگر ڈونر یعنی عطیہ کرنے والوں کی تعداد بڑھ جائے اور مقامی مارکیٹ میں بہتر کوالٹی کی وگ تیار ہونے لگے تو مریضوں کا یہ مسئلہ ختم ہو سکتا ہے۔

بالوں کا عطیہ

بال عطیہ دینے کے لیے لوگ تو سامنے آئے ہی کئی بیوٹی پارلرز نے بھی اس میں اپنا کردار ادا کیا

فیس بک کے ذریعے رابطہ کرکے ملک کے مختلف علاقوں سے خواتین کی جانب سے اپنے 12 انچ بال دیے جانے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے جو روبیشہ جیسے بہت سے مریضوں کے لیے اعتماد کی بحالی کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔

روبیشہ کہتی ہیں کہ 10 کیمو لگنے کے بعد کوشش کرنے پر انھیں وِگ دے دی گئی جو عام طور پر خریدنا ناممکن تھا۔

‘مجھے معلوم نہیں کہ میں کس کے عطیہ کردہ بال استعمال کر رہی ہوں لیکن میں سب ڈونرز کی شکر گزار ہوں ۔۔۔ میرا جو اعتماد ختم ہو گیا تھا وہ بحال ہو گیا ہے۔ میں سب کی طرح ہی لگ رہی ہوں۔ میں کوئی مریض نہیں لگ رہی کہ میرے بال نہیں یا مجھے کسی سے چھپنا پڑ رہا ہے ۔۔۔ جب میں ٹھیک ہو جاؤں گی اور میرے اپنے بال آ جائیں گے تو میں بھی اپنے بال ضرور عطیہ کروں گی۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp