انسان کش ڈرونز کے خلاف مظاہرہ


\"edit\"ہفتہ کے روز ہزاروں جرمن شہریوں نے رامسٹین میں امریکی ائرفورس بیس کو ڈرون حملوں کے لئے استعمال کرنے کے خلاف مظاہرہ کیا۔ مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ پاکستان، افغانستان ، یمن اور دوسرے ملکوں میں ڈرون حملوں کے لئے حساس معلومات امریکہ سے جرمنی کے رامسٹٹین ائر بیس کے ذریعے فراہم ہوتی ہیں۔ مظاہرین کے نزدیک یہ طریقہ کار انسان کش اور جرمنی کے آئین کے خلاف ہے۔ اس مظاہرہ میں پانچ ہزار کے لگ بھگ لوگوں نے شرکت کی اور انہوں نے امریکن ائرفورس بیس کے قریب انسانوں کی ایک لڑی بنا کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔

اس مظاہرہ کا اہتمام انسانی حقوق کی ایک تنظیم ’رامسٹین کو بند کرو۔ڈرون حملے بند کرو‘ Stop Ramstein – No Drone War نے کیا تھا۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ امریکہ سے ڈرون آپریٹ کرنے والے امریکی فوجی اس مقصد کے لئے حساس معلومات جرمنی کے اس ائر بیس کے ذریعے میزائل داغنے والے ڈرون تک پہنچاتے ہیں۔ اس طرح اس جنگ میں جرمنی کو غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر ملوث کیا جا رہا ہے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ رامسٹین ائر بیس سے اس قسم کے سارے آلات ہٹائے جائیں جو ڈرون حملوں میں اعانت کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ ڈرون حملوں کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں کوئی شخص کسی محفوظ مقام پر بیٹھ دور دراز علاقے میں انسانوں کو ہلاک کرتا ہے اور وہ کبھی اپنے اس فعل کے لئے جوابدہ نہیں ہوتا۔ اس شخص کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جن لوگوں پر میزائل پھینک رہا ہے ، وہ کون لوگ ہیں اور اس حملے میں کون مرتا ہے۔ جرمنی میں اس مظاہرہ کے حوالے سے رامسٹین کے امریکی کمانڈروں نے کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔

امریکہ نے پندرہ برس قبل دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ڈرون حملوں کا آغاز کیا تھا ۔ یہ حملے شروع دن سے متنازعہ رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی ان حملوں کے خلاف مضبوط رائے پائی جاتی ہے۔ لیکن یہ خبریں بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ پاکستان کی فوج اس حوالے سے امریکہ کے ساتھ تعاون کرتی رہی ہے۔ تاہم اس تفہیم کے مطابق صرف انتہا پسند عناصر کو نشانہ بنایا جاتا تھا اور یہ حملے قبائیلی علاقوں تک محدود رکھے گئے تھے۔ 2014 میں آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد سے ان حملوں میں کمی واقع ہوئی تھی کیوں کہ پاک فوج نے تمام قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کا پیچھا کرکے انہیں ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس برس 21 مئی کو امریکہ نے پہلی بار پاکستان کے باقاعدہ زیر انتظام علاقے نوشکی میں ڈرون حملہ کرکے طالبان لیڈر ملا اختر منصور کو ہلاک کردیا تھا۔ اگرچہ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے ایک خطرناک شخص کو نشانہ بنایا ہے جو افغانستان میں امریکی فوج کے خلاف حملے کرنے میں ملوث تھا لیکن پاکستان نے اس حملہ پر شدید احتجاج کیا ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے متنبہ کیا ہے کہ آئیندہ اس قسم کا حملہ دونوں ملکوں کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔ پاک فوج کی طرف سے بھی اس امریکی حملہ کو متفقہ قواعد کی خلاف ورزی سمجھا جا رہا ہے ۔ اس طرح پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور ملا منصور کو مار کر افغانستان میں قیام امن کے لئے مذاکرات کو مشکل بنادیا گیا ہے۔

ڈرون حملوں کو بین الاقوامی قانون کے ماہر عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں لیکن امریکہ ان حملوں سے باز نہیں آتا۔ اس پالیسی کو پاکستان کے علاوہ یورپی ملکوں میں بھی مسترد کیا جاتا ہے اور اس کے خلاف احتجاج ہوتے رہتے ہیں۔ ان حملوں میں ایک مسئلہ یہ ہے کہ امریکی حکام کبھی میزائل حملہ میں مارے جانے والے لوگوں یا ہونے والی تباہی کے بارے میں حقیقی معلومات حاصل نہیں کرسکتے اور نہ ہی انہیں اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ان حملوں کے مقامی آبادیوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تاہم امریکی حکام بعض نمایاں دہشت گردوں کو مارنے کی مثال دے کر ڈرون حملوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک مؤثر ہتھیار قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ ان کے طویل المدت اثرات اور امریکہ کے بارے میں مقامی آبادیوں کے منفی جذبات، بعض صورتوں میں دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کا سبب بھی بن رہے ہیں۔

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں 2004 سے ڈرون حملے کئے جارہے ہیں۔ عالمی بیورو آف انسوسٹی گیٹو جرنلزم نے گزشتہ برس پاکستان کی ایک خفیہ رپورٹ سے حاصل معلومات شائع کی تھیں۔ لیکن اس رپورٹ میں بھی ڈرون حملوں سے مرنے والوں کی اصل تعداد کا اندازہ کرنا یا یہ جاننا ممکن نہیں ہے کہ ان میں کتنے شہری تھے۔ بیورو کے مطابق اس رپورٹ میں 2013 تک اعداد و شمار موجود ہیں لیکن 2009 کے بعد سے مرنے والوں کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ 2006 سے 2009 کے دوران مرنے والوں کی تعداد 746 بتائی گئی تھی۔ اگرچہ پاکستانی سرکاری رپورٹ میں مرنے والوں کی تخصیص صرف مقامی یا غیر مقامی کے طور پر کی گئی ہے لیکن بیورو نے بتایا ہے کہ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق اس مدت میں ڈرون حملوں میں مرنے والوں میں کم از کم 147 افراد شہری تھے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق امریکہ نے گزشتہ چند برسوں میں مشرق وسطیٰ کے مختلف علاقوں میں جو ڈرون حملے کئے ہیں ان میں مرنے والوں میں عام شہری زیادہ تھے۔

جرمنی کے تازہ ترین مظاہرہ اور اس میں بڑی تعداد میں لوگوں کی شرکت سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈرون حملوں کے خلاف رائے عامہ تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ تجربات نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگرچہ ان حملوں میں بعض اوقات کامیابی بھی حاصل ہوتی ہے لیکن شہری زندگیوں اور آبادیوں کو پہنچنے والے نقصان سے امریکہ کے خلاف جذبات پیدا ہوتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو درحقیقت نقصان پہنچتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments