تبدیلی کے منتظر لوگوں کی مایوسیاں


اسلام آباد کے سیکٹر H ایٹ کے فیض احمد فیض روڈ کے قریب بیٹھے کچھ ٹیکسی ڈرائیورز کو تاش کھیلتے ہوئے دیکھا تو ان کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا۔ جب ان سے بات کرنا شروع کی تو سب کچھ دیر کے لئے میری طرف متوجہ ہوئے اور پھر کہا بھائی جاؤ ہمیں ہمارے حال پہ چھوڑ دو۔ میں جب مایوس ہوکر وہاں سے اٹھا تو ایک ٹیکسی ڈرائیور میرے پیچھے اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے مجھ سی مخاطب ہوتے ہوئے کہا چلو ڈھابے پہ چل کر چائے پیتے ہیں۔ قریب ہی ایک ڈھابا تھا ہم وہاں بیٹھے اور چائے منگوائی۔

نام پوچھنے پر اس نے بتایا کے میں کوہ مری کا رہنے والا ہوں عرفان عباسی میرا نام ہے اس کی عمر قریب کوئی 50 برس لگتی تھی۔ عرفان نے بتایا کے مین 1988 سے ٹیکسی چلا رہا ہوں میں صبح کو سویرے گاڑی نکال کے اسٹاپ پے آتا ہوں تو کبھی جلد اور کبھی دیر سے سواری ملتی ہے۔ اس نے کہا کے دوپہر تک سب ڈرائیورز ٹیکسی چلاتے ہیں پھر سب کسی ڈھابے کے برابر پارک میں بیٹھ کے تاش کھیلتے ہیں اور تاش کھیلتے کھیلتے سارے دن کی باتیں کر لیتے ہیں۔

عرفان نے مسکرا کر کہا کے کبھی کبھار تاش کھیلتے ہوئے سیاست پہ بات کرنا شروع کرتے دیتے ہیں اور جو جس پارٹی کو سپورٹ کرتا ہے اس کی بات کرنا شروع کرتا ہے۔ عرفان نے کہا کہ جیسے ٹیلیوزن پے کسی پروگرام میں دو الگ پارٹیون کے سیاستدان آپس میں لڑتے ہیں ہم بھی کبھی کبھی ایسے ہی لڑ پڑتے ہیں۔ اس نے کہا کے ایک دن ہمارا ایک دوست اپنی پارٹی کے بارے مین باتیں کرتے ہوئے اور دوسرون پے الزام لگاتے ہوئے ناراض ہوگیا۔ چونکہ غصہ تو سب کو آیا پر وہ تھا تو ہمارا دوست۔

پھر ہم سب اس کو منانے اس کی گاڑی تک گئے اور پھر اس نے ناراضگی ختم کرنے کے لیے چائے پلانے کے لیے کہا یے ساری بات بتاتے وقت عرفان عباسی کے چہرے پر ایک خوشی تھی۔ بولتے بولتے اچانک اس کے چہرے پر ایک اداسی سی چھاگئی گئی میں نے وجہ دریافت کی تو اس نے کہا روز کی بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے اس نے اپنے بچوں کو اسکول سے نکلوا دیا ہے ایک بچے کو ہوٹل پہ مزدوری پہ لگا دیا ہے دوسرے کو گیراج پہ لگانے کَا سوچ رہا ہوں۔

میں نے وجہ پوچھی تو اس کی آنکھوں مین آنسو آگئے اور کہنے لگا میں اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دینا چاہتا تھا پر مہنگائی نے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی ہے۔ عرفان نے گلہ کرتے ہوئے کہا کے میں 30 سال سے ٹیکسی چلا رہا ہون۔ پہلے دہاڑی اچھی بن جاتی تھی پر اب پرائیوٹ سروسز کے آنے سے بہت پریشانی کا سامنا ہے۔

وہ کہنے لگا اگر حکومت ہمیں کچھ دی نہیں سکتی ہے تو وہ مہنگائی تو ختم کرائے یہ وہ تبدیلی تو نہیں جس کے لئے عوام نے ان حکمرانوں کو چنا ہے۔ اس کے بعد وہ دیر تک آسمان کی طرف گھورتا رہا جیسی وہ اپنے لئے کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔ میں مزید کوئی سوال کرنے کی ہمت نہ کرسکا چائے کا بل ادا کیا اس سے اجازت لی اور آسمان کی طرف گھورتا ہوا میں آگے بڑھ گیا اس بار میں آسمان میں تبدیلی کو ڈھونڈ رہا تھا شاید۔ کیوں کے وہ مجھے آس پاس کہیں بھی نظر نہیں آرہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).