سپر بگ: پاکستان میں ٹائیفائیڈ کی نئی قسم پر امریکہ کی وارننگ


یہ خبریں ارتقاء کو ماننے والے اور نہ ماننے والے دونوں کے لیے تشویشناک ہیں۔

” پاکستان میں دریافت ہونے والی ٹائیفائیڈ کی نئی قسم پر مدافعتی ادویات بے اثر“ بی بی سی اردو
”سپر بگ: پاکستان میں ٹائیفائیڈ کی نئی قسم پر امریکہ کی وارننگ“ بی بی سی اردو

اگر آپ صوبہ سندھ کی تحصیل قاسم آباد یا اس سے ملتا جلتا ماحول رکھنے والے پاکستان کے کسی بھی علاقے میں رہتے ہیں تو جان لیوا ٹائیفائیڈ کا باعث بننے والے ”سپر بگز“ آپ کو بیمار (بہت زیادہ بیمار) کر سکتے ہیں اور ایسا کرنے سے پہلے وہ آپ سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ آپ ارتقاء کو مانتے ہیں یا نہیں، کیونکہ اب یہ سپر بگز ارتقاء کی جیتی جاگتی تصویر بن کر ہمارے اور آپ کے سامنے نہ صرف کھڑے ہیں بلکہ میڈیکل سائنس اور اینٹی بایوٹکس میں آپ کی تمام تر ریسرچ اور ترقی کو چیلنج کرتے ہوئے آپ سے کہہ رہے ہیں کہ لو جی ہم آگئے ہیں، اب کرلو جو کرنا ہے۔

سپر بگز (Superbugs) کیا ہیں؟

سپر بگز بیکٹیریا کی ان اقسام کو کہا جاتا ہے جنہوں نے چند یا بہت سی دستیاب اینٹی بایوٹک ادویہ کے مقابلے میں مزاحمت پیدا کر لی ہے اور اب ان سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج عام اینٹی بایوٹک ادویہ سے ممکن نہیں ہے۔ ان سے نمٹنے کے لئے ہمیں زیادہ طاقتور اینٹی بایوٹکس کی ضرورت پڑتی ہے جو یا تو ابھی دستیاب ہی نہیں، یا بہت زیادہ مہنگی ہونے کے ساتھ ساتھ زیادہ مضر اثرات کی حامل ہیں۔

بیکٹیریا میں مزاحمت کیوں پیدا ہوتی ہے؟

بیکٹیریا خوردبینی اور یک خلوی ہی سہی، مگر ایک جیتی جاگتی اور زندگی کی تمام تر خصوصیات (بشمول حق دفاع) رکھنے والی انواع ہیں۔ جب ہم کسی بھی بیماری کی صورت میں اینٹی بایوٹکس کا بے دریغ یا نا مناسب استعمال کرتے ہیں تو کچھ بیکٹیریا اس دوائی کے اثرات سے بچنے کے لیے اپنا دفاعی نظام استعمال کرتے ہوئے اپنے اندر تبدیلیاں لے آتے ہیں۔ یہ مزاحمت کچھ بیکٹیریا میں یا تو قدرتی طور پر پہلے سے ہی موجود ہوتی ہے یا جنیاتی تغییر یعنی جینیٹک میوٹیشن کے نتیجے میں پیدا ہو جاتی ہے۔ جبکہ کچھ بیکٹیریا اس خصوصیت کو اپنے دوسرے رشتے داروں سے حاصل کرلیتے ہیں۔ یہی خصوصیت جب نسل در نسل منتقل ہوتی ہے تو سپر بگز وجود میں آتے ہیں۔

یہ مزاحمت نسل در نسل کیوں منتقل ہوتی ہے؟

اس کا سیدھا سا جواب ہے ”ارتقائی دباؤ“ یا ایوولوشنری پریشر۔ جب کسی آبادی یا اس کے کسی خاص حصے کو نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس آبادی میں اس دباؤ سے نکلنے کے لیے موجود درکار عوامل، خواہ وہ پہلے کتنے ہی کمزور کیوں نہ رہے ہوں، خود بخود اس آبادی کے اکثر افراد میں غالب آ جاتے ہیں۔ چونکہ بیکٹیریا میں افزائش نسل دوسرے جانداروں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ہوتی ہے، اس لیے ارتقاء کا یہ مظہر ان میں آسانی سے منتقل ہوتا ہوا ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی قسم کی مزاحمت وائرس، فنجائی اور دیگر پیراسائٹس میں بھی پیدا ہوسکتی ہے۔

سپر بگز کتنی تیزی سے پھیل رہے ہیں؟

” ٹایفائیڈ کا یہ جراثیم 14 ماہ قبل سب سے پہلے صوبہ سندھ میں دریافت ہوا تھا اور اب ملک کے کئی مقامات اور برطانیہ تک بھی پھیل چکا ہے۔ آغا خان یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ 2016 اور 2017 کے 10 ماہ کے مختصر وقت میں صرف حیدرآباد میں ادویات کے خلاف مزاحمتی ٹائیفائیڈ کے 800 سے زائد کیسز ایک خطرناک اشارہ ہے کیونکہ 2009 سے 2014 کے پانچ سالہ عرصے کے دوران پاکستان بھر میں ایسے صرف 6 کیسز کی نشاندہی ہوئی تھی۔ “

سپر بگز کتنے خطرناک ہیں؟

صرف امریکہ میں سپر بگز سے سالانہ دو لاکھ سے زیادہ افراد بیمار پڑتے ہیں جن میں سے تئیس ہزار موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اموات کی یہ تعداد سالانہ سات لاکھ سے لے کر کئی ملین تک ہوسکتی ہے۔

تو پھر کیا کیا جائے؟

اینٹی بایوٹک ادویہ کا صرف ضرورت کے وقت استعمال اور وہ بھی مکمل کورس۔ آدھا کورس لے کر آدھا چھوڑ دینے سے بیکٹیریا میں مزاحمت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ حفظانِ صحت کے عام اصولوں پر عمل کرنا۔ آلودہ پانی سے پرہیز، نکاسی آب کا مناسب انتظام، ہاتھ صحیح طریقے سے دھونا۔ خیال رہے کہ بلاوجہ جراثیم کش صابن سے ہاتھ دھونا بھی بکٹیریا میں مزاحمت بڑھانے کا باعث بنے گا۔

مال مویشوں میں اینٹی بایوٹک ادویہ کے زیادہ استعمال سے گریز۔ سپر بگز سے مقابلے کے لیے ہمیں نہ صرف نئی اینٹی بایوٹک ادویہ تلاش کرنی ہوں گی بلکہ علاج کے نت نئے طریقے بھی دریافت کرنے ہوں گے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).