سپاٹ فکسنگ کے نئے انکشافات میں کتنی سچائی ہے؟


انٹرنیشل کرکٹ کونسل

آئی سی سی کی اس میڈیا بریفنگ میں زمبابوے کے سابق کپتان گریم کریمیر کا وڈیو بیان بھی دکھایا گیا تھا کہ سٹے بازوں نے ان سے کس طرح رابطہ کیا تھا؟

ایشیا کپ کی کوریج کے لیے دبئی میں گذشتہ ماہ موجود صحافیوں کے لیے آئی سی سی کے ہیڈ کوارٹر میں رکھی گئی میڈیا بریفنگ میں سب سے اہم اور قابل توجہ بات کرپشن سے متعلق وہ معلومات تھیں۔

ان میں آئی سی سی کے اینٹی کرپشن یونٹ کے جنرل منیجر الیکس مارشل نے تصاویر، وڈیوز اور اعداد و شمار کی مدد سے پیش کی تھیں جس سے اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ آئی سی سی اور تمام کرکٹ بورڈز کو اس وقت کرکٹ کرپشن کی شکل میں کتنے سخت چیلنج کا سامنا ہے۔

مثلاً یہ کہ پچھلے ایک سال کے دوران پانچ کپتانوں سے بک میکرز کا رابطہ کرنا جن میں چار ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے کپتان تھے (ان تمام کپتانوں نے اس بارے میں آئی سی سی کو فوراً مطلع کردیا تھا)، چار سابق کرکٹرز کا کرپشن میں ملوث ہونا اور بک میکرز کا ٹی ٹوئنٹی لیگز کو اپنے نشانے پر رکھنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ کرپشن سے متعلق تمام تر کوششوں کے باوجود بک میکرز مافیا اب بھی پوری طرح سرگرم ہے۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

ٹی 10لیگ کے بارے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے شکوک

ٹی 10 لیگ کی شفافیت کے بارے میں آئی سی سی سے رابطہ

سپاٹ فکسنگ: ناصر جمشید پر 10 سال کی پابندی

پاکستانی کرکٹ کے ’کرپٹ‘ کھلاڑی

’شرجیل جانتے تھے کہ وہ کس سے ملنے جا رہے ہیں‘

سپاٹ فکسنگ: ’شرجیل خان پر پانچ سال کی پابندی عائد‘

آئی سی سی کی اس میڈیا بریفنگ میں زمبابوے کے سابق کپتان گریم کریمیر کا وڈیو بیان بھی دکھایا گیا تھا کہ سٹے بازوں نے ان سے کس طرح رابطہ کیا تھا؟

اس بریفنگ کے دوران سب سے زیادہ دلچسپی کا سبب بننے والی ایک شخص کی وہ تصویر تھی جس کا تعارف انڈین میچ فکسر انیل منور کے طور پر کروایا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ اگر اس کے بارے میں کوئی معلومات رکھتا ہے تو وہ آئی سی سی کو مطلع کرے۔

انیل منور کون ہے؟

انیل منور کا نام پہلی بار الجزیرہ ٹی وی کی اس دستاویزی فلم کے ذریعے سامنے آیا جو اس سال مئی میں منظر عام پر آئی تھی جس میں سپاٹ فکسنگ کے بارے میں انکشافات کیے گئے تھے۔

اس دستاویزی فلم میں انیل منور کا تعارف میچ فکسر کے طور پر کرایا گیا جو مبینہ طور پر ڈی کمپنی کے لیے کام کرتا ہے، وہ دنیا کی بڑی سینڈیکیٹ مافیا میں سے ایک ہے اور گذشتہ سات سال سے میچ فکسنگ کے کاروبار میں مصروف ہے۔

انیل منور کے بارے میں بتایا گیا کہ اس کی کمپنی 60 سے 70 فیصد میچ فکس کرتی ہے۔

اس دستاویزی فلم میں انیل منور کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا کہ کچھ کھلاڑیوں سے براہ راست رابطہ کیا جاتا ہے جبکہ کچھ سے تیسرے شخص یا میچ آفیشل کے ذریعے رابطہ کیا جاتا ہے۔

انیل منور نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ٹیسٹ کے علاوہ ٹی ٹوئنٹی میچ بھی فکس کیے جاتے ہیں۔

انیل منور کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسے اینٹی کرپشن کی تحقیقات کی فکر نہیں کیونکہ اس کی کمپنی کے تعلقات ایسے ہیں کہ وہ ان معاملات سے نمٹ لیتی ہے۔

الجزیرہ ٹی وی

الجزیرہ ٹی وی کی کرکٹ میں کرپشن سے متعلق پہلی فلم اس سال مئی میں منظر عام پر آئی تھی جس میں انیل منور کے علاوہ ایک اور انڈین رابن مورس کو بھی مبینہ طور پر بک میکر کے طور پر دکھایا گیا تھا

الجزیرہ ٹی وی کی دستاویزی فلموں میں کیا ہے؟

الجزیرہ ٹی وی کی کرکٹ میں کرپشن سے متعلق پہلی فلم اس سال مئی میں منظر عام پر آئی تھی جس میں انیل منور کے علاوہ ایک اور انڈین رابن مورس کو بھی مبینہ طور پر بک میکر کے طور پر دکھایا گیا تھا جن کے ساتھ پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹر حسن رضا بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

اس دستاویزی فلم میں کرکٹ پچوں میں کی جانے والی گڑبڑ کے بارے میں بھی انکشافات سامنےآئے تھے کہ کس طرح کیوریٹرز کو اپنے مقاصد کے لیے ساتھ ملایا جاتا ہے اور اپنے مطلب کی پچ بناکر اس سے پیسہ بنایا جاتا ہے۔

الجزیرہ کی اس دستاویزی فلم میں یہ انکشاف بھی کیا گیا تھا کہ سنہ 2016 میں انگلینڈ اور انڈیا کے درمیان چنئی ٹیسٹ اور سنہ 2017 میں انڈیا اور آسٹریلیا کے درمیان رانچی ٹیسٹ میں مبینہ طور پر سپاٹ فکسنگ کی گئی تھی۔

اس دستاویزی فلم میں کرکٹ پر گہری نظر رکھنے والی متعدد تحقیقاتی شخصیات کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ بک میکرز نے جو کچھ کہا تھا حقیقت میں ایسا ہی ہوا تھا۔

الجزیرہ نے قانونی نقطۂ نظر سے ان کرکٹرز کے نام ظاہر نہیں کیے جو اس میں مبینہ طور پر ملوث تھے لیکن یہ ضرور کہا تھا کہ مناسب وقت پر متعلقہ اداروں کو تمام شواہد ضرور پش کیے جائیں گے۔

الجزیرہ کی اس فلم کے آنے کے بعد آسٹریلیا اور انگلینڈ کے کرکٹرز نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا تھا تاہم ان کے کرکٹ بورڈ کا یہ کہنا تھا کہ وہ اپنے کرکٹرز کے خلاف کسی ٹھوس ثبوت کی موجودگی سے باخبر نہیں ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی

پاکستانی کرکٹ بورڈ نے اس دستاویزی فلم کے بعد اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ نشریاتی ادارہ اس معاملے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکا ہے

الجزیرہ ٹی وی کی دوسری دستاویزی فلم اتوار کو منظر عام پر آئی ہے جس میں سنہ 2011 اور 2012 کے دوران 15 انٹرنیشنل میچوں میں مبینہ طور پر سپاٹ فکسنگ کا انکشاف کیا گیا ہے۔

ان میچوں میں سنہ 2011 میں کھیلے جانے والے کرکٹ کے عالمی کپ کے چند میچ اور سنہ 2012 کے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے علاوہ سنہ 2012 میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلی گئی تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز اور چند دوسرے میچ بھی شامل ہیں۔

اس فلم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چند انگلش کرکٹرز نے سنہ 2011 سے 2012 کے درمیان سات میچوں میں مبینہ طور پر بے ایمانی کی جبکہ اسی عرصے میں آسٹریلوی کھلاڑی ایسے پانچ جبکہ پاکستانی کرکٹرز تین واقعات میں ملوث رہے۔

کرکٹ بورڈز کا ردعمل کیا ہے؟

پاکستانی کرکٹ بورڈ نے اس دستاویزی فلم کے بعد اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ نشریاتی ادارہ اس معاملے میں کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکا ہے اور ثبوتوں کی عدم موجودگی میں اس کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں۔

بورڈ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماضی میں کرکٹ بورڈ کھیل سے کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پرعزم رہا ہے اور اس نے اینٹی کرپشن کوڈ کی پابندی نہ کرنے والے کئی کھلاڑیوں پر فردِ جرم عائد کر کے پابندی بھی لگائی اور وہ اس سلسلے میں اپنے عزم پر قائم ہے۔

الجزیرہ کی اس دوسری دستاویزی فلم کے بارے میں انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ اور کرکٹ آسٹریلیا کا وہی پرانا موقف سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے اپنے کسی بھی کرکٹر کے سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کے ان تمام الزامات کو مسترد کردیا ہے۔

ای سی بی نے کہا ہے ‘الجزیرہ کی جانب سے فراہم کردہ معلومات ناقص اور مبہم ہیں اور ان کی تصدیق ممکن نہیں۔’

بورڈ کا کہنا ہے کہ معلومات کے جائزے سے کسی بھی انگلش کرکٹر کے رویے پر کوئی شک نہیں ہوا۔

کرکٹ آسٹریلیا نے بھی کہا ہے کہ اسے ان معلومات کے تجزیے سے اپنے کسی موجودہ یا سابق کھلاڑی کی بدعنوانی کا ثبوت نہیں ملا۔

ادھر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے ایک بار پھر الجزیرہ سے اپیل کی ہے کہ اگر اس کے پاس شواہد موجود ہیں تو وہ آئی سی سی کے ساتھ تعاون کرے۔

خیال رہے کہ الجزیرہ ٹی وی نے ابھی تک آئی سی سی اور کسی دوسرے کرکٹ بورڈ کے ساتھ تعاون کرنے سے صاف انکار کر رکھا ہے۔ یوں ان فلموں سے کرکٹ کی دنیا میں سنسنی تو پھیل رہی ہے لیکن کرپشن کی روک تھام میں ٹھوس مدد نہیں مل رہی ہے حالانکہ چینل کے دعوے کے مطابق اس کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp