بے روزگار صحافیوں کے لئے مشورہ


آج ملک بھر کے صحافی بھائی اپنے حصے کا رزق بچانے کیلئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔۔۔۔ یہ رات ہم سب پر بہت بھاری ہے لیکن میں آنے والے کل کی روشن صبح تلاش کرتا ماضی کے دھندلکوں میں کہیں کھو گیا ہوں۔۔۔۔

نویں جماعت کے طالبعلم کا اعتکاف بیٹھنا فی زمانہ کچھ عجیب ہی نہیں معیوب بھی لگتا ہے۔۔۔ لیکن بات آج سے تقریبا چالیس پنتالیس برس پرانی ہے جب مسجد کو محلے کا ایک حصہ گردانا جاتا تھا نہ کہ مقفل عبادت گاہ۔۔۔ کہ آئے۔۔ رکوع و سجود کی مشق سے گزرے اور اگلی نماز تک آہنی دروازوں پر تالے ڈال دیئے۔۔۔ اوائل عمری ہی سے نماز روزے کی پابندی ہو جائے تو معتکف ہونے میں کچھ تکلف نہیں ہوتا۔۔۔ میں زندگی میں پہلی مرتبہ اسی سن میں اعتکاف بیٹھا تھا۔۔

عشرہ مبارک میں پانچ فرض نمازوں کیساتھ تہجد اشراق چاشت اور اوابین کا پڑھنا معمول رہا۔۔ قرآن پاک کی تلاوت اور منبر سے لیکر صحن کی آخری دیوار کے سائے میں بچھی چٹائی کے ہر دو قدم پر نفل نماز کی ادائیگی بھی روزمرہ میں شامل رہی۔۔۔ سن رکھا تھا کہ زمین کا ہر وہ چپہ قیامت میں رب ذوالجلال کی بندگی کا گواہ بن جائے گا جہاں پیشانی سجدہ ریز ہو گی۔ ماتھے پر محراب بنانے کیلئے کھجور کی چھال سے بنی سخت چٹائی پر خوب رگڑ رگڑ کر سجدے کئے لیکن نشان نہیں ابھرا۔ اب جبکہ بندگی کے بجائے شرمندگی کا سجدہ کرتا ہوں تو مخملیں جائے نماز ماتھے پر ٹیکہ سجا دیتی ہے۔۔۔ روزے کیساتھ ساتھ گرمی کی دوپہر میں اینٹوں سے بنا مسجد کا فرش دھونا۔۔۔ اذان سے پہلے لاوڈ اسپیکر کے مائیک پر قبضہ جما لینا۔۔۔ تکبیر اولی کیلئے عین امام صاحب کے پیچھے صف میں کھڑا ہونا بھی فرض سمجھ کر پورا کیا

عید کا چاند نظر آیا تو والد صاحب مرحوم کی خوشی دیدنی تھی۔۔۔ گلاب اور موتئیے کے ہار لئے مسجد پہنچے۔۔۔ گلے لگایا۔۔ ماتھا چوما اور خوبصورت ریشمی رومال تحفے میں دیا۔۔۔ رومال پر چند عربی بھائی اونٹوں کی رسی تھامے ڈوبتے سورج کی گواہی لیتے روضہ رسول کی جانب بڑھتے دکھائی دیتے تھے۔۔۔ میں نے چہرہ ڈھانپنے کیلئے مکمل خشوع خضوع کے ساتھ رومال سر پر کچھ اس طرح باندھا کہ بازار سے گزرتے کسی کی نظر نہ پڑے۔۔۔ مسجد سے گھر پہنچا تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ٹی وی آف کر دیا۔۔۔۔ مومنوں کے گھر شیطان کا کیا کام۔۔۔۔ بہن بھائیوں نے حیرانی سے دیکھا لیکن والد صاحب مرحوم کی موجودگی میں چپ رہے۔۔۔

بزرگ ہستیوں کی نسبت ایمان کی حرارت کو جلا بخشتی ہے۔۔۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوری کے خانوادے سے تعلق کی اثر پذیری تھی کہ گھر میں مذہبی ماحول غالب رہا۔۔ کلمہ اور قرآن کا اک اک حرف جیسے سانس کی لڑی کا جزو لاینفک بن گیا۔۔۔ شعور کی پہلی منزل پر نظر دوڑاوں تو یہی کوئی تین چار برس کی عمر ہو گی جب ایک روز بادل جم کر برسے۔۔۔ والد صاحب گھر سے باہر تھے۔۔۔ میرے ننھے دل کو دھڑکا لگا کہ ابا جی واپس کیسے آئیں گے۔۔۔ اللہ کے نام والا نورانی قاعدہ ہاتھ میں لئے برآمدے میں آن کھڑا ہوا۔۔۔ آسمان کی طرف منہ کر کے کلمہ پڑھا اور پکارا۔۔ اللہ میاں جی بارش تھم جائے۔۔۔ اور پھر۔۔۔ آسمان سے برستا پانی دور فضا میں ہی کہیں تحلیل ہو گیا۔۔۔ کمسنی میں کہے کلمہ کی طاقت دل کو تقویت بخشتی ہے۔۔۔

ددھیال اور ننھیال کے ہم عمر لڑکوں میں ‘ میں مولوی سمجھا جاتا۔۔۔ اسکول کے زمانے میں ناشتہ چھوٹ جائے تو خیر لیکن ہر صبح نماز فجر کے بعد سورہ یسین سورہ رحمن سورہ نوح سورہ مزمل اور سورہ التغابن کی قرات ضروری تھی۔۔ آیتہ الکرسی میرا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔۔۔ کوئی ناغہ نہ ہونے کے باعث سبق حفظ ہو گیا۔۔۔ سانس کی رفتار کیساتھ ساتھ زبان کا ورد جاری رہتا۔۔۔ چہرے پر روآں نکلا تو داڑھی رکھنے کی نیت باندھ لی۔۔۔ ایک پھوپھی زاد شرارتی تھا۔۔ مذاق اڑانے لگا۔۔۔وہ چھیڑتا میں چڑ جاتا۔۔۔ ایک دن اس نے کہا وہ رات میں داڑھی کو کٹ لگا دے گا۔۔۔میں نے مذاق سمجھا مگر وہ سنجیدہ تھا۔۔ میں گھوڑے گدھے بیچ کر سویا تھا۔۔ وہ آیا اور وار کر گیا۔۔۔ Paradise Lost ….صبح آئینہ دیکھا تو ہچکی بندھ گئی۔۔۔ آنسو تھے کہ رکنے میں ہی نہیں آ رہے تھے۔

انسانی فطرت ہے کہ سوال کا مدلل جواب نہ ملے تو وسوسے پیدا ہوتے ہیں۔۔ کالج کے دنوں میں گھر کی چاردیواری سے باہر نکلے۔۔۔ کوچہ و بازار کی رونق دیکھنے کو ملی۔۔۔ ایک طرف عطر و عنبر میں دھلی مہ جبینوں کو دیکھا۔۔۔ دوسری طرف سڑکوں پر بھوک افلاس میں گندھی۔۔ بدبودار زندہ لاشیں دیکھیں۔۔۔ طرفہ یہ کہ کارل مارکس اور لینن کو پڑھا۔۔ میکسم گورکی کی شعرا آفاق تصنیف ماں کی ورق گردانی کی۔۔۔ چی گویرا اور راجہ انور کی داستانیں کھنگالیں۔۔۔سبط حسن کی بزم میں جوتیاں سیدھی کیں۔۔۔مولانا مودودی اور مولانا غلام احمد پرویز کے تقابلی جائزے میں راتیں کاٹیں۔۔۔ سرخوں کے اسٹڈی سرکلز کا حصہ بنے۔۔دائیں بازو کی سرگرمیوں کے مقلد ہوئے۔۔۔ علامہ جاوید الغامدی اور پروفیسر رفیق احمد اختر کے لیکچر سنے۔۔۔ سبط الحسن ضیغم کیساتھ فرش نشین ہوئے۔۔۔ مشتاق صوفی کے گھٹنے چھوئے۔۔ پاک ٹی ہاوس اور شیزان میں بیٹھے۔لیکن۔۔۔ سوال بدستور تشنہ رہے۔۔

جنرل ضیا کے مارشل لا نے فہم اور ادراک کی رہی سہی کسر نکال دی۔۔۔۔ سقوط ڈھاکہ نے ملک دو لخت کیا تھا لیکن جنرل ضیا کے مارشل لائی دور نے قوم کو نظریاتی حوالے سے دو واضح حصوں میں تقسیم کر دیا۔۔۔۔ علم و ادب کی محفلوں میں تحمل رواداری بردباری اور دلیل۔۔۔۔ سب ختم ہو گیا۔۔۔ گالی گلوچ اور سر پٹھول نے محفلیں اجاڑ دیں۔۔۔ اسٹوڈنٹس یونینز پر پابندی نے تفریح کے بہانے سرخوں کو باغ جناح اور جمعیت کو مقبرہ جہانگیر جا کر نوجوانوں کی ذہنی پرواخت کا سلسلہ جاری رکھنے پر مجبور کر دیا۔۔ اسی زمانے میں پٹھانے خان مرحوم کو ہارمونیم پر سنا۔۔۔ حق مغفرت کرے۔۔ سورہ یسین اور سورہ رحمن کی ویسی قرات پھر نصیب نہیں ہوئی۔۔۔ ذہنی پراگندگی ختم کرنے اور سنگین کی نوک پر لٹکتی معاشرتی زندگی پر اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کیلئے اردو پنجابی میں شاعری کی نظم غزل رباعی مسدس گیت کافی۔۔ سب کچھ لکھ مارا۔ یہاں تک کہ صحافی بن گیا۔۔۔۔لیکن سوال بدستور تشنہ رہے۔ اقبال نے کہا تھا۔۔۔

مدت سے ہے آوارہ افلاک میرا فکر

کر دے اسے اب چاند کے غاروں میں نظر بند

میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔۔۔ بس ہوا تو یہ کہ میں جہالت کی پستیوں میں گرتا چلا گیا۔۔۔ دین سے دور ہو کر دنیا سے بغلگیر ہو گیا۔۔۔ مخلوق خالق کو بھلا دے تو خالق بھی منہ پھیر لیتا ہے۔۔۔ ایسا ہی ہوا۔۔۔ تمام شرعی عیب مجھ میں آ سمائے۔۔ رذالت کی اس دنیا میں نجانے کتنے مہ و سال گزر گئے۔۔ تحفہ قرآنی ذہن سے یکسر محو ہو گیا۔۔ دنیا فتح کرنے کے تکبر نے اس طرح اپنے جال میں جکڑ لیا کہ تخلیق کار کی کبریائی تک بھول گیا۔۔۔ اور پھر وہی ہوا۔۔ جس کے ہونے کی قسم کھائی گئی ہے۔ زمانے کے تھپیڑوں نے فٹ بال کی طرح رگیدا۔۔ ہر نئی ٹھوکر ایک نئی پستی میں دھکیل دیتی۔۔۔ لیکن میں پھر بھی بچ گیا۔۔۔ اسم اعظم۔۔ بسم اللہ نے مجھے بچا لیا۔۔۔۔ تعلق ایسا پختہ رہا کہ ہر کام سے پہلے یہ کلمہ زبان پر ضرور آیا۔۔۔ قدرت ایک بار پھر مجھ پر مہربان ہو گئی۔۔۔۔

1992میں مرحوم اکبر علی بھٹی نے اسلام آباد سے روزنامہ پاکستان کا اجرا کیا تو میرے حصے کا رزق وہاں لے گیا۔۔۔ سکائی ویز کوچ سروس کا آغاز ہوا جو صبح چھ بجے نوابزادہ نصراللہ مرحوم کی رہائشگاہ بوڑھ والا چوک سے چلتی اور دس بجے فیض آباد پہنچا دیتی۔۔ ہم جیسے پردیسیوں کی عید ہو گئی۔۔ ایک صبح کوچ میں سوار ہوا تو برابر کی فولڈنگ سیٹ پر ایک بزرگ مسافر بیٹھ گئے۔۔ راستے میں اونگھ آتی تو انہیں جھٹکا لگتا۔۔ میں نے احتراما اپنی سیٹ انہیں پیش کی اور خود فولڈنگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ ان کے ہاتھ میں مجموعہ وظائف تھا۔اسے دیکھ کر نجانے کیسے خیال آ گیا

کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

ندامت اور شرمندگی کا احساس جاگا تو ملتجی نگاہوں سے بزرگ مسافر سے التماس کیا۔۔۔ آپ برا نہ مانیں تو یہ کتاب مجھے پکڑا دیجئے۔۔۔ فرشتہ صفت تھے۔۔ ہلکی سی مسکراہٹ کیساتھ مجموعہ وظائف تھما دیا۔۔ خدائے لم یزل قسمت پھیرنے پر آئے تو وقت ٹھہر جاتا ہے۔۔۔ میری کایا کلپ ہو گئی۔۔۔ بسم اللہ پڑھی اور اللہ میاں سے رجوع کر لیا۔۔۔ سفر کیسے کٹ گیا۔۔ یاد نہیں۔۔۔ یاد ہے تو بس اتنا کہ فیض آباد پہنچا تو دل اور دماغ کے تمام دریچے کھل چکے تھے۔۔ سورہ یسین سورہ رحمن سورہ نوح سورہ مزمل اور سورہ التغابن کا فیض پھر سے جاری تھا۔۔۔۔

آج جبکہ صحافیوں کے سر پر لٹکتی تلوار سے کئی تہ تیغ ہو چکے۔۔۔ جو بچ رہے وہ آنے والے دنوں میں بے روزگاری کا شکار ہو جائیں گے۔۔۔۔ بیمار اور بوڑھے والدین کی دوا دارو کا سلسلہ رک جائے گا۔۔۔ بچے تعلیم سے محروم کر دیئے جائیں گے۔۔۔ ہر دفتر میں کرب و بلا۔۔۔ ہر گھر میں شام غریباں بپا ہو گی۔۔۔ تجوریاں اگرچہ پہلے ہی کی طرح بھرتی رہیں گی لیکن کارکن صحافیوں کی تسبیح کے دانے بکھر جائیں گے۔۔۔ کچھ خودکشی کریں گے کچھ انا کا سرطان لئے مر جائیں گے۔۔ الاماں۔۔ الحفیظ۔۔۔ زمانے کے خدا گونگے بہرے اندھے ہیں۔۔۔۔ اس لئے گریہ زاری سینہ کوبی اور ماتم نہیں کرنا۔۔۔ اپنے رب سے رجوع کرنا ہے۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).