بائیکاٹ کے ماحول میں سعودی عرب میں کانفرنس کا آغاز


Saudi Deputy Crown Prince Mohammed bin Salman waves as he meets with Philippine President Rodrigo Duterte in Riyadh, Saudi Arabia, April 11, 201

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اس کانفرنس کا افتتاح کیا۔

کئی ممالک کی حکومتوں اور سرمایہ کاروں کے بائیکاٹ کے اعلان کے باوجود سعودی عرب میں دوسری “فیوچر انویسٹمینٹ انیشی ایٹو” نامی کانفرنس کا آغاز ہو گیا ہے۔

اپنے اصل پروگرام کے مطابق اس کانفرنس میں 140 بین الاقوامی کارپوریشنز کی 150 نامور شخصیات نے کانفرنس میں تقریریں کرنا تھیں۔ لیکن اب تک 40 شخصیات سعودی صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت کےبعد پیدا ہونے والے حالات کے بعد اس کانفرنس میں شرکت کرنے پہنچ سکی ہیں۔ سعودی عرب کی حکومت پر صحافی کو ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔

جمال خاشقجی استنبول میں سعودی قونصل خانے میں دو اکتوبر اپنے کچھ کاغذات لینے گئے تھے جس کے بعد وہ لا پتہ ہوگئے تھے۔ پہلے سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ قونصل خانے سے واپس چلے گئے تھے لیکن دو ہفتے بعد بین الاقوامی دباؤ کے بعد سعودی حکومت نے تسلیم کیا کہ وہ قونصل خانے میں ایک ایک جھگڑے کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔

ترکی نے الزام لگایا تھا کہ صحافی کو سعودی انٹیلیجنس کے ایجنٹوں نے ہلاک کیا تھا۔ لیکن گزشتہ روز سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ انٹیلیجینس کے ایک ’روگ آپریشن‘ میں ہلاک ہوئے ہیں۔

بڑی سطح پر بائیکاٹ کے باوجود مغربی ممالک کے کئی اہم ادارے اس کانفرنس میں شریک ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کے تیل کی برآمد کرنے والے سرکاری ادارے آرامکو نے کہا ہے کہ اس نے چونتیس ارب ڈالرز کی مالیت کے مختلف مفاہمت کی یاداشت (ایم او یو) کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ ٹریفی گورا نامی عالمی شہرت یافتہ تجارت اور سرمایہ کاری کی کارپوریشن نے سعودی عرب میں دھاتوں کی کان کنی کے ایک منصوبہ شروع کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں جبکہ فرانسیسی کمپنی ٹوٹال نے سعودی عرب میں ریٹیل نیٹ ورک بنانے کا معاہدہ کیا ہے۔

سعودی دارالحکومت ریاض میں موجود بی بی سی کے مشرق وسطیٰ کے نامہ نگار، سیبیسٹیئن اشر نے کہا ہے کہ اگرچہ عالمی سرمایہ کاری کی نامور شخصیات اس کانفرنس میں نظر نہیں آرہی ہیں لیکن اس کانفرنس میں سینکڑوں افراد شریک ہوئے ہیں جن میں کچھ ایسے بھی ہیں جو بائیکاٹ کرنے والی نامور شخصیات یا ان کے اداروں کے مفادات کےلیے کام کرتے ہیں۔ نامور شخصیات کیلئے جمال خاشقجی کی ہلاکت کے بعد کے ماحول میں شرکت کرنا مناسب نہیں سمجھا جا رہا تھا۔

بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق، اس کانفرنس میں شریک مندوبین ایک عملیت پسندی کی بات کررہے ہیں یعنی یہ کہ سعودی عرب میں کاروبار کا ایک بڑا مستقبل ہےاور یہ اگرچہ واقعہ ایک بڑی رکاوٹ ہے لیکن بالآخر اس پر قابو پالیا جائے گا۔

یہ کانفرنس کیا ہے؟

سعودی عرب میں سرمایہ کاری کیلئے سرکاری سرپرستی کا فنڈ بنانے کیلئے “فیوچر انویسٹمینٹ انیشی ایٹو” کانفرنس تئیس اکتوبر سے پچیس اکتوبر تک تین دنوں کیلئے جاری رہے گی۔

یہ کانفرنس ایک فورم ہے جس میں بزنس مین، سیاستدان، سول سوسائٹی کے گروپس ٹیکنالوجی، عالمی معاملات اور ماحولیات کے موضوعات سمیت اقتصادی ترقی امور پر تقریریں کر رہے ہیں۔

پچھلے برس پہلی فیوچر انویسٹمینٹ انیشی ایٹو کانفرنس میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس، کرپٹوکرنسیز اور موسمیاتی تبدیلیوں کے موضوعات پر بھی بات چیت ہوئی تھی۔

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بھی ایک نئے شہر اور اس کے بزنس زون میں پانچ سو ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا۔

اس کانفرنس کے انعقاد کا مقصد بیرونی سرمایہ کاروں کو سعودی عرب میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینا ہے اور یہ بین الاقوامی کارپوریشنز کیلئے انتہائی منافع بخش کاروبار کرنے کیلئے سعودی بادشاہت میں ایک بڑا موقع سمجھا جاتا ہے۔

یہ کانفرنس سعودی عرب کے “ویژن 2020” کا ایک حصہ ہے۔ اس ویژن کا مقصد سعودی عرب کی معیشت میں تنوّع پیدا کرکے تیل کی آمدن پر مکمل انحصار کو کم کرنا ہے۔

اب تک سعودی عرب تیل کی برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے لیکن چند برسوں سے یہاں سرمایہ کاری میں کافی کمی آئی ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق، پچھلے برس سعودی عرب میں سرمایہ کاری ڈیڑھ ارب ڈالرز تک ہوئی، جبکہ سن 2012 میں یہ بارہ ارب ڈالرز تھی۔

Conference stage

فیوچر انویسٹمینٹ انیشی ایٹو 2018

کون کانفرنس میں نہیں آئے؟

اس کانفرنس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ 150 مقررین اور مندوبین نے شریک ہونا تھا۔ لیکن چالیس نے کہا کہ وہ اس میں شریک نہیں ہوں گے۔ شریک نہ ہونے والوں میں جے پی مورگن، سیمینز اور بلیک روک جیسے عالمی شہرت یافتہ کارپوریشنز کے علاوہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ بھی شامل ہیں۔ ان میں اکثر نے پچھلے برس اس کانفرنس میں شرکت کی تھی۔

ورجن کمپنی کے سربراہ سر رچرڈ بینسن نے سعودی عرب میں ایک ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے منصوبے پر بات چیت معطل کردی ہے۔

میڈیا آرگنائئزیشنز بلومبرگ، سی این این اور فاننانشل ٹائمز نے اس کانفرنس سے دستبرداری کا اعلان کیا ہے۔

کون شریک ہورہے ہیں؟

کانفرنس کی ویب سائیٹ سے تصدیق شدہ شرکا کے ناموں کی فہرست ہٹا دی گئی ہے۔

سرمایہ کاری کی مشاورت کاری کی فرم میکاینزی، پی ڈبلیو سی، ارنسٹ اینڈ ینگ، ڈیلائیٹ، بی سی جی، آلیور وائی مین اور بین اینڈ کمپنی کے نام اس کانفرسن کے سپانسرز میں دکھائے گئے ہیں۔ ایس ڈبلیوایف آئی نامی مالیاتی اور سرمایہ کاری کا تحقیقی ادارہ بھی شریک ہو رہا ہے۔

ان اداروں سے جب یہ سوال کیا گیا کہ آیا وہ کانفرنس سے دستبردار ہوں گے تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

جن شرکا نے شرکت کی تصدیق کی تھی ان کی اکثریت شریک ہو رہی ہے جن میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان، پیپسی انٹرنیشنل کے نائب چیئرمین محمود خان، ارنسٹ اینڈ ینگ کےجارج عطا کے نام شامل ہیں۔

بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ اگرچہ کئی نامور شخصیات جنھوں نے اس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ہے ان کے کاروباری مفادات کی نمائیندگی کرنے والے اس میں شریک ہورہے ہیں۔

حکومتوں نے کیا کہا ہے؟

فرانس، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ہالینڈ کے وزرا سمیت کئی اہم اداروں نے اس کانفرنس میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ برطانیہ کہ وزیر تجارت لیئم فوکس بھی اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔

امریکہ کے وزیر خزانہ سٹیون منوچِن نے کہا ہے کہ وہ کانفرسن میں تو شریک نہیں ہوں گے لیکن اس دوران وہ دہشتگردی کی مالی مدد کو روکنے کیلئے ملاقات کرنے کیلئے ریاض میں موجود ہوں گے۔

برطانیہ کے سعودی عرب میں سفیر، سائمن پال کولیس اور برطانیہ کے ٹریڈ کمشنر برائے مشرق وسطیٰ، افغانستان اور پاکستان اس کانفرنس میں شریک ہورہے ہیں۔

اس دوران جرمنی کی چانسلر اینگلا مرکل نے کہا ہے جب تک جمال خاشقجی کے قتل کی انویسٹیگیشن جاری ہے جرمنی دفاعی سامان کی برآمد معطل کررہا ہے۔

جرمنی کے وزیر اقتصادیات پیٹر الٹمائیر نے یورپی اقوام سے کہا ہے کہ وہ جرمنی کے موقف کا ساتھ دیں۔ گزشتہ ماہ جرمنی نے ساڑھے چھتیس کروڑ ڈالرز کی مالیت کا اسلحہ سعودی عرب کو فروخت کرنے کا معدہدہ کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp