پاورٹی پورن (Poverty Porn) ذرایع ابلاغ کاایک بھیانک جرم


اس وقت انسٹاگرام پر یونیسیف کی ایک پوسٹ میرے سامنے غربت کو برہنہ کیے پڑی ہے۔ نائیجیریا کے ایک خستہ حال لیبر روم میں دو مڈ وائفس کے درمیان غروب ہوتے افریقی سورج میں اپنے جسم سے نئی جان طلوع کرتی ایک نحیف عورت کی تصویر کو بے شک کوئی زندہ المیے کا بیان ہی کیوں نہ کہے لیکن میں اس کو فقط پوورٹی پورن کا نام دوں گی۔ اس تصویر کو کیمرے کی آنکھ میں مقید کر کے نشر کرنے کی اخلاقیات اور اس پر آنے والے تقریباً سات سو کمنٹس چیخ چیخ کر اس حقیقت کی قلعی کھول رہے ہیں کہ یہ جدید دور احساسات اور اخلاقی اقدار کو کمرشیل ازم کے نام پر گروی رکھوا چکا ہے۔ تصاویر کے ذریعے غربت کی تشہیر کرنے کا مقصد بظاہر تو صرف یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے کرتا دھرتا ان فلاحی اداروں کی کاوشوں سے متاثر ہوکر اپنی تجوریوں کا منہہ ان کی طرف کھول دیں لیکن زندگی کی روتی بلکتی حقیقتوں کو ایک بے جان تصویر کی شکل میں لانے کے اس پورے عمل میں غریبوں کی ہونے والی تضحیک و تذلیل اور ان کی کچلی جانے والی عزتِ نفس ذرایع ابلاغ کا ایک بڑا اور ناقابلِ معافی جرم ہے۔

یونیسیف کی طرف سے جاری ہونے والی اس تصویر کے نیچے درج ہے،”نائیجیریا میں بوکوحرام کے تنازعے کے باعث بے گھر ہونے والی عورتیں ماہر نرسوں اور مڈ وائفس کے نہ ہونے کے باعث اموات کا شکار ہورہی ہیں۔” یقیناً ایسا ہی ہے بلکہ صورت حال تو اس سے بھی زیادہ خراب ہے لیکن ایک المیے کو اجاگر کرنے کے لیے غیراخلاقی حربوں اور نازیبا تصاویر کا استعمال کہاں کی انسانیت ہے؟ یونیسیف کی پوسٹ کو کئی بار پڑھنے کے باجود اس تصویر کی اشاعت کی وجہ میری سمجھ میں نہ آسکی۔ ایک عورت کا تصویری تماشا بنائے بغیر بھی یہ حقائق بیان کیے جاسکتے تھے۔

پوورٹی پورن جدید دنیا کا ایک بھیانک سچ ہے، جس پر ہماری بے خبری کا عالم یہ کہ دنیا جہاں کی معلومات رکھنے کے زعم میں مبتلا لوگ یہ جان بھی نہیں پاتے کہ خبروں کی ترسیل کرتے کرتے کب ان اداروں نے غربت اور غریبوں کے نام پر کھلواڑ کر کے بے شمار ان دیکھے مقاصد اپنی مٹھی میں قید بھی کرلیے ۔ یوں ہم ساری خبروں سے آگاہ ہو کر بھی ایک بڑی سازش سے لاعلم رہ جاتے ہیں۔ دنیا کی تمام بڑی بڑی خبری ایجنسیاں غربت اور افلاس کے ستائے ہوئے بھوکے ننگے لوگوں کو اس لیے تلاش کرتی ہیں کہ ان کے خستہ حال اور لاغر چہروں سے میگزین کور سجائے جاسکیں۔ انسانی ہم دردی کا ڈھول گلے میں لٹکا کر سال کی بہترین تصویر کا انعام حاصل کیا جائے اور مہنگے داموں یہ تصاویر فروخت کر کے اخلاقیات سے خالی دامن کے اوپر سجی جیب کو خوب بھرا جائے۔ غربت کے اس شرمناک طریقۂ اظہار کا کوئی ایک فائدہ آج تک اس غریب دنیا کو نہ ہوسکا۔ اگر یہ تصاویر واقعی بدحالی کے سدباب کا ذریعہ ہوتیں تو وہی ایک تصویر کافی تھی جس میں بھوکا گدھ کئی دنوں کے فاقہ زہ بچے کے سامنے بیٹھا اس کے مرجانے کا انتظار کر رہا ہے۔ لیکن گدھ سے زیادہ حیرت تو اس فوٹو گرافر پر ہوئی جو گدھ سے زیادہ بے چینی سے بچے کی موت کا انتظار کر رہا تھا تاکہ ایک متاثر کن، چٹپٹی اور سنسی خیز تصویری کہانی دنیا تک پہنچائی جاسکے، جس میں وہ کامیاب بھی ہوا۔

ذرا دیر کو اپنی آنکھیں بند کیجیے اور انتہائی غربت کا تصور ذہنوں میں جگائیے۔ ان بھربھری ہڈیوں والے نحیف چہروں کی ذمہ دار بے شک یہی غربت ہے لیکن کیا یہ اپنی غربت کے خود ذمہ دار ہیں؟ ان تصاویر کے ذریعے شہرت اور پیسہ کمانے والے فوٹو گرافرز کو کبھی یہ سچائی اگلنے کی زحمت بھی ہوئی کہ غریب ممالک آج تک بدحالی کے چنگل سے آخر کیوں نہ نکل سکے؟ وسائل سے مالا مال خطوں پر شب خون مارنے کے لیے، ہم دردی کا چولا پہن کر لٹیرے کہاں کہاں سے وارد ہوئے ؟ پیلی آنکھوں میں بجھے ہوئے سپنوں اور پچکے گالوں کے فاقوں کا ذمہ دار بھلا کون سا نظام ہے؟ کون سی طاقتیں ہیں جن کے ایما پر یہ خطے صدیوں سے جاری رہنے والے پے درپے تنازعات کی زد سے نکل نہ سکے۔ کون ہے اس خوب صورت دنیا میں بھوک نامی جہنم دہکانے کا ذمہ دار؟ غربت کے نام پر غریبوں کا بدترین استیصال کرنے کے لیے کیا یہ سرمایہ دارانہ نظام کم تھا کہ اب اس کی گود میں پلنے والا میڈیا بھی اپنی دکان چمکانے کی ہوس میں قیمتی کیمروں سے خود کو آراستہ وپیراستہ کیے غربت کی وہ بدترین تشہیر کرنے میں مگن ہے جس سے اخلاقیات کا دامن کب کا ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے۔

چند ماہ قبل اٹلی کے ایک فوٹوگرافر نے ”ہَنگر اِن انڈیا” کے عنوان سے ایک تصویری سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس نے انڈیا کی دو ریاستوں اترپردیش اور مدھیاپردیش میں بسنے والے مفلوک الحال اور ننگ دھڑنگ بھارتیوں کے سامنے میز پر مختلف اقسام کے نقلی کھانے سجا دیے اور ان سے کہا کہ وہ ان کھانوں کے قریب کھڑے ہو کر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیں۔ جب یہ تصاویر ورلڈ پریس فاؤنڈیشن کی طرف سے انسٹاگرام پر جاری ہوئیں تو حساس دلوں کو دہلا گئیں۔ صدائے احتجاج بلند ہوئی، شور مچا تو ان تصاویر کی وضاحت موصوف فوٹوگرافر نے یوں دی کہ یہ باشندے یقیناً خواب دیکھتے ہوں گے کہ ان کی ٹیبل اس طرح کے کھانوں سے بھری ہو اور یہ کہ ان کا مقصد دنیا کو ان کی غربت کا اصل چہرہ دکھانے کے سوا کچھ نہ تھا۔ بہرحال اس بودے جواز کو جب تسلیم نہ کیا گیا تو مذکورہ فوٹوگرافر کو انسانیت اور غربت کا بدترین تصویری مذاق اڑانے پر معذرت کرنا پڑی۔ اس واقعے نے پوورٹی پورن پر بحث اور بڑھا دی۔ غربت کے نام پر انسانیت کے بدترین استیصال اور غربت کی تشہیر کے نام پر غریبوں کی انتہائی نجی زندگی کو تماشا بنانے کی اجازت کسی مہذب معاشرے میں نہیں دی جاسکتی۔

یہ تصاویر پورنوگرافی جیسے جرم کے زمرے میں شمار کی جاتی ہیں۔ جیسے فلموں، اشتہارات اور پورن کا مقصد صرف اور صرف پیسہ کمانا ہے، وہیں میڈیا میں غریبوں کی ایسی نمائندگی جس میں ان کی نجی زندگی کی کوئی اہمیت باقی نہ رہے پوورٹی پورن ہے۔ یہ تصاویر کسی معاشرتی اہمیت کی حامل اس لیے نہیں ہوتیں کہ ان میں سکے کا ایک رخ دکھایا جاتا ہے کہ یہ لوگ فلاں فلاں بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ لیکن وہ کون سا نظام ہے جس کی بھینٹ یہ چڑھ گئے؟ اس کی پوورٹی پورن میں کوئی اہمیت نہیں۔ پوورٹی پورن کی تعریف پر پوری اترتی تصاویر سے فلاحی اداروں کا ڈونر تو متوجہ ہوجاتا ہے لیکن سماجی اور معاشی ڈھانچا جمود کا شکار رہتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ صحافت ایک ذمہ داری، ایک عہد اور جذبے کا نام ہے۔ حقائق سے پہلو تہی اگر اس پیشے کے ساتھ بددیانتی ہے، وہیں حقیقت پیش کرنے کے نام پر سفاکی کی انتہا پر پہنچ جانا بھی صحافتی اقدار کے صریح منافی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).