خواجہ سراؤں پر جاری ظلم کی ایک داستان


میں اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی کہ میری گاڑی راستے میں آئے ایک اسٹاپ پر رُکی۔ آنکھوں نے کچھ عجیب و غریب منظر دیکھا۔ اور وہ منظر کچھ یوں تھا کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو کچھ لوگوں سے بدتمیزی کرتے دیکھا۔ بدتمیزی اپنی جگہ شدت اختیار کر چکی تھی بچے تالیاں بجھا کر کھبی مذاق اُڑا رہے تو کبھی پتھر مارنے میں لگے تھے۔ وہ کچھ لوگ جو ان سب چیزوں کا سامنا کر رہے تھے وہ کوئی اور نہیں بلکہ اسی معاشرے کا حصہ تھے جنہیں لوگ خواجہ سرا کے نام سے جانتے ہیں اور اُس وقت مجھے یہ احساس ہوا کہ آخر کوئی کیسے اپنی اولاد کو اس طرح تنہا چھوڑ سکتا ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اُس سے سیدھے منہ بات نہ کرے۔

سب سے پہلے اپنے گھر کی دہلیز سے شروعات کرتے ہیں کہ اگر کسی خاندان میں کسی خؤاجہ سرا کی پیدائش ہو جاتی ہے تو ہم اُس کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرتے ہیں۔ ماں، باپ ہوں یا بہن بھائی یا محلے میں رہنے والے لوگ سب کے لیے وہ ایک مذاق بن جاتا ہے۔ جب کہ اولاد تو اولاد ہوتی ہے چاہے وہ خواجہ سرا ہو یا نارمل بچہ یا پھر ایک ایبنارمل۔ قبول کریں یا نہ کریں وہ ایک الگ بات ہے لیکن اگر کسی خاندان میں معذور بچہ پیدا ہو جائے تو ہم اسے قبول کر لیتے ہیں جنہیں دیکھ کر والدین کو تکلیف کے سوا کچھ نہیں ملتا جو ہر طرح سے دوسروں کے محتاج ہوتے ہیں ہم اس حالت میں بھی انہیں قبول کرتے ہیں کیونکہ وہ ہماری اولاد ہوتی ہے ہمیں ہر حال میں پیاری ہوتی ہے۔ لیکن خواجہ سر ا کو ہم کیوں نہیں قبول کرتے جبکہ اگر ہم اُس کی پرورش کریں اچھے سے، اُس کو ہر موقع پر پروموٹ کریں تو شاید کل کو وہ آپ کا ہی نام روشن کرنے کا سبب بن جائے، لیکن ہم کیوں نہیں ایسا کرتے؟ ہم کیوں اُس کے پیدا ہوتے ہی اُسے خواجہ سراؤں کی بستی میں چھوڑ آتے ہیں؟

جبکہ پیدا کرنے والی تو وہ ایک ہی پاک ذات ہے نہ۔ تو پھر ہم کیوں اُن کے ساتھ ہی ایسا سلوک کرتے ہیں۔ والدین قبول کر کے تو دیکھیں معاشرہ خود بخود قبول کرے گا۔ ان کی اچھے طریقے سے تربیت کرنا والدین کی ذمہ داری ہے نہ کہ معاشرے کی۔ معاشرہ صرف ٹھوکروں پر رکھتا ہے تو پھر ہم کیسے یہ توقع کر لیں کہ معاشرہ ان کی قدر کرے یا انہیں حقوق دلانے کی بات کرے۔ خواجہ سرا کوئی خلائی مخلوق نہیں بلکہ اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں۔ آئے روز اخبارات اور ٹی وی میں یہ خبر آرہی ہوتی ہے کہ فلاں خواجہ سرا کو کسی نے اغوا کر لیا یا پھر قتل کر دیا۔ خبر دینا تو بہت آسان ہے لیکن کھبی ہم نے ان کے بارے میں سوچا۔ کبھی ہم نے ان کے لیے آواز اُٹھائی؟ بیچارے خواجہ سرا ہی ایک دوسرے کے لیے آواز اُٹھاتے ہیں۔ وہ بھی انصاف کے لیے کبھی ایک جگہ دھکے کھاتے پھرتے ہیں تو کبھی دوسری طرف۔ بہرحال چھوڑیں یہ ہم ہی ہیں جنہوں نے اپنے جگر کے ٹکروں کو کھلونا بنا کر معاشرے کو دیا ہے۔ اب آپ اُمید کر سکتے ہیں کیا جن کو آپ کھلونا سمجھ کر دیتے ہیں معاشرہ اُس کھلونے کی قدر کرے گا یا اُس سے کھیلے گا۔

کیا ہی چلا جائے گا کہ اگر ہم ان اولادوں کو بھی قبول کر لیں جن کو پال پوس کر بڑا کریں اچھی تربیت کریں دنیا کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دیں ،ایسی اولادوں کی وجہ سے ہی دنیا میں بھی سکون ہوگا اور آخرت میں بھی۔ یقینا بوجھ اُٹھانے کا حقدار وہی ہوتا ہے جس کا بوجھ ہو۔ وہ بھی انسان ہوتے ہیں،انہیں بھی تکلیف ہوتی ہے، درد ہوتا ہے، اور غم کے بادل بھی کبھی کبھار برستے ہیں، وہ تنہائی میں بیٹھ کر یہ بھی سوچتے ہیں کہ دوسروں کی طرح ہمارے والدین کیوں نہیں ہیں۔ ہمیں کیوں اس طرح دنیا میں جہنم بننے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے جبکہ اس میں ہمارا کیا قصور ہے،کیونکہ اُن کے اپنے اختیار میں قطعا نہیں ہے کہ وہ پیدا ہو یا نہ ہو۔ قدرت کے ان فیصلوں کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے بلکہ ہمارا فرض ہے ایسے بچوں جنہیں معاشرہ خواجہ سرا کے نام سے جانتا ہے کسی فیملی میں اگر ان کی پیدائش ہو جاتی ہے تو انہیں بھی ایک نارمل بچے کی طرح قبول کیا جائے۔ شاید ہمارے اسی اقدام کی وجہ سے معاشرے میں بھی تبدیلی کی ایک نئی کرن نظر آئے۔ انشااللہ یہی اولاد آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).