ہتھوڑا گروپ، جعلی اکاونٹ اور تھرپار کر میں بچوں کی ہلاکتیں


تھرپار کے بارے میں سوچیں اور ان تاثرات کے بارے میں جو ذہن میں ابھرتے ہیں، قحط، خشک سالی، قلت غذاہیت اور ناکافی طبی سہولیات کی وجہ سے بچوں کی موت کے منڈلاتے سائے۔

خشک سالی اور قحط قدرتی اعمال ہیں مگر سندھ حکومت اور پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف ہتک آمیز پراپیگنڈا سے بچوں کی اموات کوانسانی عمل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

تھرپار کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ واحد ضلع ہے جہاں بچوں کی ہلاکتوں کی شرح پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی مسلسل نظروں میں رہتی ہے۔ گویا باقی سارے پاکستان میں اس لحاظ سے صورتحال مثالی ہے۔

تھر میں بلکہ پورے سندھ میں امید کی واحد کرن، یہاں کا کول منصوبہ اور اس سے پیدا ہونے والی بجلی ہے،
بچوں کی اموات سے متعلق اس پراپیگنڈا کے وقت کا تجزیہ کیا جائے تو اس کے پیچھے ایک واضح ترتیب اور تحریک ثابت ہوتی ہے۔
ہر میڈیا ہاوس یوں لگتا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر ان واقعات کو ریکارڈ اور مرتب کرتا ہے۔ کوئی اس کا خیال نہیں کرتا کہ پاکستان کے تمام اضلاع میں بچوں کی موت کی شرح ہر 1000 پیدائش میں سے 70 سے 120 ہلاکتوں کی ہے۔

جنوبی پنجاب میں راجن پور ضلع کو دیکھیں، موسم اور پسماندگی کے اعتبار سے یہ تھرپار کر کے قریب تر ہے۔ گورنمنٹ کے ریکارڈ کے مطابق 2008 میں راجن پور میں بچوں کی شرح اموات 110 فی 1000 پیدائش تھی۔

اس شرح کے مطابق تھرپار کر 10 لاکھ آبادی اور آبادی میں 3 فیصد شرح اضافہ کے ساتھ ہر سال 30000 بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر 110 فی 1000 کی شرح اموات کو مد نظر رکھیں توتھر پارکر میں بچوں کی پیدائش کی ممکنہ تعداد 3300 بنتی ہے۔

گزشتہ روز تک نجی ٹی وی چینلوں پر پیشکیے جانے والے اعداد کے مطابق تھر میں 586 بچے ہلاک ہوئے، اس شرح سے رواں سال میں تھر میں بچوں کی کل ہلاکتوں کی تعداد 727 تک ہو سکتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تھر میں بچوں کی ہلاکتوں کے واقعات راجن پور سے آدھی ہے، بلکہ قومی سطح پر بچوں کی شرح اموات سے بھی کم ہے مگر کوئی اس کی رپورٹ نہیں کرتا۔
1000 پیدائش میں سے 60 ہلاکتوں کی شرح سے تھرپار کو ماڈل ضلع کی حیثیت سے پیش کیا جانا چاہیے، خاص طور پر جب ہم اس کی پسماندگی، غذاہیت کی کمی اورسخت ترین حالات زندگی کو سامنے رکھتے ہیں۔

یونیسف کے مطابق پاکستان میں بچوں کی شرح اموات 1000 پیدائش میں سے 79 اموات کی ہے۔
تھر پر یہ خصوصی توجہ ایک منصوبہ بندی سے کی گئی کوشش ہے، جس کا مقصد سندھ حکومت اور اس کی صحت کی سہولیات کو بدنام کرناہے۔ اس سے کون فائدہ اٹھاتا ہے، کوئی بھی اس کا اندازہ لگا سکتا ہے۔

آئیں اب اس کی کھوج لگاتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت بنتے ہی ملک کے طول و عرض سے کس طرح جعلی اکاونٹس سامنے آنا شروع ہو گئے۔ میڈیا بار بار یہ رپورٹنگ کر رہا ہے کہ عام لوگوں کے نام پر بنے ہوئے اکاونٹس میں نامعلوم لوگ رقمیں جمع کروا رہے ہیں۔ ان اکاونٹس میں رقم جمع کروائے جانے کا وقت اور انداز متنبہ کردینے والا عمل ہے اور ملک میں ہر ایک اس بارے گفتگو کر رہا ہے۔

یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اچانک کسی نے ان اکاونٹس میں اربوں روپے ڈالنا شروع کر دیے ہیں، صرف اس لیے کہ پرائم ٹائم میڈیا پر بریکنگ نیوز کے طور پر چلائے جانے کے بعد حکومت اسے وصول کرے۔ اس سے فائدہ یقیناً پی ٹی آئی کی حکومت کو پہنچے گا جو کرپٹ لوگوں کے کالے دھن کے خلاف اپنے دعووں سے اپنے لیے جائز ہونے کا جواز حاصل کرتی ہے۔ جو اب کہہ سکتی ہے کہ ہم نے پہلے ہی اس بارے بتادیا تھا۔
اس سکینڈل کی ٹائمنگ اسے مشکوک بناتی ہے۔

سبھی جانتے ہیں کہ قریب ایک دہائی سے ہمارے بینکنگ سسٹم کے قواعد و ضوابط اس قسم کی مشکوک ٹرانزیکشنز کا پتہ لگانے کے پابند ہیں، لیکن اس عرصے کے دوران یا یوں کہہ لیں کہ پاکستان کی بینکنگ کی تاریخ میں اس قسم کا ایک کیس بھی رپورٹ نہیں ہوا۔ سوال پیدا ہوتا ہے تو ایسا اب ہی کیوں ہو رہا ہے اور وہ بھی اتنی بڑی تعداد میں؟
امید کی جاتی ہے کہ اب پاکستانی مزید اس قسم کے جعلی اکاونٹ نہیں دیکھیں گے کیونکہ ایف اے ٹی ایف اور دنیا کے دیگر مالیاتی امور کے نگران اداروں نے گزشتہ ہفتے ان اکاونٹس کو دہشت گردوں کی مالی اعانت کے ساتھ نتھی کر دیا ہے۔ اور جعل ساز بھی ایف اے ٹی ایف اور دہشت گردی کی مالی اعانت کے الزامات کے بارے حساس ہیں۔ تاہم وہ اپنے مقاصد پورے کر چکے ہیں۔ ’چوراں نوں پے گئے مور‘ ایسے موقع کے لیے یہی کہا جا سکتا ہے۔ رائے عامہ اور قومی شعورکا دکھاوا کبھی ایسا آسان نہیں رہا۔ یہ صرف پاکستان ہی میں ہو سکتا ہے اورغریب سادہ لوح قوم ہی اس پر یقین کر سکتی ہے۔

مذکورہ بالا دونوں سکینڈل ہماری توجہ گزرے برسوں کے ایک سکینڈل ’ہتھوڑا گروپ‘ کی جانب مبذول کرواتے ہیں، جب 80 کی دہائی کے وسط میں جنرل ضیا الحق کی حکومت نے لوگوں میں خوف پھلا دیا کہ خاد اور کے جی بی کے ایجنٹ عام لوگوں کو سر میں ہتھوڑا مار کر مار دیتے ہیں۔ خبریں یہ تھیں کہ افغانسان میں روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے ایجنٹوں اور افغان خفیہ ادارے خاد کے ایجنٹوں نے کیا، البتہ اس کا مقصد کراچی میں پنجابی، مہاجر اور مہاجر کشیدگی اور بڑھتے ہوئے جرائم سے توجہ ہٹانا تھا۔ سات بھکاری اور سڑکوں پر سونے والے غریب مارے گئے، آج تک اس میں کوئی گرفتاری نہیں ہوئی، البتہ مقصد پورا ہو گیا۔

اس سے مجھے ایک مقولہ یاد آتا ہے جو پاکستان کے حالات پر صادق آتا ہے۔
”جب آپ کا سب کچھ ہتھوڑا ہے تو ہر چیز کیل ہی دکھائی دے گا“ ابراہام میسلو

(لکھاری اے پی این ایس ایوارڈ یافتہ صحافی ہیں. پاکستان میں ایف ایم ریڈیو کی روایت کی بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ دس برس تک اردو کے عہد ساز ہفت روزہ جریدے “ہم شہری” کے ناشر رہے۔)

عمران باجوہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمران باجوہ

مصنف کو تحقیقی صحافت کے لیے اے پی این ایس کی جانب سے ایوارڈ مل چکا ہے۔

imran-bajwa-awon-ali has 17 posts and counting.See all posts by imran-bajwa-awon-ali