تحریک انصاف کی حکومت گرانے کا نام جمہوریت نہیں


پیپلز پارٹی کے معاون چئیرمین آصف زرداری نے تمام اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ مل کر قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف ’عدم اعتماد‘ کی قرارداد لانے کا مشورہ دیا ہے۔ گزشتہ روز جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ملاقات میں بھی اس موضوع پر بات کی گئی ہے۔ اب مولانا فضل الرحمان نے اعلان کیا ہے وہ قومی اسمبلی میں تمام اپوزیشن پارٹیوں کو ساتھ ملا کر حکومت کے خلاف محاذ آرائی کا آغاز کریں گے۔ مسلم لیگ (ن)کی طرف سے اس حوالے سے کوئی واضح اشارہ تو سامنے نہیں آیا لیکن اسے بھی ایسی کسی سیاسی تحریک سے تعرض نہیں ہوگا جس سے تحریک انصاف کو حکومت اور اقتدار بچانے کے لالے پڑے رہیں۔ اور وہ امور مملکت کی طرف توجہ مبذول نہ دےسکے۔ ملک کی تجربہ کار اور اہم سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کے اس رویہ کی تائید کرنا نہ تو جمہوریت کے لئے سود مند ہو گا اور نہ ہی اس طرز عمل سے ملک میں سیاسی بحران ختم کرکے جمہوری قوتوں کو مضبوط کرنے کی روایت آگے بڑھ سکے گی۔

اگرچہ آصف زرداری نے تحریک انصاف کے خلاف صرف قرار داد لانے کی بات کی ہے اور اسے تحریک عدم اعتماد کا نام نہیں دیا کیوں کہ ان کا مقصد بھی حکومت گرانے سے زیادہ حکومت کو ڈرانا ہے۔ تاکہ ملک میں سیاسی بے چینی کا سلسلہ جاری رہے اور تحریک انصاف کی سرپرستی کرنے والی قوتوں کو اپنی ’غلطی‘ کا احساس ہونے لگے۔ اس طرح سیاسی طوائف الملوکی کا ایک نیا دور شروع ہو سکے جس میں کسی بھی سیاسی پارٹی کو اختیار حاصل نہ ہو اور اقتدار کی باری لینے کے لئے ہر پارٹی اور لیڈر زور لگا سکے۔ اس ملک میں 90 کی دہائی کے علاوہ 2008 سے شروع ہونے والے جمہوریت کے نئے دور میں بھی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا سلسلہ جاری رہا ہے ۔ اگرچہ اسے سیاسی تفہیم اور پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان میثاق جمہوریت کا دور کہا جاتا ہے۔ 2006 میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان ہونے والے اس معاہدہ پر کبھی عمل نہیں ہو سکا جس کے سیاسی نتائج کا آج دونوں سیاسی پارٹیاں سامنا بھی کررہی ہیں۔

2007 میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی لیکن نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) نے جلد ہی اس حکومت کے خلاف سازشوں کا حصہ بننا شروع کردیا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کی سیاسی مشکلات کو اپنے لئے کامیابی کا راستہ سمجھا اور ملک میں جمہوری روایت کے لئے پارلیمنٹ میں اتحاد اور تعاون کا راستہ روکا۔ اب ایک بار پھر اگر ایک تیسری سیاسی قوت کے خلاف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) وہی طرز عمل اختیار کریں گی جو وہ دونوں گزشتہ تیس برس کے دوران ایک دوسرے کے خلاف اختیار کرتی رہی ہیں تو اس سے تحریک انصاف کی بجائے جمہوریت کو نقصان ہوگا۔

تحریک انصاف کی حکومت کو ابھی برسر اقتدار آئے دو ماہ کا عرصہ ہؤا ہے۔ اس لئے کسی بھی اصول کے تحت اس کی کارکردگی کا جائزہ لینا ممکن نہیں ہے۔ یوں بھی پاکستان کو جن گوناگوں معاشی، سیاسی، سفارتی اور سماجی مسائل کا سامنا ہے اسے سیاسی احتجاج اور سازشوں سے ختم کرنے کی بجائے سیاسی ہم آہنگی اور تعاون کا راستہ ہموار کرکے ہی دور کیا جاسکتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت پر اپوزیشن پارٹیوں کو سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ وہ فوج کے تعاون سے انتخابات میں ایک بڑی دھاندلی کے نتیجہ میں اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں نے اسمبلیوں کے اراکین کے طور پر عہدے کا حلف اٹھا کر 25 جولائی کے انتخابات کو قبول کرلیا ہے۔ دھاندلی کے موضوع پر بحث سے قطع نظر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ تحریک انصاف کو پونے دو کروڑ لوگوں نے ووٹ دئیے ہیں۔

یہ بحث کی جا سکتی ہے کہ ان ووٹوں کو کون سے جھوٹ سچ کو قومی میڈیا کا حصہ بنا کر تحریک انصاف کی طرف مائل کیا گیا اور کون سے اداروں نے اس سلسلہ میں پرانے سیاست دانوں کی شہرت پر شبہات کے سائے گہرے کرنے میں کردار ادا کیا۔ لیکن اس بنیادی حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کومقبول ووٹ کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ اس لئے تحریک انصاف کے خلاف بے چینی پیدا کرکے دراصل ان ووٹروں کی امیدوں پر پانی پھیرنے کی کوشش کی جائے گی جنہوں نے عمران خان کے وعدے اور تحریک انصاف کے تبدیلی کے منشور پر اس پارٹی کی حمایت کی تھی۔ ووٹ کو عزت دو کے اصول کا تقاضا ہے کہ خواہ تحریک انصاف قلیل اکثریت کی بنیاد پر ہی برسر اقتدار ہو لیکن اسے اطمینان سے حکومت کرنے اور اپنے عوام دوست ایجنڈے پر عمل کرنے کا موقع دیا جائے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس وقت ملک میں سیاسی بے اختیاری کا دور دورہ ہے اور منتخب حکومت کے اختیارات دراصل غیر منتخب ادارے استعمال کررہے ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو آصف زرادری اور مولانا فضل الرحمان جیسے گھاگ اور جہاں دیدہ سیاست دانوں کو یہ خبر بھی ہونی چاہئے کہ موجودہ حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی سیاسی طبع آزمائی سے وہی عناصر طاقت ور ہوں گے جنہیں اس وقت ملک میں جمہوریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھا اور کہا جارہا ہے۔ غیر منتخب اداروں کے اختیار اور معاملات پر استعداد کو کم کرنے کے لئے سیاسی قوتوں کے درمیان وسیع تر ہم آہنگی اور اشتراک عمل بے حد ضروری ہے۔

گزشتہ چند دہائیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ ملک کی بیشتر سیاسی جماعتوں نے کبھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ البتہ جب ان کے مفادات کو زک پہنچی تو اقتدار بچانے یا اسے حاصل کرنے کے لئے انہی قوتوں سے تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ آصف زرداری نے سابقہ بلوچستان اسمبلی میں بغاوت سے لے کر سینیٹ انتخابات اور چئیر مین سینیٹ منتخب کروانے تک اسی حکمت عملی پر عمل کیا تھا۔ جولائی میں ہونے والے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کے لئے میدان ہموار کرنے میں آصف زرادری کو اپنا کردار فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ اگر ملک کے سیاسی لیڈر ماضی قریب میں کی جانے والی غلطیوں سے سبق سیکھ کر واقعی ملک میں جمہوریت کے لئے کام کا آغاز کرنا چاہتے ہیں تو انہیں عدم اعتماد کی دھمکیاں دینا، حکومت کو کمزور کرنے کے لئے قرارد داد کی تجویز لانا یا حکومت کوسیاسی طور سے معذور کرنے کی بجائے پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے اور اہم قومی مباحث کا پلیٹ فارم بنانے کے لئے کام کرنا چاہئے۔ اسی طرح ملک کے آئین سے ان غبی شقات کو نکالنے کے لئے تعاون پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو غیر جمہوری اداروں کی طرف سے جمہوری لیڈروں کو کمزور اور محتاج کرنے کے لئے استعمال ہورہی ہیں۔

منتخب حکومت خواہ بے اختیار ہو اور فوج کی پراکسی کے طور پر ہی کام کر رہی ہو لیکن اسے اقتدار کا حق بہرحال ووٹروں کی حمایت سے ہی حاصل ہؤا ہے۔ اپوزیشن کو اس صورت حال کو قبول کرکے اپنی حکمت عملی بنانا چاہئے۔ اس کے لئے یہ تسلیم کرنا بے حد ضروری ہے کہ سیاست حکومت بنانے یا گرانے کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے منتخب اداروں کو ڈھال بنایا جاتا ہے۔ اس وقت ملک میں اظہار رائے کی آزادی کو شدید خدشات لاحق ہیں، میڈیا پر سخت دباؤ ہے، عددی لحاظ سے مضبوط اپوزیشن ہونے کے باوجود سیاسی سناٹے کی سی کیفیت ہے۔ کرپشن ختم کرنے کے نام پر بنیادی حقوق کو روندتے ہوئے سیاسی انتقام کا ماحول پیدا کیا گیا ہے۔ ان حالات کو تبدیل کرنے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کو حکومت گرانے سے زیادہ سیاسی خوف ختم کرنے، حکومت پر شہری حقوق بحال کرنے کے لئے دباؤ ڈالنے، عدالتوں اور دیگر اداروں کو ہتھکنڈےکے طور پر استعمال کرنے کے طرزعمل کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے اور غیر منتخب قوتوں کو یہ پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ وہ سازش کا حصہ نہیں بنیں گی ۔ اپوزیشن یہ کردار صرف اسی صورت میں ادا کرسکتی ہے جب وہ اقتدار کی بجائے اصولوں کو اہمیت دے، اور جب وہ یہ تسلیم کرنے لگے کہ منتخب حکومت کو کمزور کرنے کی کوششوں سے غیر منتخب ادارے مضبوط ہوں گے اور جمہوریت کا راستہ کھوٹا ہوگا۔

اس میں شبہ نہیں کہ تحریک انصاف کی قیادت جن میں وزیر اعظم عمران خان سر فہرست ہیں، اپوزیشن کو نیچا دکھانے کے لئے سیاسی اقتدار کو استعمال کررہے ہیں۔ وہ دو بڑی سیاسی پارٹیوں کو سیاسی منظر نامہ سے ہٹانے کے منصوبہ کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ اسی لئے وزیر اطلاعات سیاسی مخالفین کو سیاسی ملاقاتیں کرنے کی بجائے وکیلوں سے مشاورت کرنے کے مشورے دیتے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت کے لئے عدالتی مشکلات پیدا کی جارہی ہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف کو بھی جلد یا بدیر یہ سمجھنا ہو گا کہ وہ تادیر ان طریقوں پر عمل کرکے اپنے لئے راستہ ہموار نہیں کرسکتے۔ انہیں اس مقام تک پہنچانے والی قوتیں وقت آنے پر اپنی غلطیوں کا حساب دینے کے لئے ماضی کی طرح سیاسی قیادت کو ہی قربانی کا بکرا بنا کر پیش کریں گی۔ کسی بھی منتخب سیاسی قوت کے لئے جمہوری عمل کو احترام دینے اور اس کے استحکام کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

 اس عمل کے دو اہم شراکت دار ہوتے ہیں ۔ حکومت اور اپوزیشن۔ یہ دونوں اگر ایک دوسرے کا احترام نہیں کریں گے اور مل جل کر کام کرنے کا آغاز نہیں کریں گے تو وہی قوتیں مضبوط ہوں گی جو سیاست دانوں کو کٹھ پتلیوں کی طرح انگلیوں پر نچاتی رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali