دیومالی: ایسا گاؤں جہاں صدیوں سے کوئی پکا مکان نہیں بن سکا


مٹی کے مکان اور گھاس پھوس کی جھونپڑیاں انڈیا کے دیہات کی شناخت ہوا کرتی تھیں لیکن وقت کے ساتھ اب ان دیہات کی بھی صورت بھی بدل گئی ہے اور کچے مکانوں کی جگہ اب زیادہ تر مکانات اینٹ اور سیمنٹ کے بنے ہوتے ہیں لیکن دیو مالی گاؤں ایسا نہیں ہے۔

راجستھان کے اس گاؤں میں صدیوں سے کوئی پکا مکان نہیں بنا۔ پورے گاؤں میں صرف حکومت کی تعمیر کی ہوئی پنچایت کی عمارت ہی اینٹ اور سیمنٹ کی بنی ہوئی پکی عمارت ہے۔

رمتی دیوی کڑا، ہنسلی، ماتھے کا جھومر، ہاتھوں میں چاندی اور تابنے کی درجنوں چوڑیاں پہنے ہوئے دیو مالی میں اپنے کچے مکان میں مونگ کی دال کو بالیوں سے الگ کرتی ہوئی مجھے ملیں۔

برادری کی بہت سی دوسری ہم عمر خواتین کی طرح وہ یہ زیورات ہمیشہ پہنے رہتی ہیں۔ ان کا مکان بھی کچا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس گاؤں میں کبھی پکے مکان نہیں بنے۔

‘بھگوان نے کہا ہے کہ پکے مکان نہیں بنانا ہے تو پھر ہم کیسے اس کی خلاف ورزی کر سکتے ہیں۔’

دیو مالی گاؤں

دیو مالی اجمیر سے تقریبآ ساٹھ کلومیٹر دور طویل چراگاہوں کے درمیان واقع ہے ۔ اس گاؤں میں تقریـبآ 200 مکان ہیں اور یہ سبھی کچے ہیں۔

گاؤں کے سابق سرپنچ مادھو رام بتاتے ہیں کہ اس گاؤں میں صدیوں سے پکے مکان نہیں بنے ہیں۔ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اگر کسی نے پکا مکان بنایا تو اس پر مصیبت نازل ہو گی۔

مادھو رام کہتے ہیں ‘ہمارے بھگوان نے کہا تھا کہ کچے مکان رکھنا، پکے گھر مت بنانا۔ کچے مکان میں پاکیزگی ہوتی ہے۔ مکان کی دیواروں اور فرش کو پاک رکھنے کے لیے ہم گائے کے گوبر سے لیپتے ہیں۔’

گاؤں کے لوگ دیو نارائن بھگوان کی پوجا کرتے ہیں جن کا مندر گا‎ؤں کی سب سے اونچی پہاڑی پر بنا ہوا ہے۔

دیو مالی گاؤں

اس گاؤں کے باشندوں کا یہ وہم عقیدے میں بدل چکا ہے کہ یہاں پکا گھر بنانے سے ان پر مصبیت نازل ہو گی۔

وہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے گاؤں میں پکا مکان بنانے کی کوشش کی تو ان کے اوپر ایسی مصیبت آئی کہ سب ڈر گئے۔

لاڈو گوجر نے بتایا کہ ان کے بڑی بھائی نے پکا مکان بنا لیا تھا۔ ‘اس کی گھر والی کی آنکھیں چلی گئیں۔ وہ بھگوان کے سامنے بہت پشیمان ہوا، اپنی غلطی کی معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ وہ یہ مکان توڑ دے گا۔ اس کی بیوی آنکھیں اچھی ہو گئیں لیکن اس نے مکان نہیں توڑا۔ کچھ دنوں بعد وہ بیمار ہوا اور ایک کنوئیں میں کود کر اپنی جان دے دی۔‘

دیو مالی گاؤں

گوجروں کے اس گاؤں میں بیشتر زندگی پرانے طرز کی ہے ۔ گاؤں کا ذریعہ معاش مویشی بانی، دودھ کا کاروبار اور کھیتی باڑی ہے۔ گاؤں معاشی طور پر خود کفیل ہے جس کے سبب یہاں تعلیم کا زیادہ اثرنہیں ہے۔ شادیاں بچپن میں ہی طے ہو جاتی ہیں اور پرانی روایتوں پر سختی سے عمل ہوتا ہے۔

نئی نسل کے پڑھے لکھے لوگ بھی اپنے والدین کے عقیدے میں یقین رکھتے ہیں۔ 12ویں درجے کی ایک طالبہ لکشمی گوجر اپنے گاؤں سے کئی کلومیٹر دور ایک قصبے میں پڑھنے جاتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ پکے مکانوں کو دیکھ کر دل تو کرتا ہے ‘ لیکن بھگوان نے جو کہا ہے ہم اسے مانتے ہیں۔ اس کا انحصار صرف بھگوان پر ہے۔‘

دیو مالی گاؤں

گاؤں کے ایک پڑھے لکھے نوجوان سکھ راج نے بی بی سی کو بتایا کہ نئی نسل کے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ پکے اور اچھے مکان بنیں لیکن وہ اپنی روایتوں سے انحراف کرنے سے ڈرتے ہیں۔

’جو شروع سے روایتیں چلی آ رہی ہیں لوگ انھی پر عمل کرتے ہیں۔ لوگوں کو ڈر لگتا ہے ۔ وہ بھگوان دیو نارائین کا کوئی اصول توڑنا نہیں چاہتے۔’

دیو مالی گاؤں

اپنے کچے مکانوں اور پرانے طرز کے رہن سہن کے ساتھ دیو مالی گاؤں پوری طرح ماضی میں ٹھہرا ہوا نظر آتا ہے۔

گاؤں والوں کا کہنا ہے دنیا کتنی آگے کیوں نہ چلی گئی ہو، وہ اپنے مذہبی عقیدے اور سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں چاہتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32554 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp