گارسیا مارکیز کی بیوی اور ہماری بیویاں


ہمیں یہ تو تسلیم کر ہی لینا چاہیے کہ انگریزی زبان کا طوق ابھی تک ہمارے گلے میں پڑا ہوا ہے اور ہم اس طوق کو ایک گہنا ایک کینٹھا سمجھتے ہیں اور فخر کرتے ہیں، اس میں کچھ کلام نہیں کہ اگر آپ نے بیشتر دنیا سے کلام کرنا ہے تو انگریزی کے بغیر کام نہیں چلے گا اور اگر آپ نے دنیا بھر کے ادب اور تاریخ سے آگاہ ہونا ہے تو ان سب کے تراجم بھی انگریزی میں ہیں تو حضور ہمارے لیے انگریزی اس لیے بھی ضروری ہے۔

آپ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیے اگر انگریزی جانتے ہیں تو آپ گونگے نہیں رہیں گے۔ یہاں تک کہ ویت نام کے پہاڑی شہر ساپا کی قبائلی عورتیں بھی فرفرانگریزی بولتی ہیں۔ مجھے ہرگز انگریزی سے کچھ بغض نہیں صرف پاکستانیوں کی انگریزی سے مرعوبیت پر اعتراض ہے۔

یہاں تک کہ اگر کوئی پاکستانی بہ زبان انگریزی کوئی بوگس سا ناول لکھ دیتا ہے اور وہ باہر کے کسی اشاعتی ادارے کی جانب سے چھاپ دیا جاتا ہے تو ہر جانب ہاہاکار مچ جاتی ہے۔ اردو میں لکھنے والے ناول نگار چاہے گارسیا مارکیز کی ہمسری کر رہے ہوں انہیں کوئی گھاس نہیں ڈالتا۔

بہرطور قصہ مختصر عرض میں یہ کرنا چاہ رہا ہوں کہ ضروری نہیں کہ ایک ناول انگریزی میں لکھا گیا ہو۔ کسی امریکی یا یورپی نے تصنیف کیا ہو تو وہ ہر صورت ایک قابل ذکر ناول ہوگا۔ انگریزی میں بھی بہت ٹریش لکھا جارہا ہے، یعنی کاٹھ کباڑ وغیرہ۔ صرف یہ کہ اس کاٹھ کباڑ کی زبان انگریزی ہوتی ہے تو ہم مرعوب ہو جاتے ہیں تو پچھلے چند ماہ میں نے مرعوبیت کی حالت میں کاٹھ کباڑ پڑھتے گزارے اور بہت دولت اور وقت ضائع کیا۔

چنانچہ میں اس تلخ تجربے کے بعد قدرے سیانا ہوگیا اور اپنے محبوب بک سٹور ’’ریڈنگ‘‘ پر گیا تو ان سے کہا کہ براہ کرم مجھے تازہ ترین غیر ملکی ناول نہ دیجئے گا۔ بکرپرائز، نوبل انعام کے بعد سب سے بڑا ادبی پرائز ہے تو مجھے صرف وہ ناول عنایت کردیں جو پچھلے برسوں میں بکر پرائز کے حقدار ٹھہرے تھے۔

میںنے ناولوں کے گھوڑوں پر بہت رقم اور وقت ضائع کیا تھا اور اب میں صرف بکر کی دوڑیں جیتے ہوئے گھوڑوں پر اپنا وقت لگانا چاہتا تھا اور اگر وہ گھوڑا نوبل انعام یافتہ ہو تو سبحان اللہ۔ ’’ہنگر‘‘ یعنی ’’بھوک‘‘ نارویجن مصنف نٹ ہامسن کا ایک ایسا شاہکار ہے جس کی بنیاد پر اسے 1920ء میں نوبل انعام دیا گیا۔

اس ناول میں ایک تخلیقی انسان کی جس ذلت اور بھوک کی داستان ہے اس کے بارے میں کہا گیا کہ اسکی مثال دوستو وسکی کے ناولوں میں بھی نہیں ملتی۔ ناول بھوک میں نٹ ہامسن نے ایک ناول سے بڑھ کر ایک ناول لکھا ہے اور اس کا آغاز ایک یادگار فقرے سے ہوتا ہے کہ ’’یہ وہ دن تھے جب میں کرسٹیانا شہر میں بھوک سے نڈھال پھرتا تھا، ایک ایسا عجب شہر جس میں جو کوئی بھی ٹھہرتا ہے اس پر اس شہر کی مہر لگ جاتی ہے۔‘‘

یہ ایک ایسے صحافی یا نوجوان قلم کار کی کہانی ہے جسے روزگار نہیں ملتا اور وہ دن بھر بھوک سے نڈھال اس شہر میں چلتا جاتا ہے اور اس کے باوجود وہ اپنی عزت نفس کو روٹی کے لیے فروخت نہیں کرتا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ایک ناول نے ہامسن کو کامیو اور کافکا کے برابر میں لا کھڑا کیا۔

یقینا یہ ایک بڑا ناول ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اس میں بھوک محض ایک تصور اور رومان ہے۔ وہ جو مجبوری، لاچاری اور غربت اور ذلت کی بھوک ہوتی ہے وہ صرف برصغیر کے لوگ ہی بیان کرسکتے ہیں اور ہم نے اپنے ادب میں اس لیے بیان کی کہ یہ تو ہماری روزمرہ حیات کی داستان ہے۔

2016ء میں افرو امریکی ناول نگار پال بئیٹی کو ’’دے سیل آئوٹ‘‘ پر بکر پرائز ملا۔ اگرچہ میں امریکی مزاج اور طنز سے زیادہ لطف اندوز نہ ہوسکا کہ ہماری سرشت میں برطانوی مزاج رچا ہوا ہے، میں اسے مکمل طور پر نہ پڑھ سکا لیکن اس کا آغاز بہت موثر تھا۔ ’’آپ کے لیے یہ بہت مشکل ہو گا یہ یقین کرنا اگر ایک سیاہ فام یہ اقرار کرے کہ میں نے آج تک کوئی شے چوری نہیں کی۔

کبھی انکم ٹیکس کی ادائیگی میں بے ایمانی نہیں کی۔ میں نے کبھی کسی گھر میں نقب نہیں لگائی اور نہ ہی کسی شراب کے سٹور کولوٹا ہے۔ نہ کبھی انڈرگرائونڈ ٹرین میں اپنے آپ کو برہنہ کیا ہے اور اس کے باوجود آج میرے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی ہیں اور میں امریکہ کے سپریم کورٹ میں ایک مجرم کے طور پر سرجھکائے کھڑا ہوں‘‘۔

’’وے سیل آئوٹ‘‘ یقینا بکرپرائز کا حقدار ہے اور اگر وہ میرے ادبی مزاج سے سراسر الگ ایک امریکی مزاج ہے تو… جو مزاج یار میں آئے۔ 2011ء میں جولئن بارنز کے ناول ’’دے سینس آف این اینڈنگ‘‘ نے بکر پرائز کی دوڑ جیت لی۔ یہ ناول اپنی کہانی کی بنت میں آپ کو الجھائے رکھتا ہے اور اسے اول سے آخر تک مجبوراً پڑھنا پڑتا ہے۔ اس کا آغاز بھی کمال کا ہے اور کچھ یوں ہے۔

’’مجھے کچھ یاد آرہا ہے اور اس میں کچھ ترتیب نہیں ہے۔ ایک دمکتی ہوئی کلائی کا اندرونی حصہ۔ ایک سلگتے ہوئے فرائنگ پین کا سنک کے پانی میں ڈوبنا۔ ایک دریا جو الٹا بہہ رہا ہے۔ یہ سب کچھ وہ نہیں جو میرا دیکھا ہوا ہے بلکہ وہ یہ یادیں ہیں جو میں یاد رکھنا چاہتا ہوں۔ میں ان شاہکار ٹھہرائے گئے ناولوں کا آغاز آج اس لیے بیان کر رہا ہوں کہ بقول کسے بھی ناول کا پہلا فقرہ اگر تخلیق کے جرثومے کی زد میں آ جائے تو گویا آپ نے آدھا ناول لکھ لیا۔

اگرچہ میں شاید بیان کر چکا لیکن پھر سے دوہراتا ہوں کہ گارسیا مارکیز کے ذہن میں ’’سو برس کی تنہائی‘‘ ناول مکمل طور پر ترتیب پا چکا تھا لیکن اسے سوجھ نہیں رہا تھا کہ وہ اس کا آغاز کیسے کرے۔

وہ اپنے خاندان کے ہمراہ چھٹیاں منانے کے لیے کسی دور دراز کے ساحلی مقام پر اپنے کار میں جارہا تھا۔ بچے ساتھ تھے اور اس مقام پر ہوٹل کی بکنگ ہو چکی تھی اور ڈرائیونگ کرتے ہوئے بھی وہ سوچ بچار میں مبتلا تھا جب اس نے اپنے پہلو میں بیٹھی ہوئی بیوی سے کہا ’’میرے ذہن میں وہ فقرہ آ گیا ہے جو‘‘ سو برس کی تنہائی کے آغاز میں مجھے لکھنا ہے۔ اس کی بیوی نے سٹیئرنگ پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’گارسیا، لوٹ چلو۔ گھر چلو اوراپنے ناول کا آغاز کرو۔‘‘

گارسیا کہنے لگا، نہیں۔ ہوٹل کی بکنگ ہو چکی ہے۔ بچے چھٹیاں منانے کے لیے پرامید اور جوش میں ہیں تو ذرا ان سے فارغ ہو کر واپس چلے جائیں گے تو اس کی بیوی کہنے لگی ’’نہیں، واپس گھر چلو۔ تمہارا ناول زیادہ اہم ہے۔ گھر واپسی پر شنید ہے کہ اس کی بیوی نے اسے ایک کمرے میں بند کردیا کہ اب اس تنہائی میں بیٹھ کر سوبرس کی تنہائی کا آغاز کردو۔

تب باہر آنا جب یہ ناول مکمل ہو جائے گا۔ اسے پڑھنے والو، ہم جو برصغیر کے باسی ہیں، ادیب اور شاعر ہیں، ہم بیویوں کے بارے میں اتنے خوش نصیب نہیں رہے، ہماری بیویاں تو ہمیں کوستی ہی رہیں۔ وہ غالب کی بیوی ہو، شفیق الرحمن یا محمد خالد اختر کی بیوی ہو۔ مجید امجد یا کرنل محمد خان کی غائبانہ بیوی ہوں۔ یہ سب ہم سے شاکی ہی رہیں۔

جیسے یوسفی صاحب نے جب مختار مسعود سے پوچھا تھا کہ ان دنوں آپ کیا کر رہے ہیں تو انہوں نے کہا ’’میں صوفیا کرام کی عائلی زندگی کے بارے میں تحقیق کر رہا ہوں۔‘‘ تو یوسفی صاحب نے نہایت متانت سے کہا تھا۔ ان کی عائلی زندگی بری ہی ہوگی اس لیے تو یہ صوفی ہو گئے۔

تو ہم لوگ شکر گزار ہیں ان بیویوں کے۔ اگر وہ ہمیں دن رات نہ کوستیں، بیلن یا چمٹا اٹھا کر ہمارا پیچھا نہ کرتیں تو ہم اتنا بڑا ادب تخلیق کرنے سے قاصر ہوتے۔ ہمارے ہاں مفاہمت اور محبت سے نہیں، ڈانٹ ڈپٹ اور پھٹکار سے نہ صرف بڑے ناول بلکہ بڑی شاعری وجود میں آتی ہے۔

میں ذاتی حوالوں سے اکثر اجتناب کرتا ہوں۔ اگر میں شاعر ہوتا اور خدانخواستہ کیوں ہوتا تو میں بے دریغ بے وجہ اپنے عامیانہ شعروں کے حوالے دیتا چلا جاتا۔ یہاں تک کہ قارئین کو وہ ازبر ہو جاتے لیکن ایک نثر نگار کے ہاں گنجائش کم ہوتی ہے اور اس کو اپنی عزت نفس بھی کس قدر عزیز ہوتی ہے تو وہ ذاتی حوالوں سے اجتناب کرتا ہے۔

مجھے بھی بہت دشواریاں ہوئیں کہ راکھ، بہائو، قربت مرگ میں محبت، ڈاکیا اور جولاہا اور خس و خاشاک زمانے کا پہلا فقرہ لکھو۔ ’’اس کے سفید پیروں تلے ریت تھی اور وہ اڑان میں تھا۔‘‘ چار چیزیں ہیں جو ہر دسمبر میں مجھے بلاتی ہیں، ان میں سے ایک شکار ہے، قادر آباد کے آس پاس اور وادی سوات کا ایک سلیٹی منظر ہے اور کامران کی بارہ دری سے لگ کر بہتا ہوا دریائے راوی ہے اور چوک جکلہ ہے۔

بشکریہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar