فن لینڈ: جہاں لوگ ہلکی پھلکی گپ شپ سے بھی بچتے ہیں!


ہم پاکستانی بہت باتونی ہوتے ہیں۔ بس کوئی مل جائے۔ باتوں کا سلسلہ چل نکلتا ہے تو پھر گھنٹوں چلتا چلا جاتا ہے۔ اور کیا حال ہے۔۔۔! سے بات شروع ہوتی ہے اور قومی اور بین الاقوامی مسئلوں تک کھنچتی چلی جاتی ہے۔

چائے کی دکانوں پر انجان لوگوں سے بحث و مباحثہ کیا جاتا ہے۔ لوگ پان کھانے کے شوقین ہوں یا نہ ہوں لیکن پان کی دکان پر جاری بحث میں شامل ضرور ہوتے ہیں۔ ریل کے سفر میں عام طور پر سیاسی بحث چھڑ جاتی ہے کہ کون اچھا رہنما ہے اور کون برا۔

لیکن دنیا میں ایک ایسا بھی ملک ہے جہاں ہلکی پھلکی گپ شپ کو بہت خراب تصور کیا جاتا ہے۔ جہاں خاموشی ہی تہذیب و ثقافت ہے۔ جہاں لوگ ایک دوسرے سے یہ پوچھنا بھی پسند نہیں کرتے کہ کیا حال ہے۔

شمالی یورپی ممالک فن لینڈ میں لوگوں کا خیال ہے کہ اگر بات بہت ضروری نہ ہو تو خاموش رہنا بہتر ہے۔ وہاں لوگ اس مقولے پر دل و جان سے عمل کرتے ہیں کہ ’اگر گفتگو چاندی ہے تو خاموشی سونا ہے۔‘

فن لینڈ میں قریبی دوستوں کو چھوڑ دیں تو دو شناسا لوگوں کے درمیان بھی زیادہ بات نہیں ہوتی ہے۔

ہرطرف خاموشی کا راج ہے

کافی شاپ میں جائیں تو صرف اتنی بات ہو گی کہ ‘آپ کو کیا چاہیے؟’

آپ عوامی جگہ پر بیٹھے ہوں، ٹہل رہے ہوں یا میٹرو میں سفر کر رہے ہوں کوئی بات کرتا نظر نہیں آئے گا۔ صرف سناٹا پھیلا ہوگا۔

لوگ اپنے آس پاس کے نامعلوم لوگوں سے بےفکر رہتے ہیں، بات نہیں کرتے۔ ایسے ماحول میں کسی دوسرے ملک کے لوگ شور مچانے والے سمجھے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا کوئی پورا ملک ہی کم گو ہو سکتا ہے؟

عمارتیں جو کبھی بہترین فن تعمیر کا نمونہ تھیں

فن لینڈ میں سوانا باتھ (حمام) کا رواج عام ہے۔ پورے ملک میں تقریبا 20 لاکھ ایسےا حمام ہیں۔ ان میں لوگ دوستوں کے ساتھ جاتے ہیں۔ کئی بار بغیر لباس کے غسل کرتے ہیں۔ یعنی تنہائی میں انھیں یہ قربت نہیں کھلتی ہے لیکن جوں ہی وہ حمام سے باہر آتے ہیں ان کا مزاج بدل جاتا ہے۔

فن لینڈ کے لوگ اکثر غیر ملکی شہریوں، سیاحوں یا دوستوں سے بھی اچانک ملنے اور باتیں کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

یہاں گفتگو کی تربیت دی جاتی ہے

فن لینڈ میں انگریزی سکھانے والی ٹینا لیٹوالا کہتی ہیں کہ وہ اپنی تعلیم میں یہ بھی سبق دیتی ہیں کہ کس طرح چھوٹی موٹی گپ شپ کی جائے۔

انگریزی سیکھنے والوں کو کہا جاتا ہے کہ ‘آپ تصور کریں کہ آپ کہیں جا رہے ہیں اور آپ کی کسی سے ملاقات ہو جاتی ہے۔’

ٹینا کا کہنا ہے کہ ‘لوگوں کو واقعی چھوٹی سی بات کرنے میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔’

فن لینڈ کے طالبہ الینا جیفرے موف کا کہنا ہے کہ ٹی وی کے ذریعے وہ دیگر ممالک کی ثقافت اور بات چیت کی اہمیت سے واقف ہوئی ہیں۔

‘لیکن فن لینڈ میں چھوٹی موٹی بات چیت کرنا بہت مشکل ہے۔’

الینا کہتی ہیں کہ ‘ٹینا کی کلاس میں ہمیں بنیادی چیزیں سکھائی گئیں۔ جیسے، آپ کیسے ہیں، میں ٹھیک ہوں۔ تمہاری ماں کیسی ہے وغیرہ۔ یہ بہت بنیادی سوال تھے اور ان کے جواب بھی ہمیں پتہ تھے لیکن یہ ہماری بات چیت کا حصہ نہیں تھے۔’

ایک وجہ زبان پیچیدگی بھی ہے

ایلینا کا کہنا ہے کہ فن لینڈ کی سوسائٹی کو ذرا گھلنے ملنے اور بے تکلف ہونے کی ضرورت ہے۔ ‘اگر میٹرو میں میرا سامان گر جائے اور میں خود پر ہنسنا شروع کروں تو اردگرد نامعلوم افراد بھی میری ہنسی میں شامل ہوں۔’

فن لینڈ کے لوگوں کی خاموشی کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی یہ کہ ان کی زبان بہت پیچیدہ ہے۔ براہ راست رابطہ مشکل ہے۔

اس کے بعد شہروں کے درمیان بہت فاصلے بھی ہیں۔ اس لیے لوگ چھوٹی چیزوں پر وقت ضائع کرنا پسند نہیں کرتے۔

لیکن ہیلسنکی یونیورسٹی کی پروفیسر لورا کولبے کہتی ہیں کہ فن لینڈ کو ‘خاموش ملک’ کا نام پڑوسی ممالک نے دیا ہے۔

اس وجہ یہ ہے کہ دوسرے ملکوں کی ثقافت کا موازنہ ہمیشہ اپنے ملک سے کیا جاتا ہے۔

جیسے جیسے سویڈن اور جرمنی سے لوگ فن لینڈ آ کر آباد ہوئے انھوں نے دیکھا کہ یہاں کے کم بولتے ہیں تو انھوں نے اسے ‘خاموش ملک’ کا نام دے دیا۔

یہاں دو زبانیں فنش اور سویڈش بولی جاتی ہے۔ چھ سال کی عمر سے وہ انگریزی بھی پڑھنے لگتے ہیں۔ لورا کا خیال ہے کہ جب فن لینڈ کے لوگوں کو دوسری یا تیسری زبان میں اپنے جذبات ظاہر کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ خاموشی کو راہ دیتے ہیں۔

اوولو یونیورسٹی کے محقق ڈاکٹر اینا واٹانین اس سے اتفاق کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘فن لینڈ اور دیگر زبانوں کے درمیان فرق ہے اور اپنے جذبات کے بیان میں مطالب بدل جاتے ہیں۔’

ڈاکٹر اینینا کہتی ہیں کہ یہ سوال عام ہے کہ ‘آپ کیسے ہیں’ یہ گفتگو شروع کرنے والا سوال ہے۔ اس کے جواب میں آپ سنجیدہ جواب کی توقع نہیں کرتے۔

لیکن فنش زبان میں یہی بات ‘میتا کوول’ کہہ کر پوچھی جاتی ہے اور اس کے ذریعے ٹھوس جواب مطلوب ہوتا ہے کیونکہ اس کا مطلب ہوتا ہے تمہاری زندگی کیسی چل رہی ہے یا تمہاری زندگی میں نیا کیا ہے۔

بے شمار سوالات کی گنجائش نہیں

مصنفہ کیرولینا کورہونن کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں کہ فن لینڈ کے لوگ گپ شپ نہیں کرتے۔ وہ لوگوں کی پرائیویسی کا احترام کرتے ہیں۔ دوسروں کو پریشان نہیں کرنا چاہتے اور بلاضرورت بات نہیں کرنا چاہتے۔

دنیا بھر میں فن لینڈ کی نہ بات کرنے والی عادت مشہور ہے۔ فارمولا ون کے ریسر کمی رائکونن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ لوگوں سے بات نہیں کرتے۔ اس پر کامک بک بھی تیار کی گئي ہے۔ چین میں جو لوگ خاموش رہنا چاہتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ روحانی طور پر فن لینڈ کے باشندے ہو گئے ہیں۔

فن لینڈ کے لوگ جو غیر ممالک میں رہنے کے بعد واپس آتے ہیں انھیں اپنے یہاں کی خاموشی کھلنے لگتی ہے۔

فن لینڈ کی چاکلیٹ بنانے والی کمپنی گوڈیوا کے سی ای او جوسی سیلونین کہتے ہیں: ‘جب میں امریکہ میں رہنے کے بعد اپنے ملک واپس آیا تو ایک کافی دکان پر پہنچ کر مجھے جھٹکا لگا۔ بس یہی پوچھا گیا کہ آپ کو کیا چاہیے۔ اس کے علاوہ کسی نے کچھ نہ پوچھا۔ یہ میرا ملک ہے۔ مجھے یہ پسند ہے لیکن لوگوں کو ذرا کُھلنا چاہیے۔ اس میں کوئی نقصان نہیں ہے۔’

یہ امید کی جاتی ہے کہ فن لینڈ کے لوگ اپنی پرائیویسی کا احترام کرتے ہوئے چھوٹی موٹی بات چیت شروع کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp