صرف 10 منٹ کی مشق خوشی میں اضافے کی ضامن!


شادمانی

اگر چہ آپ کو ذہنی بیماری کی تشخیص نہیں ہوئی ہے تو بھی روزانہ کا ذہنی تناؤ بہ آسانی آپ کی زندگی سے آسودگی اور اطمینان کو نچوڑ لیتا ہے۔

اس کیفیت سے نکلنے کے لیے شواہد پر مبنی حکمت عملیوں کی کمی نہیں ہے اور ‘مثبت علم نفسیات’ کا نام نہاد سائنسی شعبہ جو اب 20 سال کا ہو چکا ہے وہ آپ کے موڈ کو بہتر کرنے یا طبیعت کو فرحت بخشنے کے بے شمار نسخے پیش کرتا ہے۔

لیکن ان کو اپنی زندگی میں اپنانے کے لیے ہمارے پاس وقت کہاں سے آئے گا؟

سینٹرل لنکاشائر یونیورسٹی کی لکچرر سینڈی مان ایک حل پیش کرتی ہیں۔ کلینیکل علم نفسیات کی ماہر مان اپنے تجربات کی بنیاد پر بعض مشورے دے رہی ہیں جو طبعیت کو شاداں و فرحاں بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

وہ اپنی کتاب ‘ٹین منٹس تو ہیپی نیس’ یعنی شادمانی کی خاطر دس منٹ میں اس کا ذکر کرتی ہیں۔ ان کا پروگرام کسی جرنل یا روزنامچے یا روزانہ کے حساب کتاب کی حیثیت رکھتا ہے جس میں روزانہ کے معمول کو چھ حصوں میں مکمل کرنا ہے۔

  1. آپ کو کون سی چیز خوشی دیتی ہے، خواہ وہ کتنی ہی دنیاوی کیوں نہ ہو؟
  2. آپ کو کس قسم کی تعریف یا رد عمل ملتا ہے؟
  3. انتہائی اصلی خوش بختی کے لمحات کیا تھے؟
  4. آپ کی کامیابی کیا رہیں، خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہوں؟
  5. کس چیز سے آپ کو شکر گزار ہونے کا احساس ہوا؟
  6. آپ نے رحم دلی کا کس طرح اظہار کیا؟

اس پروگرام کو وسیع سائنسی تحقیق کے بعد تیار کیا گيا ہے جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ اگر اس طرح سے آپ اپنے دن کا دس منٹ کے لیے احتساب کریں گے تو دھیرے دھیرے آپ کی ذہنیت بدلے گی اور بالآخر آپ کی زندگی میں زیادہ خوشیاں ہوں گی۔

خوشیاں

اپنی کامیابیوں کو درج کریں خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہوں

جب ہم طبیعت میں پستی اور پژمردگی محسوس کرتے ہیں تو ہم اپنی زندگی میں ہونے والی اچھی چیزوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں لیکن اس جرنل پر عمل کرنے سے وہ چیزیں آپ کی توجہ کے مرکز میں آ جاتی ہیں۔

سینڈی مان کا کہنا ہے کہ اس کے فوائد یکایک آپ کے موڈ کو بہتر نہیں کرتے جب آپ ان کی فہرست بنا رہے ہوتے ہیں بلکہ اپنے پیشتر روزنامچے کو دوبارہ پڑھنے سے آپ کو مستقبل کی مشکلات کا سامنا کرنے میں مدد بھی ملتی ہے۔

ہماری متلازم یادداشت جسے ہم برا احساس یا تاریک موڈ کہہ سکتے ہیں اور جو کسی خراب واقعے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے اس کی وجہ سے ہم دوسرے ناخوشگوار اور تناؤ والے واقعات کو یاد کرنے لگتے ہیں۔ جب کبھی آپ اس سے دوچار ہوں تو اپنے روزنامچے یا جرنل کے اوراق کو پلٹنے سے آپ کو اپنی سوچ کا وہ سلسلہ توڑنے میں مدد ملتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

خوشیوں کے لمحات

’بکریاں مسکراتے چہرے پسند کرتی ہیں‘

دنیا میں سب سے زیادہ خوشی کس ملک میں؟

چھٹا نکتہ آپ کی رحمدلی کی طاقت کے متعلق تحقیق پر مبنی ہے۔ بہت سے مطالعوں میں یہ پایا گیا ہے کہ آپ کے بے غرض اعمال سے نہ صرف آپ کے ارد گرد رہنے والے مستفید ہوتے ہیں بلکہ وہ مسلسل آپ کے موڈ کو بھی بہتر رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی اجنبی کی مدد کے لیے کچھ پیسے خرچ کرنا آپ کو اتنے ہی پیسے خود پر خرچ کرنے سے زیادہ خوشی دیتا ہے۔ اور یہ بات 130 سے زیادہ ممالک میں کی جانے والی تحقیق میں سامنے آئی ہے۔

ان مواقع پر توجہ کو مرکوز کرنے سے آپ کے دل میں گرم احساس پیدا ہوتے ہیں اور آپ دوسرے دن اس قسم کے مزید مواقع کی تلاش میں ہوتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ اپنے دن بھر کی مشغولیات پر دس منٹ کے لیے احتساب کرنے سے کوئی معجزہ نہیں ہوگا لیکن سینڈی مان کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود اگر کوئی یہ محسوس کرے کہ وہ اداسی اور پژمردگی کا شکار ہے تو اسے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ لیکن جو عام طور پر پژمردگی اور تناؤ کا احساس کرتے ہیں اور ان میں کسی مرض کی علامت نہیں ہے انھیں اس حکمت عملی سے فائدہ پہنچے گا اور وہ درست راہ پر ہوں گے۔

اگر آپ کو مان کا طریقہ کار دلچسپ لگا ہے تو آپ بیزاری اور بوریت پر ان کی تحقیق سے بھی محظوظ ہوں گے۔ انھوں نے اپنے بتدریج تجربے میں پایا ہے کہ اکتاہٹ کے مختصر لمہات بہت مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر طلبہ کو کہا گیا کہ وہ فون بک کی کاپی کریں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ جنھیں عارضی اکتاہٹ نہیں ہوتی ہے ان کے مقابلے میں بعد میں وہ طلبہ عام ذہنی مسائل کے زیادہ تخلقیی حل تلاش کر سکیں گے۔ مان کا کہنا ہے کہ بوریت والے کام سے طلبہ کا ذہن ادھر ادھر بھٹکتا ہے اور وہ خیالی پلاؤ پکانے لگتے ہیں جس سے تخلیقی کام کے لیے زیادہ لچکدار سوچ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

مان نے بی بی سی ریل کو بتایا کہ ‘اگر آپ کسی ایک مسئلے پر اٹک جاتے ہیں تو کچھ وقت نکال کر بور ہوں اور پھر آپ پائیں گے کہ آپ کے ذہن میں اس کے تخلیقی حل کلبائیں گے۔’

یہ آج کی زندگی میں بطور خاص زیادہ اہم ہے کیونکہ ہم عام طور پر اپنے خالی ذہن کو مشغول کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘اسے اپنی زندگی میں شامل کرنے کے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی بوریت پر جھاڑو لگنا بند کر دیں۔’

وقت کے ساتھ آپ پائیں گے کہ آپ کی قوت برداشت بڑھ جاتی ہے اور انتظار کا جو وقفہ کبھی آپ کو پریشان و بے چین کر دیتا تھا وہ آپ کو پر سکون رہنے اور تخیل کی دنیا میں جانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

مان نے کہا: ‘یہ عجیب بات ہے کہ بوریت سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی زندگی میں زیادہ سے زیادہ بوریت کو جگہ دیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp