راکشس، ڈپٹی کمشنر، لیڈی ڈیانا، بے نظیر اور پارلیمنٹ


ہفتہ دس دن قبل ایک صاحب تشریف لائے۔ محرم او ر عاشورہ کا ذکر ہوا: ”معلوم نہیں اس دفعہ کا عاشورہ پُرامن کیسے گزر گیا۔ “ موصوف کو تھوڑی دیر تک یاد کرنا پڑا، نو دس محرم کب کتنے دن ہوئے، گزر گئے ہیں۔ تین عشروں کا ماتم ہے، اخبارات و ذرائع ابلاغ نودس محرم کو شہرِآشوب کے بطور ہی بیان کیا کرتے تھے۔ اس دفعہ ایکا ایکی ایسی مثبت تبدیلی آئی کہ کسی اللہ والے پہنچے ہوئے بزرگ نے غالباً چھومنتر کیا کہ 2018ء میں اہل تشیع او ر اہل السنت والجماعت ایسے شیرو شکر ہوئے کہ اچھے بھلے سوجھ بوجھ والے انسان کو دس دن بعد یاد کرنا پڑ رہا تھا کہ عاشورہ گزر بھی گیا؟

سنِ شعور سے لے کر اَسّی کی دہائی تک کبھی سننے پڑھنے میں نہیں آیا تھا کہ عزاداری کے جلوس کو کہیں سے گزرنے میں دشواری ہوئی ہو یا یہ کہ کبھی کسی ایک مکتب فکر کو دوسرے کا وجود، اجتماعی وجود، کہیں کسی بنیاد پر کھلتا دکھائی دیا ہو۔ ادھر اس مرنجان مرنج، صلح کل، محمد خان جونیجو نے حلف برداری سے فراغت حاصل کی اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجیے، معلوم نہیں یک بیک کیا طاعون پھیلا کہ اس کے دور میں عاشورے کے زخموں کے کھرنڈ ہٹنے میں چار چھ ماہ لگ جاتے تھے۔ بے نظیر اور نواز شریف یکے بعد دیگرے دو دو دفعہ دبستان اقتدارمیں داخل ہوئے۔ رسوائی و ناشکیبائی کو نظرانداز تو کرنا ہی پڑے گا کہ دونوں کا ماضی گملے سے عبارت تھا اور مالی کو اختیار حاصل ہوتا ہے کہ گملے میں اپنے لگائے ہوئے پودوں کی تہذیب چھانٹی کرے۔

پر یہ دو پودے جونیجو کے برعکس اپنی جڑیں زمین میں اتنی پھیلا چکے تھے کہ گملے کے پیندے کو توڑ کر ان کی جڑوں نے زمین سے ناطہ استوار کر لیا تھا۔ ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا: ”مالی میں آپ کا دیا ہوا پانی نہیں پیوں گا“۔ یہ دونوں پودے اب اتنے بڑے ہو گئے تھے کہ اپنی غذا زمین سے لینے لگے۔ کوئی دن، کوئی ماہ ایسا نہیں گزرا کہ ادھر کسی شیعہ کا خون زمین نے چکھا تو ہفتے عشرے بعد کوئی سُنی بظاہر انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا۔ ان دونوں کوبھی اپنے اقتدار کے دورانیے میں خونم خون عاشورے کے شہرِآشوب پڑھنا پڑے۔ پھر ایک عقلِ کل تشریف لائے۔ انہوں نے تو، کہ جو انہیں لائے تھے، ان کی جنگ اور آگ خود اپنے گھر لے آئے۔ پھر کیا شیعہ اور کیا سُنی، کیا وہابی دیو بندی اور بریلوی، اب تو اس میدان میں لال مسجد، اکبر بگٹی، شازیہ مری ہی نہیں پورا بلوچستان ثم پورا ملک لہو رنگ ہو گیا۔

ایک محکمانہ حادثے نے اس نوعمر ڈپٹی کمشنرکو اور مجھے ہوٹل کے ایک کمرے میں چند دنوں کے لیے یکجا کر دیا۔ یکجائی اس سے قبل محلے داری کی حد تک تھی۔ عشائیے کے بعد رات گئے جنوری کی طویل سرد راتوں میں سناٹا، چلغوزے اور تنہائی و یکجائی بے زبان ہوتے ہیں۔ نوعمری میں سن و سال تو کم ہوتے ہی ہیں، سوجھ بوجھ اور معاملہ فہمی کے ظرو ف اور پیمانے بھی ابھی غنچے اور پھول کی کسی درمیانی شکل میں ہوتے ہیں۔ ان پیمانوں کی گنجائش سے زیادہ مواد ان میں ڈالا جائے تو چھلکنے میں دیر نہیں لگاتے۔ پینتیس سال کی عمر بھی بھلا کوئی عمرہوتی ہے۔

وہ ڈپٹی کمشنر بولنا شروع ہوا تو بولتا ہی چلا گیا۔ ”پروفیسر صاحب پہلے تو میں نے ۔ ۔ ۔ کے بڑے بلائے انہیں سیدھی طرح رام کرنے کی کوشش کی۔ وہ اڑیل سمجھے کہ اپنے معتقدین کے جلومیں بیٹھے ہیں۔ پینترے بدل کر کچھ کہنے کی کوشش کی، نہ مانے۔ بالآخر دام بنائے کام کو جملے میں استعمال کرتے ہوئے انہیں شاداں و فرحاں رخصت کر کے ان کے مخالف دھڑے کے بڑوں کو بلالیا، وہ میرے اپنے ہم مسلک تھے۔ جلدی اور کچھ کم پر راضی ہو گئے۔ “

انگشت بدنداں پروفیسر کی وہ حالت اسے ماضی میں لے گئی کہ جب وہ اپنے چچا کی بغل میں جنوں اور دیوؤں کی لرزہ براندام کہانیاں سن کر انگشت بدنداں ہو جایا کرتا تھا اور اسی حالت میں سو جاتا۔ پروفیسر بچہ ہوتے ہوئے کچھ نہ سمجھا، نہ کوئی بچہ سمجھ سکتا ہے۔ جن، بھوت، عفریت، بلائیں، دیو، راکشس بھی بھلا کسی کو کبھی نظر آئے۔ پرچچا صدیق منظر کشی ہی کچھ ایسی کرتے کہ راکشس عین چارپائی کے پاس نظر آتا اور میں بوکھلا کر انگلی دانتوں میں دبائے شہزادی ڈیلیا کی طرف دیکھنے لگتا۔ کوئی تین چار عشرے بعد ہوٹل کے اس کمرے میں میری اپنی چارپائی کے پاس دوسری چارپائی پر مجھے اصل راکشس نظر آ گیا تو میں ایک دفعہ پھر انگشت بدنداں ہو کر رہ گیا۔

31 اگست 1997ء کو شام خبرنامے میں لیڈی ڈیانا کی حادثاتی موت کی خبر سنائی گئی تو تب میری کرسی، قدرے چھوٹی کرسی، اب برطانیہ پلٹ چچا صدیق کی بغل ہی میں تھی۔ موت کی خبر سن کرکچھ دیر تو وہ سناٹے کی سی کیفیت میں رہے۔ پھر اٹھ کر باہر لان میں چلے گئے، ٹہلتے رہے۔ واپس آئے تو بچے روز روز کی طرح مچلنے لگے کہ ہمیں آج کسی نئے راکشس کی کہانی سنائی جائے۔ اس رات چچانے عدم توجہی کا سا برتاؤ کیا۔ میری ان کی نگاہیں چار ہوئیں: ”لیڈی ڈیانا کی موت حادثاتی موت نہیں، اسے مروایا گیا ہے۔ وہ ایک پبلک فِگر تھی، اسلام قبول کرنے والی تھی۔ اگر یہ ہو جاتا تو کیمرے کی آنکھ اسی پر رہتی۔ یوں آدھا مغرب چاہتے، نہ چاہتے ہوئے اسلام کا مطالعہ کرنے لگتا۔ “

چچا صدیق کالج کی عمر سے کم گو، متین، بردباد، فلسفی اور کائنات شناس تھے۔ دیکھا اٹھارہ انیس سال کا لڑکا دُور ویرانے میں ایک پودے کو مسلسل گھورے جا رہا ہے۔ قریب جا کر دیکھا توچچا ایک ایسے پودے پر غور کی چادر بچھائے ہوئے ہیں جس کا پھول عام زاویے کے برعکس الٹا زمین کی طرف تھا: ”آؤ آؤ تم بھی دیکھو! میرا خیال ہے، یہ پودا بارگاہ الٰہی میں کسی گستاخی کا مرتکب ہوا ہے۔ اسی وجہ سے مارے شرمندگی کے اس کا پھول آسمان کے رخ پر ہونے کی بجائے زمین کی طرف ہے۔ ادھر ایک ہم انسان ہیں کہ گستاخی، ہجرت، بے دخلی اور بے خانماں ہو کر بھی اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔ تو میاں یہ پودا اچھا ہوا یا ہم انسان؟ “

ماضی کی گرفت سے نکلنا قوموں کے لیے ممکن ہوتا ہے، نہ افراد کے لیے! ”کیا، کس سوچ میں گم ہو گئے؟ ارے پروفیسر صاحب میں نے لیڈی ڈیانا کے قتل پر کچھ بات کی تھی، حسب روایت تم نے میری مخالفت نہیں کی، خیر تو ہے نا آج“؟ میں نے سر کو ایک جھٹکا دیا تو واپس 1997ء میں تھا۔ اب ہم اس شرمسار پودے کے پاس نہیں، ٹی وی کے سامنے بیٹھے تھے۔ ذہن میں کچھ جھماکے سے ہونے لگے۔ بھوت، جن، راکشس، شیعہ سنی، ڈیلیا شہزادی، راکشس، لیڈی ڈیانا، ڈپٹی کمشنر اور پھر راکشس۔

ادھر بچے مچلے جا رہے تھے۔ ”دادا ابو! آج پھر وہی ڈیلیا شہزادی اور راکشس سنائیں گے نا“! چچا مجھ حیرت زدہ کو مستفسرانہ نظروں سے مسلسل گھور رہے تھے۔ ”تو چاچا یہ راکشس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ راکشس! برطانیہ میں بھی ہوتے ہیں؟ “ کچھ خفگی سے گھورنے لگے، کچھ توقف کیا: ”میاں پروفیسر! کیا اتنا اب تک نہیں سمجھ سکے کہ یہ راکشس آئے ہی اُدھربرطانیہ سے تھے۔ چلے جانے کے بعد اپنی مقامی ذریت ادھر ہی چھوڑ گئے، خفا کیوں ہو رہے ہو؟ عشروں بعد بھی یہ راکشس اکیڈمیوں اور اسٹاف کالجوں میں سے اسی طرح انہی خطوط پر ڈھل ڈھل کرنکل رہے ہیں۔ جاؤ اب سو جاؤ“

کوئی ایک عشرہ بعد بے نظیر کو لیاقت باغ میں شہید کیا گیا تو پروفیسر ایک دفعہ پھر ماضی کی گرفت میں تھا۔ پولیس کے لیے ایسے مواقع پر سب سے اہم جائے وقوعہ یا کرائم سین ہوا کرتا ہے جسے کوتوال شہر کی نگرانی میں پانی کی تیز پھوار سے اتنی عجلت میں دھو دیا گیا کہ گویا کسی متعدی مرض کے جراثیم وہاں سے پورے شہر کو لپیٹ میں لے رہے ہوں۔ مزید ایک عشرہ گزرا تو پروفیسر پھر ماضی کی گرفت میں تھا۔ بیٹے کو کبھی ایک دفعہ نصیحت کی تھی: ”بیٹا! کبھی کبھار قرآن پڑھنے میں ناغہ ہو جائے تو حرج نہیں، بلوچستان کے اس ڈپٹی کمشنرکا کالم پڑھنے میں کبھی ناغہ نہ کرنا کہ اس کالم میں قرآن ہی کا پیغام ذرا بلیغ انداز میں ہوتا ہے۔ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام اسلامی قانون کے پروفیسراوردستوری قانون میں پی ایچ ڈی ہیں ۔ گزشتہ 33 برس سے تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔

dr-shehzad-iqbal-sham has 9 posts and counting.See all posts by dr-shehzad-iqbal-sham