عمرمتین کو غصہ کیوں آیا؟


\"usman

کیا اورلینڈونائٹ کلب کے حملہ آورعمر متین نے اسلام کی سربلندی کی خاطر نائٹ کلب میں قتل عام کیا تو اس کا جواب شاید نہیں میں ہو گا۔

افغان نژاد 29 سالہ امریکی شہری عمر متین کے والد میر صدیق کے مطابق ان کے بیٹےنے دو ماہ پہلے میامی میں دو ہم جنس پرستوں کو دیکھا اور پھر غصے میں آ گیا، اس کے عمل کو اسلام سے جوڑنا مناسب نہیں ہو گا۔

عمرمتین کے والد میر صدیق ٹی وی چینل پیام افغان پر ہونے والے ایک پروگرام کے میزبان بھی ہیں، یہ طالبان کے حامی افراد میں شامل ہیں، یہ خود کو افغانستان کا آئندہ منتخب ہونے والا صدر بھی کہلوانا پسند کرتے ہیں

ریاست فلوریڈا میں نائن الیون کے بعد امریکا میں ہونے والا یہ اب تک کا سب سے بڑا حملہ ہے، جس میں 50 سے زائد لوگ جان کی بازی ہارچکے ہیں، اب سے پانچ مہینے پہلے تاشفین ملک اور رضوان فاروق نے کیلی فورنیا کے کمیونٹی سینٹر میں 14 افراد کو قتل کر دیا تھا۔

چار سال پہلے اپنی اہلیہ کو طلاق دینے والے عمر متین نے آخر انتہائی قدم کیسے اٹھا لیا، اہلیہ نے بتایا کہ یہ اسے بہت مارتا تھا، دوستوں کے مطابق جب بیوی اس سے الگ ہوئی تو یہ رفتہ رفتہ مذہب کی جانب مائل ہوتا چلا گیا

\"edit\"داعش عمرمتین کے اس سفاکانہ عمل کو اپنی منصوبہ بندی قراردے چکی ہے تاہم اب تک کی تفتیش کے مطابق عمرمتین کے عمل کی وجہ بظاہر صرف دہشت گردی نہیں ہے، اورلینڈو پولیس چیف کے مطابق یہ Hate Crime بھی ہو سکتا ہے مگر یہاں اشتعال میں آکر انتہائی اقدام اٹھا لینے کا نفسیاتی تجزیہ بہت ضروری ہے تا کہ ہم اس سے محفوظ رہ سکیں۔

پوری دنیا میں ہم جنس پرستی سے اختلاف اور نفرت کرنے والے لوگ موجود ہیں مگر وہ کون سا خیال ہے، جو اس نفرت کو اتنا بھڑکا دیتا ہے کہ انسان قتل عام تک پہ آمادہ ہو جائے۔

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں 17 ماہ میں 45 خواجہ سرا قتل کر دیئے گئے اور تفتیش کے مطابق قتل کی کوئی نہ کوئی وجہ ہم جنس پرستی سے جا کر ملتی ہے۔

پاکستان میں دو برس میں 300 لڑکیاں زندہ جلا دی گئیں اور تفتیش کے مطابق ان جرائم کی وجہ کہیں نہ کہیں غیرت کا معاملہ ہے۔

پوری دنیا میں عدم برداشت کی ہزارہا مثالیں ہیں مگر بدقسمتی سے جب بات مسلمانوں اور خصوصا پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والوں کی آتی ہے تو ان ہزارہا مثالوں میں ہم سرفہرست ہیں، قتل نہیں تو جوتا مار دیا، جوتا نہ مارسکے تو گالی دے دی مگر عدم برداشت کا مظاہرہ ضروری ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق ذہن کی ایک خاص سطح پر جب انسان کوئی فیصلہ کرلیتا ہے، اپنے خیالات کو اٹل، حتمی اور سب سے بالاتر تصور کرنے لگ جاتا ہے تو یہاں مکالمے کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے، اب ایسا انسان پوری دنیا میں اپنے نظریات کا نفاذ چاہتا ہے اور اپنے ہر مخالف کو گالی سے لے کر گولی تک دبانے کی کوشش کرتا ہے۔

پاکستان اور افغانستان میں گزشتہ 30 برسوں سے جیسے حالات ہیں، انہوں نے ایک ایسی پود کو جنم دیا ہے جو خود کو ہر سوال سے ماورا سمجھتی ہے، وہ اپنے علاوہ کسی کو برداشت نہیں کرتے، ان کے نزدیک وہ خود مقدس ہیں، ان کے خیالات تقدیس کے حامل ہیں اور ان کے مخالفین کو زندہ رہنے کا بھی اس لیے حق ہے کہ وہ ان کے قائل ہوجائیں ورنہ انہیں مار دیا جائے گا۔

دنیا مختلف رنگوں کے پھولوں کا ایک خوب صورت گلدستہ ہے، بہت سارے مذاہب اور بہت سارے نقطہ ہائے نظر۔۔۔ ایسے لوگ دنیا کو اپنے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں اور جب ناکام ہوجاتے ہیں تو اسے لہو رنگ کر کے اپنی مایوسی اور بے بسی کا اظہار کرتے ہیں۔

سیکیورٹی گارڈ کی نوکری کرنے ولا عمر متین بھی بظاہر ایسا ہی ایک ٹوٹا ہوا انسان تھا، جس نے اپنے سامنے ہم جنس پرستوں کو دیکھا تو برداشت نہ کرسکا، ہمارے خطے کے سیاسی وسماجی حالات نے لاکھوں عمر متین پیدا کر دیئے ہیں۔

اس سے پہلے کہ کوئی عمر متین آپ کو اختلاف رائے پر قتل کر دے، انتہاپسندی کے اس ذہنی مرض کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments