پسنی کے ساحل آبی حیات کے لئے غیر محفوظ


ایک طرف جہاں پوری دنیا ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لئے نہ صرف سرجوڑ کر منصوبہ بندی کر رہی ہے، بلکہ انہی منصوبوں کو عملی جامہہ پہنانے کے لئے کام کر رہی ہے۔ سمندر کی تہہ میں موجود ملین ٹن پلاسٹک کے تھیلوں اور کچروں کو ٹھکانہ لگانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لے رہی ہے تو دوسری طرف ہم خود اپنی ساحل کو گندا کرنے میں دن رات ایک کر رہے ہیں۔ مکران کے حساس ساحلی علاقوں میں نایاب نسل کے کچھووں کی مردہ حالت میں پایا جانا اب ایک المیہ بن چکی ہے۔

گوادر اور پسنی کے حساس ساحلی علاقے جو کہ میرین لائف کے حوالے سے ملک کے دیگر ساحلی علاقوں کی نسبت محفوظ تصور کیے جاتے ہیں۔ مگر انہی ساحلی علاقوں میں کچھووں کی مردہ حالت میں پایا جانا اس بات کو تقویت دے رہا ہے کہ اب یہ حساس ساحلی خطے کچھووں کے لئے غیر محفوظ علاقے بن گئے۔ پسنی کے ساحلی بیچ ذرین میں نایاب نسل کے گرین ٹرٹل کے مردہ حالت میں ملنے سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اب مسقبل میں یہ ساحلی علاقے سبز کچھووں کے افزائش نسل کے لئے محفوظ نہیں ہوں گے۔

بتایا جاتا ہے کہ اس سے پہلے بھی پسنی کے ساحلی علاقہ ذرین میں گرین ٹرٹل مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔ پسنی کے مقامی فوٹو جرنلسٹ ریحان بزنجو کے مطابق وہ اکثر نیچرل مناظر کی عکاسی کے لئے ذرین بیچ کا رخ کرتے ہیں۔ گذشتہ روز جب وہ ذرین ساحل کے قریب قدرتی مناظر کی عکس بندی کر رہے تھے تو ان کو ساحل کے قریب ایک کچھوا مردہ حالت میں ملا۔ اس سے پہلے بھی ذرین بیچ میں نایاب نسل کے کچھوے مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔

ریحان بزنجو کے مطابق ہوسکتا ہے کہ کچھوے تیزی کے ساتھ پلاسٹک کے جالوں میں پھنس کر موت کے شکنجے میں چلے جارہے ہیں۔ اور ذرین بیچ آبادی سے دور ہونے کی وجہ سے ہر کچھوے کی موت رپورٹ نہیں ہو رہی ہے۔ ماہر حیاتیات گوادر عبدالرحیم بلوچ کے مطابق پسنی کے ساحل ذرین بیچ پر مردہ حالت میں پایا جانا والا کچھوا نایاب نسل کے گرین ٹرٹل سے ہے۔

دوسری جانب حیاتیات کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ کچھووں کی موت کا سب سے بڑا وجہ پلاسٹک کے جالوں میں پھنس جانا اور فوری ریسکیو نہ ہونے کی وجہ سے ہورہی ہے۔ جبکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سمندر میں موجود پلاسٹک کے تھیلوں کو کچھوے جیلی فش سمجھ کر کھاتے ہیں جو کہ ان کی معدے میں پھنس جانے سے موت کے سبب بن سکتے ہیں۔

تشویش ناک امر یہ ہے کہ میرین لائف کے حوالے سے حساس ساحلی زون میں نہ صرف ماہی گیر شکار کرتے ہیں بلکہ پلاسٹک کے جالوں کو انہی ساحلی علاقے میں پھینک کر چلے جاتے ہیں۔ جبکہ پسنی کے ساحلی خطے میں ساحل کنارے گندگی کے ڈھیر بھی سمندری حیات کی موت کا باعث بن رہے ہیں۔

پسنی کےانہی ساحلی علاقوں کو کچھووں اور آبی حیات کے لئے ماضی قریب میں محفوظ زون تصور کیا جاتا تھا۔ اب چونکہ یہاں وقتا فوقتا گرین ٹرٹل کی مردہ حالت میں پائے جانے سے یہ تاثر مل رہی ہے کہ اگر پسنی کے ساحلی علاقوں میں معدوم ہونے والی سمندری حیات کے تحفظ کے لئے اقدامات نہیں کیا گیا تو وہ وقت بھی دور نہیں ہوگا جب یہاں کے ساحلی خطے میں نایاب نسل کے سمندری حیات مکمل طور پر معدوم ہوگی یا یہاں سے نقل مکانی کرکے کسی اور محفوظ ساحلی خطے کا رخ کریں گے۔

”ذرین بیچ“ کو ماضی میں اس لئے سمندری حیات کے لئے محفوظ زون تصور کیا جاتا رہا کہ یہاں قرب و جوار میں کوئی آبادی موجود نہیں ہے۔ جبکہ سیاحوں کی آمدورفت اور ماہی گیروں کی جانب سے پلاسٹک کے جالوں کی ساحل پر پھینکنے سے اب ذرین بیچ پر میرین لائف شدید خطرات سے دوچار ہوچکی ہے۔ جبکہ مقامی انتظامیہ کی لاپرواہی سمجھ لیں کہ وہ میرین لائف کے تحفظ کے لئے کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں جس سے نہ صرف ساحل ایک کچرا دان بن چکا ہے بلکہ نایاب نسل کے کچھوے بڑی تیزی کے ساتھ ختم ہورہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ماحولیات پر کام کرنے والے اداروں کو چاہیے کہ وہ میرین لائف کے حوالے سے حساس ساحلی علاقوں میں اپنا کام دوبارہ شروع کرکے مقامی لوگوں کو شعور فراہم کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).