ڈھکّن بننے کا نہیں ہے


”تو وہ بھی ڈھکّن ہوگیا بالکل ڈھکّن! “ امین زور سے ہنسا، پھر ہنس ہنس کر بولنے لگا تھا۔
یہ اس کی پرانی عادت تھی جب کبھی بھی کوئی بات ایسی ہوتی جو خراب ہوتی، کوئی ناکامی، کوئی گھٹیا حرکت کوئی عجیب بات، کوئی بے کار کام، اس کے لیے ڈھکّن بن جاتی۔ ایک طرح سے یہ تکیہ کلام تھا اس کا۔

میں امین سے ملنے آیا تھا۔ وہ چودہ سال کے بعد امریکہ سے آیا تھا۔ ایسا گیا، ایسا گیا کہ اس دوران پھر واپس ہی نہیں آیا۔ آج تک پتہ نہیں لگا کہ وہ کیوں چلا گیا تھا۔ ان لوگوں کا بہترین کاروبار تھا کراچی میں۔ کیا نہیں تھا ان کے پاس۔ دولت، عزت، باپ کا جمایا ہوا بہترین کاروبار اور تین جڑے ہوئے بھائی، چلتا ہوا کام مگر ہم لوگوں کوتو یکایک پتہ لگا کہ پورا خاندان کراچی چھوڑ کر چلا گیا ہے۔

امین میرا بچپن کا دوست تھا۔ ساتھ ساتھ اسکول گئے پھر اسکول سے انٹر تک تو ساتھ رہے مگر انٹر کے بعد ہمارے راستے جُدا ہوگئے۔ میرا داخلہ میڈیکل کالج میں ہوگیا، کچھ دوست انجینئرنگ کالج یا پولی ٹیکنک چلے گئے اور امین نے باپ کے ساتھ کام سنبھال لیا۔

بنیادی طور پر ان لوگوں کا کام کپڑے کا تھا، اسٹاک ایکسچینج میں کچھ دھندا، بڑا بھائی موٹرسائیکل، رکشا اور موٹر پارٹس کے دھندے میں تھا اور ساتھ ہی یہ لوگ اسکریپ کا کام بھی کرتے تھے۔ صبح سے شام تک محنت اور جو کمانا اس کو کام میں لگانا۔ ساتھ میں بہت سے لوگوں کی مدد بھی کرتے تھے۔

مجھے ذاتی طور پر پتہ تھا کہ سول ہسپتال میں امین کے گھر والوں کی طرف سے ہر سال غریب مریضوں کے لیے لاکھوں روپوں کی دوائیں دی جاتی تھیں۔ سارا رمضان حقداروں کو کپڑے دیے جاتے۔ ایک بقرعید کا تو مجھے بھی یاد ہے کہ ان کی سائٹ کی فیکٹری میں میں امین کے ساتھ چلا گیا تھا۔ گھر کے مختلف افراد زندہ مردہ کے نام سے ستائیس بکرے ذبح کیے گئے تھے۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ وہ لوگ گائے کی قربانی نہیں کرتے ہیں۔ ان ستائیس بکروں میں سے تین بکروں کا گوشت ان کے گھروں پر گیا اور سارا گوشت بنارس کالونی، پٹھان کالونی اور اورنگی میں حقداروں کے درمیان بانٹ دیا گیا تھا۔

اوپر والا بھی ان پر بڑا مہربان تھا۔ جتنے دیالو یہ لوگ بنے، اوپر والا بھی ان کو اسی طرح سے دیتا رہا۔ سائٹ اور لانڈھی میں ان کی فیکٹریاں تھیں، میکلوڈ روڈ کی پوری بلڈنگ تھی جہاں انکل کا آفس تھا اور یہ تینوں بھائی بھی اکثر و بیشتر وہاں بیٹھتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ کام بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔

اسکول کے زمانے سے میرے تعلقات ہوگئے تھے ان لوگوں سے۔ انکل میرا بھی اتنا ہی خیال رکھتے تھے جتنا امین کا۔ ہماری راہیں بدل گئی تھیں مگر دوستی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ ڈاکٹر بن کر میں لندن چلا گیا جہاں سے میں نے ایم آر سی پی کیا تھا، چھ سال وہاں رہا مگر ہر سال اور کبھی سال میں دو دفعہ کراچی آیا کرتا۔ گھر والوں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ امین کے گھر میں بھی گھر سا ہی آنا جانا ہوگیا تھا میرا۔

امین کے بڑے بھائی رشید کی شادی تو اس وقت ہوگئی جب میں فائنل ایئر میں تھا اور ہاؤس جاب ختم ہونے کے بعد امین کے دوسرے بھائی علی کی شادی ہوگئی تھی۔ ان سب شادیوں میں شریک ہی نہیں تھا بلکہ گھر کے فرد کی طرح شامل ہوا تھا۔ میں لندن جا کر پارٹ ون کا امتحان پاس کرنے کے بعد امین کی شادی میں شرکت کرنے خاص طور پر آیا تھا۔

جب بھی آتا یہ دیکھ کر بہت ہی خوشی ہوتی کہ امین کے گھر والوں کا کاروبار بڑھتا پھیلتا اور پھولتا ہی چلا جارہا ہے اور اچھی بات یہ تھی کہ کاروبار میں زبردست ترقی کے باوجود گھر کے افراد کے سروں پر غرور کا کوئی پھوڑا نہیں نکلا اور نہ ہی کسی کے گردن میں سلاخ جیسی اکڑن آئی تھی۔ وہ سارے کے سارے اپنے والدین کی ہی طرح سے سادہ، شریف تھے اور حد درجہ کم مائیگی کا اظہار کرتے تھے۔

ایسے سیٹھ کم ہوتے ہیں مگر کچھ میمن لوگوں کو میں نے ایسا ہی دیکھا۔ ماں باپ کے کاروبار کو شرافت سے، بزرگوں کے اصولوں کے مطابق چلانا، کسی کالے کام میں نہیں پڑنا، نماز روزہ، خیرات و زکواۃ، حج و عمرہ یہ سب کچھ ان کی زندگی کا حصہ تھا اور ساتھ ہی کاروبار میں محنت بھی بے انتہا۔

مجھے یاد ہے کہ امین کے والد نے ایک دفعہ مجھے بتایا تھا کہ ان کو بہت موقع ملا کہ وہ بلڈنگ اور کنسٹرکشن میں پیسہ لگائیں۔ منافع اتنا ہے اس کام میں کہ راتوں رات لکھ پتی، کروڑ پتی بن جاتا ہے آدمی۔ مگر میں نے اس کام میں ہاتھ نہیں لگایا۔ کوئی بھی اچھا میمن اس کام میں نہیں ملے گا۔ سارے دو نمبر لوگ جن کے ماں باپوں نے اپنی زندگی میں دو نمبر کام کیے اور دو نمبر پیسوں سے ہی آگے بڑھے اور بہت بڑھ گئے دوسروں کا پیسہ کھا کر، بیواؤں کی زمین دبا کر، یتیموں کے مکانات پر قبضہ کرکے، ایمنٹی پلاٹ خرید کر، پیسے کھلا کھلا کر، کمرشل بلڈنگیں کھڑی کردیں اور اِدھر سے اُدھر ہوگئے۔

” ہِٹ اینڈ رن یہ ہے بیٹا ان کا اصول، مگر حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ “ پھر انہوں نے کئی مثالیں دی تھیں کس طرح سے آسانی سے آیا ہوا روپیہ خاندانوں کو برباد کرگیا ہے۔ بیٹیاں ڈرائیوروں کے ساتھ بھاگ گئیں، بھائیوں بھائیوں میں جھگڑا ہوگیا، یہاں تک کہ بعض دامادوں نے گھر پر اور کام پر قبضہ کرلیا۔ بات یہ ہے کہ اگر کام میں کوئی اصول نہیں ہوگا تو پھر زندگی میں بھی کوئی اصول نہیں ہوگا۔ بچّے سب کچھ دیکھتے ہیں اور جہاں پر والدین بے اصولی، بے ایمانی، جھوٹ، دھوکہ سے کاروبار پہنچاتے ہیں اس جھوٹ، بے ایمانی، دھوکہ سے بچّے کام شروع کرتے ہیں۔ روپے ان کے پاس ہوتے ہیں، سکون ہی نہیں ہوتا ہے بیٹا۔

یہ بات تو ان کی صحیح تھی اور ان کے بتائے ہوئے خاندانوں کو میں نے خود بھی اپنی آنکھوں سے کراچی شہر میں ہی دیکھ لیا تھا۔ بڑے بڑے گھر، لمبی لمبی کاریں، اونچے اونچے آفس، شان ایسی کہ ہر کوئی دیکھے لیکن اس کے پیچھے بڑی کہانیاں تھیں، بے سکونی تھی اور پارے کی سی بے قراری، سماج میں ان کی حیثیت کچھ نہیں تھی، بظاہر لوگ واہ واہ کرتے اور پیچھے ایک آدمی بھی عزت نہیں کرتا تھا۔ امین کے گھر والوں کی بڑی عزت تھی۔ بڑا نام تھا کہ عزت دار لوگ بھی ایماندار بھی کاروباری بھی، کراچی کے پرانے پارسیوں جیسے۔

میرے لندن سے آنے کے دو سال کے بعد امین کے والد کی موت واقع ہوگئی۔ یکایک دل کا دورہ پڑا تھا انہیں۔ وہ لوگ انہیں لے کر ہسپتال پہنچ بھی گئے تھے مگر شاید وقت نکل چکا تھا، انہیں بچا نہیں سکے ہم لوگ۔ حالانکہ سترّ سال کی عمر بھی کیا ہوتی ہے۔ خاص طور پر ایسا آدمی جو جسمانی طور پر باعمل ہو۔ وہ روزانہ شام کو گھر کے بڑے سے لان پر چلا کرتے۔ پانچ وقت کی نماز پڑھتے جس میں سے دو وقت پابندی سے مسجد چل کر جاتے۔ مجھے اس وقت اندازہ ہوگیا کہ کراچی کے ڈاکٹروں کی تعلیم اور تربیت میں کتنی کمی ہے۔ اس عمر کا آدمی لندن میں دل کے دورے کے بعد اگرہسپتال پہنچ جائے تو وہ مرتا نہیں ہے۔ وہ مر ہی نہیں سکتا ہے۔ جدید طبی سہولتیں اسی کو کہتے ہیں۔

جب میں اسکول میں تھا تو امین لوگ کھارادر میں رہتے، میرے میڈیکل کالج کے زمانے میں ان لوگوں نے سندھی مسلم سوسائٹی میں ایک بڑا سا مکان لے لیا تھا، یہ دو بڑے پلاٹوں کو ملا کربنایا گیا تھا جہاں امین اپنے دونوں بھائیوں اور ماں باپ کے ساتھ رہتا تھا۔

انکل کی موت کے بعد بھی ان لوگوں کے کاروبار کے انداز میں کچھ فرق نہیں پڑا تھا اورمیں نے تو یہی دیکھا کہ کاروبار بڑھتا ہی چلا جارہا ہے مگر یکایک ایک دن مجھے امین نے بتایاکہ ان لوگوں نے سارا کاروبار وائنڈ اپ کردیا ہے اورسارا خاندان امریکہ جارہا ہے جہاں کا کاروباری ویزا ان کومل گیا ہے اور وہ اب اٹلانٹا میں رہیں گے۔

مجھے بہت افسوس اور دکھ ہوا تھا۔ افسوس اس بات کا کہ یہ لوگ کراچی چھوڑ کر جارہے تھے اور دکھ اس بات کا کہ آج تک پتہ نہیں لگاکہ یہ لوگ کیوں جارہے ہیں۔ آخر بھرا پُرا کاروبار چھوڑ کر، دوست عزیز، رشتہ دار چھوڑ کر، امین نے مجھے بھی کچھ نہیں بتایا تھا، صرف یہی کہا تھا کہ ایک دن ضرور بتاؤں گا۔

پھر وہ لوگ چلے گئے۔ شروع میں کچھ خط آتے رہے پھر فون پر سلسلہ چل نکلا اور گذشتہ چودہ سالوں میں فون پر ہی ہم لوگوں کا رابطہ تھا۔ آج وہ چودہ سال کے بعد کراچی پہنچا تواس نے بتایا کہ وہ لوگ کراچی کیوں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2