وزیرے چنیں


\"Zamanگئے دنوں ایران میں ایک نائی رہتا تھا۔ استرے کا مولا۔ فنِ دلاکی میں طاق۔ قدرت نے اس کے ہاتھ اک اور ہنر یہ رکھا کہ وہ ازکار رفتہ اذہان کی صفائی دھلائی کے فن میں بھی کامل تھا۔ لوگ پرانے، بیکار، بوسیدگی سے اٹے اذہان اس کے حضور لاتے۔ وہ بعد از حجامت انکے کاسئہ سر سے دماغ نکالتا، اچھی طرح کھنگالتا، اجالتا، زنگ رفع کرتا، تیل گریس وغیرہ دے دلا کر دوبارہ سے زیرو میٹر کردیتا۔ یوں لوگ مستقل دماغی شباب میں تھے۔ کرنا قدرت کا یہ ہوا کہ ایک وزیر با تدبیر جو اپنی کہنہ سالی کے باعث خرد سے اجازت کے قریب تھا، اس تک اس نائی کا چرچا پہنچا۔ وزیر تھا تو پرلے درجے کا ہشیار، شاہ کا وفادار اور زبان دراز۔ اور امور سلطنت میں شاہ کی توقعات سے بڑھ کر کامران۔ تاہم اس نے سوچا کیوں نہ نائی سے دماغ کو تیل پانی دلوا لوں تاکہ شاہ اور سلطنت کی خدمت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رہے۔ استعداد کار میں اضافہ ہوگا۔ مخالفین کا ناطقہ بھی بطریق احسن بند ہو پائے گا۔ اسی نیک نیت سے وہ نائی کے پاس گیا اور کاسئہ سر کی صفائی کا عندیہ دیا۔ حکم بجا لاتے ہوئے نائی نے کھرچ کھرچ کے کھوپڑی سے دماغ باہر نکالا اور لگا جھاڑجھنکار کرنے۔ ابھی دماغ کی مکمل صفائی ہونا باقی تھی کہ اک خواجہ سرا ہانپتا کانپتا ادھر جا پہنچا اور وزارت پنہ کو شاہ کا سندیسہ دیا کہ حضور ابھی کے ابھی یاد فرماتے ہیں۔ وزیر با تدبیر سرعت سے اٹھے کہ یہی تقاضائے وفاداری تھا اور دربار کی اوڑ بھاگ لیے۔ تاہم اس افراتفری میں کاسئہ سر میں دماغ کی دوبارہ سے فٹنگ کروانا بھول ہی گئے۔ اور بے دماغے بادشاہ کے حضور جاپیش ہوئے۔

دو اک روز تک تو وزارت پنہ مع کارہائے مملکت بغیر دماغ کے بخوبی چلتے رہے۔ عوام کو ان کی کھوپڑی سے دماغ غائب ہونے کا شبہ ہونے کی کوئی وجہ بھی نہیں تھی۔ خود وزیر باتدبیر کو بھی اوپری منزل خالی ہونے سے چنداں فرق نہ پڑا۔ تاہم اچانک ہی ایک روز خیال آیا کہ ہم نائی کو دماغ بغرضِ صفائی دے کر آئے تھے۔ اس حرامخور نے کھوپڑی میں پھر سے رکھا ہی نہیں۔ کاروبار سلطنت کا تو خیر کچھ نہیں بگڑنے والا البتہ کاسئہ سر کا خالی خولی یوں لیے پھرنا بھی دانشمندی تو ہر گز نہیں۔ اسی خیال سے نائی کے پاس جا دھمکا اور دماغ کی حوالگی کا مطالبہ داغا۔ نائی سخت گھبرایا۔ دماغ غائب تھا۔ نائی نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ دماغ بعد از ٹیوننگ یہیں کہیں رکھا تھا کہ وزارت پنہ کا کوئی ہرکارہ آئے تو لے جائے۔ مگر برا ہو ہمسائے کی آوارہ منش بلی کا۔ کل آئی اور اپنا بھوجن جان کر اڑا لے گئی۔ جان کی امان چاہتا ہوں۔ اگر دماغ اتنا ہی ضروری خیال کرتے ہیں تو اور کئی حیوانوں کے دماغ آئے پڑے ہیں۔ ان کو تو بالکل بھی ضروت نہیں ہوتی۔ آپ فرمائیے انہی میں سے کوئی ایک آدھ آپکے لگا دوں؟؟؟

وزیر نے سوچا دماغ سے ہمارا کیا لینا دینا۔ سارے کام تو زبانی بلکہ چرب زبانی سے ہوتے ہیں۔ اگر اوپری منزل میں بھرتی ہی مقصود ہے تو کوئی بھی وزنی چیز چلے گی۔ لہٰذا وزارت پنہ کی اجازت پاکر نائی نے ان کی کھوپڑی میں ایک منہ زور بیل کا دماغ فٹ کر دیا۔

بادشاہ، عوام اور اپوزیشن نے دیکھا کہ وزارت پنہ فراست، دانش، کاروبارسلطنت اور زبان و بیاں میں پہلے سے بڑھ کر متحرک اور جاندار ہو گئے۔

صاحبو! بخدا ہمارا مقصد و منشا خواجہ آصف کے کاسۂ سر کے اندرون سے متعلق شکوک کا اظہار نہ ہے۔ نہ ہی ہمیں یہ شبہ ہے کہ امورِ سلطنت میں کسی دماغ کا دخل ہے۔ ہم تو ان کی شیریں سخنی کے مشتاق ہیں۔

سنا ہے بولے تو باتوں سے\” اول فول\” جھڑتے ہیں۔

ہم جو حظ خواجہ موصوف کی زبان سے اٹھاتے ہیں وہ ساری پارلیمنٹ کی کوفت پر حاوی ہے۔ عمران خان نے کنٹینر سے جو للکارا تو اس کا شافی جواب موصوف نے پارلیمنٹ میں دیا۔ بعض بدخواہوں کا اصرار ہے کہ خواجہ صاحب بولنے سے قبل اک لمحہ سوچنے میں ضائع نہیں فرماتے کہ

سوچیں پیا تے بندا گیا

ہمیں لگتا ہے کہ حضرت بول چکنے کے کئی کئی گھنٹے بعد بھی نہ سوچتے ہوں گے کہ جوش خطابت و خوشامد میں کیا کیا پھلجھڑیاں چھوڑ آیا ہوں۔

ہمارا اصرار ہے خواجہ صاحب کو بلبل پارلیمنٹ کا خطاب دے دیا جائے۔ ویسے آواز کی مناسبت سے ہابیل و قابیل کے زمانے کے کسی سیانے کا خطاب دے دیا جائے تو قرینِ حال ہوگا۔

بھائیو یقین مانیو ہم خواجہ اور خواجہ سرا کے تکنیکی فرق سے بخوبی آگاہ ہیں۔ مگر اگر خواجہ موصوف یونہی دھڑلے سے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے تو ہم خلق خدا کا منہ نہ پکڑ سکیں گے۔

ہم خدام اعلٰی کے حضور بھی عرض گذار ہیں کہ

مشکلوں سے کمائی گئی حکومت کی نیک نامی کو موصوف بٹا لگانے پر تُل گئے ہیں۔ پہلے عابد شیر علی نے میدان مار رکھا تھا۔ پھر دانیال عزیز نے چار انچ کی زبان کے بل پر ملک میں خوشحالی کا سنہرا دور جاری کیا۔ طلال چودہری نے تو ترقی و خوشحالی سے جلنے والوں کو مستقل دھونی دے رکھی تھی۔ زعیم قادری اور رانا ثناءاللہ تو خیر فنِ کلامی بلکہ بدکلامی میں ثانی نہیں رکھتے۔

ہمارے ایک دوست واپڈا میں ہوتے ہیں۔ فون پر چہک رہے تھے کہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی بجلی میں تعطل آنے لگا تھا۔ قریب تھا کہ عوام کا طوفانِ بدکلامی امڈ آتا، خواجہ صاحب بیچ میں آگئے، زبان بہک گئی یا بہکائی گئی۔ گذشتہ دو روز سےعوام کو ہم واپڈا والے یاد بھی نہیں۔

سوال۔ مذکور وزراء میں کس کی استعدادِ زبانی کلامی قابلِ رشک ہوگئی ہے اور کیوں؟ حساب لگا کر بتاؤ یا حکایت پڑھ کر۔

نوٹ۔ وزیرے چنیں ن م راشد کی نظم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments