جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے



ان دنوں ورلڈ میڈیا پر جمال خشوگی کی خبر مسلسل سننے کو مل رہی ہے۔ جمال خشوگی مسلسل خبر کی سرخیوں میں اس لئے ہیں کہ جب سے وہ استنبول میں واقع سعودی قونصل خانہ میں داخل ہوئے ہیں تب سے ان کا کوئی اتا پتانہیں مل پا رہا ہے۔ پہلے تو شک کی سوئی جمال خشوگی کو اغوا کرنے کے ارد گرد گھوم رہی تھی۔ پھر اچانک ترکی پولیس نے جمال خشوگی کے قتل ہونے پر شک ظاہر کیا۔ لیکن آخر کار سعودی حکومت نے اس کا اعتراف کر ہی لیا کہ جمال خشوگی قونصل خانہ میں مارپیٹ کے دوران قتل کردیے گیے۔

28ستمبر2018 کو جمال خشوگی استنبول کے سعودی قونصل خانے میں اپنے کاغذات جمع کروانے گیے تھے۔ ان کاغذات میں درج تھا کہ انہوں نے طلاق لے لی ہے اور وہ اپنی ترکی منگیتر سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ سعودی قونصل خانے نے جمال خشوگی کو 2 اکتوبر کودوبارہ آنے کا مشورہ دیا۔ جمال خشوگی کی منگیتر نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا ہے کہ جمال خشوگی کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں جانے سے کوئی خوف نہیں تھا کیوں کہ وہ استنبول میں خود کو محفوظ سمجھ رہے تھے۔ انہوں نے اپنے دوستوں کو یہ بھی بتایا کہ جب وہ پہلی بار قونصل خانہ گیے تو ان کا پر جوش استقبال کیا گیا تھا۔

اسی دوران جمال خشوگی نے اپنی منگیتر کو موبائل فون دیا اور تاکید کی کہ اگر میں واپس نہ آیا تو ترکی صدررجب طیب اردگان کے صلاح کار کو فون کرلینا۔ جمال خشوگی کی منگیتر دس گھنٹے تک سعودی قونصل خانے میں انتظار کرتی رہی۔ جمال خشوگی جب قونصل خانہ سے واپس نہ ہوئے تو ان کی منگیتر نے دوسرے روز بھی باہر کھڑے ہو کر انتظار کیا۔ اسی کشمکش کے دوران ترکی پولیس نے معاملے کی انکوائری شروع کردی۔

20 اکتوبر2018 کو سعودی عرب کے قومی ٹیلی ویژن پر اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ جمال خشوگی استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں مار پیٹ کرتے ہوئے مارے جاچکے ہیں۔ اس معاملے کی تفتیش جاری ہے اور اب تک اٹھارہ لوگ گرفتارکیے جاچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈپٹی انٹلی جنس چیف احمد الا اسیری اور شہزادہ سلمان کے قریبی سعود الا ا قہتانی کو بر طرف بھی کر دیا گیا ہے۔
ترکی حکام اور سیکورٹی فورس نے دعویٰ کیا ہے کہ آڈیو اور ویڈیو ٹیپ سے پتہ چلتا ہے کہ جمال خشوگی کو سعودی ایجنٹ نے قونصل خانے کے اندر مار پیٹ کے بعد قتل کر دیا۔

ترک میڈیا نے اس بات کا انکشاف بھی کیا ہے کہ جس دن جمال خشوگی کا قتل ہوا ہے اسی دن سعودی کے خصوصی جہاز سے نو(9) لوگ استنبول آئے تھے اور باقی دیگر بعد میں کسی دوسرے ہوائی جہاز سے استنبول پہنچے تھے۔ یہ تمام لوگ قونصل خانے کے قریب ہی ایک ہوٹل میں قیام پذیر تھے۔ ان تمام راز کا پتہ مختلف سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنے کے بعد لگایا گیا ہے۔ جانچ میں یہ بھی پایا گیا ہے کہ یہ تمام لوگ قونصل خانے میں ایک کالی رنگ کی بڑی گاڑی میں سوار ہوکر داخل ہوئے تھے اور پھر یہ گاڑی سعودی سفیر کے گھر بھی گئی تھی۔ یہ تمام لوگ اسی دن سعودی عرب واپس بھی ہوگیے تھے۔ ترکی میڈیا نے دعوی کیا ہے کہ اس پورے معاملے کو پندرہ سعودی ایجنٹ نے مل کر انجام دیا ہے۔ ان میں سے چار سعودی شہزادہ سلمان کے قریبی مانے جارہے ہیں۔

اب اگر ان باتوں کو بس یونہی دیکھا جائے تو تھوڑی دیر کے لیے یہی لگتا ہے کہ ایک شخص جمال خشوگی جو سعودی قونصل خانے میں اپنے کسی نجی مقصد کے لیے آیا تھا اس کا قتل کردیاگیا۔ لیکن قتل کا معاملہ اتنا سیدھا بھی نہیں ہے کہ اسے محض ایک قتل مان لیا جائے۔ کیونکہ جمال خشوگی کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ ایک معروف صحافی تھے۔ جن کی پیدائش سعودی عربیہ میں ہوئی تھی۔ ایک عرصے تک سعودی حکمرانوں کے قریب رہنے کے بعد وہ اپنی جان کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے ملک سے فرارہوکر امریکہ میں پناہ گزیں ہوئے تھے۔ امریکہ کا معروف اخبار‘ واشنگٹن پوسٹ‘ میں انہوں نے اپنی صحافت کا دور دوبارہ شروع کیا اور اپنے کالم کے ذریعہ گزشتہ سال سے سعودی حکمرانوں پر تنقید کرتے رہے۔ ان کا آخری کالم ”a call for press freedom across the Arab world“ تھا۔ اس کے علاوہ بطور صحافی سعودی عربیہ کے مختلف اخبارات اور میگزین میں جمال خشوگی کے مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔

جمال خشوگی کی پیدائش8 195 کو مدینہ میں ہوئی تھی۔ امریکہ کے انڈیانا یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن سے انہوں نے ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد سعودی عرب لوٹ کر انہوں نے بطور صحافی اپنے کئیریر کا آغاز کیا۔ ابتدائی دور میں انہوں نے افغانستان پر سویت یونین کے قبضے کے حوالے سے کافی مضامین لکھے۔ جمال خشوگی نے 1980 سے 1990تک مرحوم اسامہ بن لادن کا تعاقب کر کے ان سے کئی انٹرویو زبھی لیے تھے۔ 1990میں انگریزی اخبار‘ عرب نیوز پیپر‘ کے ڈپٹی ایڈیٹر بنائے گیے۔ 2003میں جمال خشوگی کو‘ الوطن‘ اخبار کا ایڈیٹربھی مقرر کیا گیا تھا لیکن دو مہینے بعد ہی مذہبی تنصیب پر تنقید کی وجہ سے انہیں بر طرف کر دیا گیا۔ اس کے بعد جمال خشوگی لندن میں رہنے لگے اور پھر واشنگٹن چلے گیے۔ جمال خشوگی نے 2011میں عرب اسپرنگ کی تحریک میں اسلام نواز پارٹیوں کی حمایت بھی کی تھی۔

2017میں شہزادہ محمد بن سلمان کے رویے سے جمال خشوگی کافی پریشان رہنے لگے اور آخر کار اسی خوف سے کہ انہیں اوروں کی طرح گرفتار نہ کر لیا جائے، وہ امریکہ میں جا کر پنا گزیں ہوگیے۔ جمال خشوگی نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھاتھا کہ‘ ’میں نے سعودی عرب مجبوری کی وجہ سے چھوڑاہے“۔ جمال خشوگی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنا گھر، خاندان اور نوکری بحالتِ مجبوری چھوڑ دی تھی کیونکہ اگر وہ ایک قیدی ہوجاتے تو وہ اپنی آواز لوگوں تک شاید کبھی نہ پہنچا پاتے۔ جمال خشوگی نے یہ بھی لکھا ہے کہ مجھے افسوس ہے کہ“ سعودی عرب اب ویسا نہ رہا جس کی ہم سب تمنا کررہے ہیں۔ ہم سعودی عرب کے خیر خواہ ہیں“۔ جمال خشوگی کا آخری کالم گیارہ ستمبر کو واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا تھا۔ جس میں انہوں نے یمن پر مسلسل حملے کے لیے سعودی حکومت کو نشانہ بنا یا تھا۔ اس کے بعد 5اکتوبر2018 کو واشنگٹن پوسٹ نے جمال خشوگی کے نام سے ایک خالی کالم شائع کیا جو شاید جمال خشوگی کے لیے منفرداحتجاج تھا۔

امریکہ نے اس معاملے میں اپنا موقف صاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر سعودی حکمراں ملوث پائے گیے تو انہیں سزا دی جائے گی۔ لیکن شاید امریکی صدر سعودی حکمرانوں کے ساتھ رقص و سرود کو ابھی تک نہیں بھول پائے ہیں اسی لیے اب تک وہ دو رخی بات کر رہے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ سعودی عرب امریکہ کے اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے تو امریکہ کیسے اپنی مساواتی پالیسی اور پریس کی آزادی کو مد نظر رکھتے ہوئے سعودی عرب کے خلاف فوراً کارروائی کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ، فرانس اور دیگر طاقتور ممالک نے احتجاج تو کیا ہے لیکن کارروائی نام کی کوئی چیز اب تک نہیں سامنے نہیں آسکی ہے۔ تاہم اگر یہ معاملہ ایران یا کسی اور ممالک کا ہوتا تو پھر آپ دیکھتے کہ کیسے انکوائری مکمل ہونے سے پہلے امریکہ اور ان کے حمایتی اس کو تہس نہس کر دیتے اور اپنا سینہ ٹھوک کر دنیا بھرمیں اپنی رواداری اور قابلیت کا لوہا منواتے پھرتے۔

جمال خشوگی کی موت نے دنیا کی صحافت کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کیاہے کہ اب بھی صحافت کا گلا کہیں اور کسی بھی وجہ سے گھونٹا جا سکتا ہے جو کہ ایک تشویش ناک بات ہے۔ میں بھی ہر ہفتے کالم لکھتا ہوں اورمجھے بھی اس بات کی فکر ہے کہ اگرہم نے بھی قلم جبر، ظلم، زیادتی یا اثر ورسوخ کے خلاف اٹھایا تو کیا ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوگا؟ میں جمال خشوگی کے بہیمانہ قتل پر سخت احتجاج کرتا ہوں اور اقوامِ متحدہ سے اس بات کی مانگ کرتا ہوں کہ قاتلوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ قلم اٹھانے والوں کو ڈرا دھمکا کر عوام کی آواز نہ دبائی جا سکے۔ ہم اس بات کا وعدہ کرتے ہیں کہ ہم بنا کسی خوف اور ڈر کے اپنے قلم کو عوام کی آواز بنا کر لکھتے رہیں گے تا کہ انسان کو آزادانہ طور پر جینے کا حق ملتا رہے اور اس سے اس کی آزادی نہ چھینی جائے۔ میں فیض احمد فیض کے اس شعر سے اپنی بات ختم کرتا ہوں۔

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).