نیا پاکستان اور تبدیلی کے مظاہر


میرے عزیز ہم وطنوں:یہ نیا پاکستان ہے۔ وہ پاکستان کہ جس میں تبدیلی آئی نہیں، بلکہ آگئی ہے۔ یہ روحانی پاکستان ہے۔ انوار و تجلیات کی بارشیں برس رہی ہے۔ مشرق سے مغرب تک ایک عجب سا سماں ہے۔ ہر کوئی جھوم رہا ہے۔ سب مدہوش ہیں۔ مگر کیا کیا جائے۔ اب بھی بعض لوگ ایسے ہیں کہ جن کو ابھی تک نئے پاکستان میں تبدیلی نظرہی نہیں آرہی۔ اگر تبدیلی کو دیکھنا چاہتے ہو، تو تعصب کی عینک کواتاردو۔ باقی سب کچھ چھوڑکرروحانیت کا لباس پہن لو۔ ویسے آج کل سردی کا موسم ہے، اگرچادریا کمبل لینا ہو تواس کوبھی روحانی ہونا چاہیے۔ میں تو کہتا ہوں کہ اس موسم میں جو گرم کپڑے، دستانے، گرم ٹوپی، مفلر، جرابیں حتیٰ کہ آپ کا پاجامہ بھی روحانی ہونا چاہیے، تب جاکر تبدیلی آپ کو نظر آئے گی ورنہ ممکن نہیں کہ نئے پاکستان میں تبدیلی آپ کو نظر آجائے۔

آ ج سے پانچ برس قبل سرکاری ٹی وی تو کیا تمام نجی ٹیلی ویژن کا خبرنامہ نواز شریف سے شروع ہوتا تھا۔ جب نواز شریف کی خبریں ختم ہو جاتی تو پھر پنجاب کے سابق وزیر اعلی اور میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہبازشریف کا نمبر ہوتا۔ جو وقت باقی بچ جا تا وہ میاں نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار کھا جاتے تھے۔ اس سے بھی پانچ برس قبل چلے جائیں، تو انہی سکرینوں پر آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویزاشرف، بلاول زرداری، آصفہ زرداری اور فضہ گیلانی کا قبضہ تھا۔ اس سے بھی پانچ برس پہلے چلے جائیں تو ہرطرف پرویز مشرف ہی پرویز مشرف تھے۔ چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویزالہی، ظفراللہ جمالی اور شوکت عزیز کا طوطی بو لتا تھا۔ یہ تو کہانی ہے گزشتہ پندرہ برسوں کی۔

شاید موجودہ حالات میں آپ لوگوں نے ٹی وی دیکھنا چھوڑدیا ہے، ورنہ نئے پاکستان میں تبدیلی سے انکار کون کرسکتا ہے۔ ہر خبرنامے کی تان عمران خان سے شروع ہو تی ہے۔ اس کے بعد اصلی شریف النفس عثمان بزداری کی باری ہوتی ہے۔ کوئی تصور کرسکتا ہے کہ پسماندہ جنوبی پنجاب کے سپوت کو ٹی وی پر اتنا وقت دیا جائے گا۔ ہرگزنہیں، لیکن یہ ہے تبدیلی کی اصل برکات کہ اب جنوبی پنجاب جیسے پسماندہ علاقے کے ایک رکن کو بھی ٹی وی پر وزیراعظم کے بعد دیکھایا جاتا ہے۔ کہاں گئے اسحاق ڈار۔ اب ماشاء اللہ ان کی جگہ اسد عمرہیں۔ وہی الفاظ کا گورکھ دھندہ جو نہ پہلے کسی کی سمجھ میں آتا تھا اور نہ اب۔ پہلے اسحاق ڈار کہا کرتے کہ عوام پر بوجھ نہیں ڈالیں گے، اب وہی نعرہ اسد عمر لگا رہے ہیں۔

آپ کو یاد ہوگا کہ میاں نوازشریف نے اپوزیشن کو رام کرنے کے لئے قومی اسمبلی میں کئی ترجمان رکھے تھے۔ دانیال عزیز، طلال چوہدری، عابد شیرعلی، خواجہ آصف، مریم اورنگزیب، محسن شاہ نوازرانجھا اورمائزہ حمید وغیرہ۔ سینیٹ میں بھی کئی لوگ ترجمانی پر مامورتھے۔ اب ماشاء اللہ تبدیلی آگئی ہے۔ بہت سارے ترجمانوں سے قوم کو خلاصی مل گئی ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن کو کرارہ جواب دینے کے لئے ایک ہی ترجمان رکھا گیا ہے۔ ترجمان کیا ہے، بس ہر گھات میں منہ لگاکر یہاں تک پہنچا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات بھی ہیں، جبکہ ساتھ میں اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لینے کی ذمہ داری بھی خوش اسلوبی سے نبھا رہے ہیں۔ فواد چوہدری کی نا تجربہ کار زبان وہ سب کررہی ہے جو گز شتہ تجربہ کار بھی نہیں کرسکے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ کسی زمانے میں بابراعوان، فرحت اللہ بابراور رحمان ملک مل کر گرجتے بھی تھے اور بر ستے بھی تھے۔ لیکن اب ایسا ہر گز نہیں۔ تحریک انصاف کے ساتھ آل ان ون، فواد چوہدری ہے۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور پارلیمنٹ کے باہر سب کو اکیلے جواب دے رہے ہیں۔ یہ تبد یلی اگر آپ کو نظر نہیں آرہی تو یہ آپ کا قصور ہے حکومت کا نہیں۔

اس ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ جب بھی کسی نے افغان مہاجرین کو شہریت دینے کی بات کی ہے۔ اس پر غداری کا فتوی لگا یا گیا ہے۔ اوپن بارڈر تو بہت دور کی بات ہے۔ نئے پاکستان میں کیا یہ تبدیلی آپ کو نظر نہیں آئی کہ عمران خان نے افغان مہاجرین کو شہریت اور افغانستان کے ساتھ اوپن بارڈر کا بیانیہ پیش کیا، لیکن کہیں سے کوئی آوازبلند نہیں ہوئی۔ ہندوستان کو مذاکرات کی پیشکش کی گئی، لیکن کسی نے اف تک نہیں کہا۔ کیا یہ تبدیلی نہیں؟ کیا یہ نیا پاکستان نہیں؟ کیا پرانے پاکستان میں کوئی وزیراعظم اسی طرح کی حماقت کا سوچ بھی سکتا تھا؟

پہلے جب ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا تھا، تو عوام اوراپوزیشن سراپا احتجاج ہوتے تھے۔ اب پیٹرول بم گرائے جارہے ہیں۔ کیا کوئی پارلیمنٹ کے اندر یا باہر احتجاج کرتے نظر آرہا ہے؟ پہلے جب پیٹرولیم مصنو عات کی قیمتیں بڑھ جاتی تھی، تو اس کا اثر براہ راست عوام پر پڑتا تھا، لیکن اب ایسا نہیں۔ اس لئے کہ نئے پاکستان میں پیٹرولیم مصنو عات کی قیمتیں اس لئے نہیں بڑھائی جاتی کہ اس کا بوجھ عوام پر پڑے۔ اسے کہتے ہیں تبدیلی، جو آپ لوگوں کو نظر نہیں آرہی ہے۔ گیس کی قیمتوں میں اضا فہ کیا، اس لئے کیا گیا کہ غریب اس سے متا ثر ہو۔ ہر گز نہیں۔ گز شتہ حکومتیں بجلی کے جھٹکے دیا کرتی تھی، مو جودہ حکومت گیس سے جھٹکے دے رہی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ عوام کو زیادہ تکلیف نہ ہو۔ گیس کی قیمتوں میں اضا فے کا مقصد ہرگز عوام پر بوجھ ڈالنا نہیں۔ بھائی یہ ہے نیا پاکستان۔ یہ ہے تبدیلی کہ گیس کی قیمتیں بڑھیں ضرور لیکن اس کا بو جھ عوام پر نہیں پڑے گا۔ ہے کوئی نظیر آپ کے ساتھ۔ اس ملک کو چھوڑ دو، باہر سے اگر کوئی ہے تو لے آؤ، کہ حکومت نے بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ کیا ہو اور اس کا بوجھ عوام پر نہ ڈالا گیا ہو۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں، ایسا صرف نئے پاکستان میں ہو رہا ہے، اس لئے کہ یہاں تبدیلی آگئی ہے۔

تجاوزات کے خلاف اتنے بڑے پیمانے پر آپریشن جاری ہے۔ کیا اس سے پہلے اس ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا گیا؟ نہیں، ہرگز نہیں؟ اس آپریشن کی بڑی خوبی یہ ہے، کہ یہ ان علاقوں میں جاری ہیں کہ جہاں غریب آدمی نے زمین پر قبضہ کیا ہے۔ آخر غریب کو کس نے اجازت دی ہے کہ وہ زمینوں پر قبضے کریں؟ اگر غریب بھی یہی دھندہ کریگا تو پھر غریب اور امیر، طاقتور اور کمزور میں فرق ہی کیا؟ اس تفریق کو مٹانے کے لئے اور غریبوں کو اوقات یا د دلانے کے لئے ان کے کچھے مکانات اور جھونپڑیاں گرائی جارہی ہے۔ ریڑھیوں کو ہٹا یاجارہا ہے۔ کیوں؟ صرف اس لئے کہ امیر وں کی لینڈ کروزر کے لئے راستہ کشادہ کیا جائے۔

ہم امیروں کے خلاف کارروائی اس لئے نہیں کرتے، کہ قبضے کی زمین پر وہ پلازے تعمیر کرتے ہیں، جس سے غریبوں کے لئے روزگار کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ مگر افسوس کہ یہ بات آپ کی سمجھ میں نہیں آتی۔ آپ لوگ کہتے ہیں کہ بادشاہ کا گھر بھی غیر قانونی ہے۔ وہ محبت کی نشانی ہے۔ ایسی نشانیوں کو مٹایا نہیں جا تا، بلکہ قومی ورثاء کا درجہ دے کر اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔ نئے پاکستان میں تبدیلی آگئی ہے۔ بس آپ تعصب کی عینک اتاردیں۔ دوسرے محفلوں میں جانے سے گریز کریں۔ صرف روحانی محفلوں میں شرکت کیا کریں، جو ہر رات بنی گالہ میں دھوم دھام سے سجائی جاتی ہے، پھر تبدیلی آپ کو خود بخود نظر آئے گی ورنہ بھٹکتے رہو تاریک راہوں میں۔ وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔ آپ کو زلفی بخاری پر بھی اعتراض ہے۔ بھائی وہ ان روحانی محفلوں کا سپانسر ہے۔ آپ کو کیا معلوم کہ ایسے محفلوں پر خرچ کرنے سے کیا کچھ نہیں ہوتا۔ ای سی ایل میں نام تو معمولی بات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).