1973 کا آئین بنانے والوں کا ورثہ کباڑ کی نظر


ہم اپنے ماضی کو دفن کرنے کی لیے بہت سی کوششیں کرتے رہتے ہیں مگر ماضی ہے کہ وہ ہماری جان چھوڑتا ہی نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سیاست، سیاحت اور قومی ورثے کو ہم نے بہت ہی فضول مضمون سمجھ کر مسترد کر دیا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک میں آئین، جمہوریت اور پارلیمنٹ کو کئی بار لپیٹ کر اسٹور میں رکھ دیا گیا۔ کبھی کسی کو آئین برا لگا تو کسی کو کبھی جمہوریت۔ وقت کے بدلتے حالات اور واقعات کی بدولت ہماری ترجیحات بھی تبدیل ہوتی رہیں۔ کبھی قومی ورثہ گٹروں کی زینت بنا، تو کبھی راگ رنگ کو کفر قرار دیا گیا۔

بچپن سے ہی سیاستدانوں کے رویے اور کرپشن کی کہانیاں اور قصے سننے سنتے یہ قوم جمہوریت، آئین اور سیاستدانوں سے بیزار ہو گئی ہے اور ابھی بھی جمہوریت کو مضبوط بنانے والے اور جمہوریت کو خطرہ ہے کہنے والے سیاستدان آپس میں کھیل، کھیل رہے ہیں۔ ملکی تاریخ اور آئین سے 26 سال کے تجربات کے بعد آخر کار 1973 کا آئین وجود میں آیا۔ 1973 کے متفقہ آئین کو بنانے والے پارلیمینٹیرنز پر فخر کرتے ہوئے موجودہ پارلیمنیٹ ہاؤس میں ان شخصیات کے مجسمے بنوا کر جمہوریت کی گلی بھی بنا دی گئی ہے مگر اسلام آباد میں اسٹیٹ بنک بلڈنگ میں واقع آڈیٹوریم ہال جو ماضی میں پارلیمینٹ ہاؤس ہوا کرتا تھا جس کی بینچز پر بیٹھ کر پارلیمنیٹیرنز نے 1973 کا متفقہ آئین بنایا ہم اس ماضی کے ورثے کو کباڑ میں بیچنے کی تیاری کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ کاغذات کو چادروں میں لپیٹ کر ان کی ردی بنا دی گئی ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس بلڈنگ میں موجود اس ہال کو ایک تاریخی ورثے کا نام دے کر میوزیم بنایا جاتا مگر اس ورثے کی اہمیت نا جانتے ہوئے ہم اپنے ماضی کے ورثے کو لنڈے کا مال سمجھ کر بیچنے کو تیار ہیں۔ ہم ملکی ترقی کے لیے ترقی یافتہ ملکوں کی بڑی بڑی مثالیں دیتے نہیں تھکتے مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ان تمام ترقی یافتہ ممالک نے کبھی بھی اپنی تاریخ، سیاست، سیاحت اور قومی ورثے کو بھی نہیں بھلایا اور آج بھی ان کی تاریخی جدوجہد ان کے عظیم لوگ اور قومی ورثہ سونے جواہر کی طرح محفوظ ہے۔ آج بھی وہ اپنے عظیم لوگوں،قومی ورثے پر فخر کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر ہم تو شاید وہ قوم ہیں جس نے اپنے محسنوں کو یا تو قتل کیا یا پھر پھانسی پر چڑھا دیا اور وقت آنے پر ان کے نام کو اپنے مفاد کے لیے استعمال بھی کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بےنظیر بھٹو کے مخالف اور ان پر شدید تنقید کرنے والے بھی آج ان کا نام استعمال کرتے ہوئے نہیں تھکتے اور 1973 کے آئین کی اپنے اپنے مفاد کے لیے تشریح کرتے نظر آئے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم اپنے ماضی سے کچھ بھی سبق حاصل نہ کر پائے نہ ہی جمہوریت کے چیمپئین 1973 کے آئین کو ڈکٹیٹروں کی ترمیموں سے مکمل طور پر آزادی دلا سکے نہ ہی جمہوری روایتوں کا ادراک کر سکے۔

تو پھر کیا گلہ کیا جائے ان جمہوریت کے چیمپئنیوں اور ملک کے وفادر لوگوں سے کہ ان کے ان رویوں کی وجہ سے اس ملک کی سیاست، سیاحت اور قومی ورثے کا یہ حال ہوا ہے۔ جمہوریت پسند سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ جمہوریت کے قومی ورثے کو اہمیت دے کر اس کی حفاظت کریں تاکہ جمہوریت کے اس ورثے کو محفوظ کر کے اپنی آنے والی نسلوں کو فخر سے دکھا سکیں کہ دیکھو یہ ہے ہمارا جمہوری ورثہ کہ اس ملک کے عظیم سیاستدانوں نے یہاں بیٹھ کر 1973 کا متفقہ آئین بنایا تھا تاکہ اس ملک کو جمہوری راہ پر گامزن کر کے اسے ایک مضبوط، خوشحال اور روشن خیال پاکستان بنایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).