داعش، ہم جنس پرستی اور ہم سب


\"husnainچاچا گوکل داس کو رمضان میں کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے پر ایک پولیس اہلکار وحشیانہ طریقے سے مارتا ہے اور بعد میں خبر پھیلنے پر گرفتار ہو جاتا ہے۔ گوکل داس ہندو ہیں۔ ان کے سفید کرتے پر خون کے نشان تھے۔ ہاتھ شدید زخمی تھے۔ چہرے پر شدید دکھ اور کرب کی کیفیت تھی۔ بغیر دانتوں کے، کمزور صحت والے ٹیڑھی میڑھی موٹے کالے فریم کی عینک لگائے ایسے ضعیف محترم انسان کو مارا بھی جا سکتا ہے، ان پر ایسا بے درد تشدد بھی ہو سکتا ہے کہ تصویر دیکھنے والا سکتے میں آ جائے، غم اور افسوس میں ڈوب جائے۔ بہرحال یہ مبارک مہینہ ہے۔ ہم اس کا احترام اپنے طریقے سے کرتے ہیں اور کروانا جانتے ہیں۔

خلیل مسیح قصور میں آئس کریم بیچتے تھے، چند افراد نے انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے سرغنہ کا ماننا تھا کہ مسیحی اچھوت ہیں، انہیں مسلمان بچوں کو کھانے پینے کی چیزیں بیچنے کا کوئی حق نہیں، وہ ناپاک لوگ ہیں۔ شیری رحمان اس طرف بار بار توجہ دلا رہی ہیں، واقعے کا نوٹس سرکاری سطح پر اب تک نہیں لیا گیا۔ یہ واقعہ بھی رمضان المبارک میں پیش آیا۔

پاکستان میں ہونے والے ان دونوں واقعات میں ایک ہندو اور ایک مسیحی نے ہمارے بھائیوں کا حسن سلوک قبول کیا۔ وہ نہ تو خود مقدمہ درج کروا سکے، نہ احتجاج کر سکے، نہ ہی ان کی خاموش آواز ہم تک پہنچ پاتی اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا۔

\"gokalبنگلہ دیش میں ایک آدھ دن پہلے ایک پجاری مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوا، ابھی یہ ہلکی پھلکی موسیقی جاری تھی کہ امریکہ میں بھی یہی سب کچھ ذرا بڑے پیمانے پر ہو گیا۔ ہم جنس پرستوں کے کلب میں فائرنگ کی گئی اور پچاس انسان مار کر، بے تحاشہ لوگ زخمی کر کے قاتل خود بھی پولیس سے مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا۔ قاتل افغان نژاد مسلمان تھا۔

ہم اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں، ہمارا رویہ یکساں ہوتا ہے۔ بات موقعے کی ہے، چاچا گوکل داس بھی مارے جاتے اگر پولیس والے کو غصہ زیادہ آیا ہوتا۔ خلیل مسیح بھی قتل ہو سکتے تھے، ہجوم تو ویسے ہی پاگل ہوتا ہے۔ ان دونوں کو خدا نے بچا لیا، شرمندگی ہمارا نصیب تھی۔

امریکہ میں اس پرتشدد کارروائی کی وجوہات اب تک یہ سمجھی جا رہی ہیں؛

یہ سب افغانستان میں کی گئی کارپٹ بامبنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے لاتعداد جانی نقصان کا حتمی ردعمل ہے۔

مجرم کے والد کہتے ہیں کہ اسے ہم جنس پرستوں سے نفرت تھی۔

چند خبروں کے مطابق مجرم کا تعلق داعش سے تھا اور داعش اس کی ذمہ دار ہے۔

امریکہ میں ذاتی اسلحے پر پابندی نہ ہونا بھی ایسے واقعات کی بڑی وجہ قرار دی جا رہی ہے۔

\"edit\"ایک انسانی جان کا نقصان کائنات کا سب سے بڑا نقصان ہے، کہاں پچاس پچپن سانس لینے والے خون میں نہلا دئیے جائیں۔ اگر یہ افغان جنگ کا ردعمل تھا، تو بھی بہت بے رحمانہ تھا اور ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک طرف شاید مغرب کو یہ باور کرانا مقصود تھا کہ ہم تمہاری بداعمالیوں میں تمہارے ساتھ نہیں ہیں اور دوسری طرف بدلہ بھی لے لیا گیا۔ ذرا ایک مرتبہ غور کر لیجیے یہ بدلہ کس سے لیا گیا؟

بدلہ لینے والا بھی ہم میں سے تھا، بدلہ لیا بھی ہمیں سے گیا۔ مغرب میں اس وقت مسلمان مہاجرین کی ایک کثیر تعداد آباد ہے۔ کچھ ایسے تھے جو ساٹھ ستر کی دہائی میں گئے۔ کچھ اسی نوے کے عشرے میں گئے۔ نوے کے بعد قوانین سخت ہوتے گئے لیکن جانے والے سٹوڈنٹ ویزوں پر یا کوئی بھی جگاڑ لگا کر پہنچتے گئے۔ کچھ تارکین وطن ہیں جن کو حالیہ جنگوں کے بعد پناہ دی گئی ہے۔ وطن ترک کرنے سے بڑی اذیت کوئی نہیں ہے صاحبو۔ ایک پودا جس کی جڑیں دور دور تک زمین میں سمائی ہوں، کڑکتی دھوپ بھی برداشت کر لیتا ہے، آندھیاں بھی سہہ جاتا ہے اور بارشوں کا طوفان بھی اسے کچھ نہیں کہتا۔ وہی پودا آپ دو فٹ چوڑے گملے میں بھی لگا لیجیے، اسے تیز دھوپ ہی مار جاتی ہے۔ جو باہر ہیں، نہ سمجھیے سکون میں ہیں، روزگار کی تلاش ہے یا جان بچانا ہے جو مارے مارے ادھر ادھر پھرے ہیں۔ یہاں سب کچھ میسر ہوتا تو کیوں جاتے۔

جو باہر ہیں وہ بے چارے گملوں میں ہیں۔ تیز دھوپ میں تو وہ پہلے بھی تھے اب آئے روز کوئی نہ کوئی آندھی یا طوفان ایسا آتا ہے جو انہیں جڑ سے اکھاڑنے پر تلا ہوتا ہے۔ ان کی اولاد باہر پڑھنے جاتی ہے، گورا اس سے پوچھتا ہے، اوئے پاکی، تمہارا بم کدھر ہے؟ وہ جہاز میں عربی بولتے ہیں، مسافر ان کو گرفتار کروا دیتے ہیں، وہ ڈاڑھی رکھتے ہیں، نسل پرست حملوں میں انہیں نوچا جاتا ہے۔ ان کے بچے گورے بچوں سے باقاعدہ سہمے ہوئے رہتے ہیں اور ان کی عورتیں لاکھ چاہیں مگر معاشرہ انہیں اب قبول نہیں کرتا۔ یہ سب ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔ اپنے اندر جھانکیے اور سوال پوچھ کر دیکھ لیجیے، آپ کو جواب آئے گا، ارے مار دیا تو کیا ہوا، گے (ہم جنس پرست) ہی تھے نا کم بخت!

\"edit\"یہ جواب جب تک آتا رہے گا تب تک اس قتال کی حمایت جاری رہے گی اور ایسے واقعات بڑھیں گے۔

دنیا میں ایک ہم جنس پرست کو بھی ریاست وہی حقوق دیتی ہے جو ایک عام آدمی کو میسر ہیں۔ ہاں اس کی تعریف میں فرق ہے۔ ہمارا ادب نوخیز لڑکوں، خط سبز والے غلاموں، کم عمر ساقیوں اور عطاروں کی اولاد پر نظر رکھتا ہے جب کہ مغرب میں یہ باقاعدہ ایک جرم ہے۔ اٹھارہ سال سے زیادہ عمر کے بالغ افراد اگر یہ رجحان رکھتے ہیں تو ریاست انہیں اختیار دیتی ہے۔ ان دونوں معاملات میں بہت بڑا فرق ہے۔ انسان کی مرضی کا فرق۔ شخصی آزادی کا فرق، وہ وہاں مقدم ہے۔

مطالبہ یہ نہیں کیا جاتا کہ وہی آزادی ہمارے یہاں بھی ہو، آرزو یہ ہے کہ دنیا کے معاملات کو اس نظر سے دیکھیے جس نظر سے وہ لوگ خود دیکھتے ہیں۔ ہم جنس پرستی کی مخالفت مغرب میں بھی بہت زیادہ ہے، اسے وہاں باقاعدہ طور پر ٹیبو سمجھا جاتا ہے لیکن اگر کوئی ایسا کرنا چاہے تو اسے قتل کرنے کی خواہش تک دل میں کوئی نہیں رکھتا، لوگ جانتے ہیں کہ انسان بہرحال قیمتی ہے۔

مجرم کے باپ کہتے ہیں کہ اسے ہم جنس پرستوں سے نفرت تھی۔ بالکل درست، قابل فہم بات ہے، جہاں ریاست نے آزادی دی ہے وہاں بھی نفرت کی جاتی ہے، لیکن پچاس افراد کو قتل کر دینا اور ان گنت زخمی کر دینا، صرف نفرت کی بنا پر، یہ ممکن نہیں۔ اس نفرت میں تعصب اور شدت پسندی حل ہوتے ہیں تو ایسا جان لیوا عمل وجود میں آتا ہے۔

تیسرا دعوی یہ ہے کہ اس مجرم کا تعلق داعش سے تھا۔ یہ کہہ کر بھی اب ہم جان نہیں چھڑا سکتے۔ داعش مغرب میں اسلامک اسٹیٹ کہلاتا ہے۔ جس طرح ہمارے یہاں ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی ہر بدامنی کے پیچھے اسرائیل اور بھارت کا ہاتھ ہوتا ہے عین اسی طرح نوے پچانوے فی صد گورے بھی اتنی ہی عقل اور یہی ذہن رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں ہر مسلمان داعش ہے اور ہر داعشی مسلمان۔

بازار میں چوہے مار گولیاں ملتی ہیں۔ گندم میں رکھنے والی زہریلی دوا بھی عام رسائی میں ہے۔ مٹی کا تیل اور پیٹرول بوتل میں مل جاتا ہے۔ فارمیسی آپ کو نیند والی دوا کی پوری شیشی بھی دے دیتی ہے۔ کیا آپ ان میں سے کچھ بھی کھا کر یا پی کر خودکشی کر لیتے ہیں؟ نہیں، آپ جانتے ہیں کہ یہ چیزیں نقصان دہ ہیں۔ یہ انسان کی جبلت ہے جو اسے انتہائی کم عمر میں بھی شدید گرم یا شدید سرد چیزوں سے دور رکھتی ہے۔ یہی معاملہ ہتھیاروں کی کھلے عام موجودگی کا ہے۔ امریکی قانون کے مطابق آپ اپنے تحفظ کے لیے اسلحہ رکھ سکتے ہیں، فرض کیجیے امریکہ آج ذاتی اسلحہ بین کر دے تو کیا یہ انسانیت سوز واقعات بند ہو جائیں گے؟ ہرگز نہیں۔ بنیادی تعصبات، تعلیمات اور تہذیبی روایات میں تبدیلی کیے بغیر ایسی امید بھی جائز نہیں۔ انسان قتل کرنا اسلحے کا نہیں ذہنی تربیت کا محتاج ہوتا ہے۔

پانی سر پر سے گزرا کہ گزرا۔ وقت نکلا جاتا ہے ایسے جیسے برف پگھلتی ہے، دنیا بہت ترقی کر چکی ہے، ہمارے وسائل بہت کم ہیں۔ اگلی جنگیں افرادی قوت کے بجائے ٹیکنالوجی سے لڑی جانی ہیں جو ہمارے پاس نہیں ہے۔ آج دنیا کے ساتھ کم از کم ایسا سلوک کر لیجیے کہ کل خاکم بدہن اگر ہم اقلیت میں ہوں تو وہ ہمارے ساتھ کر سکے۔ ظلم کا بدلہ بہرحال سب کی کتابوں میں ظلم ہے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments