محترمہ ماروی اور جناب مولانا۔۔۔ بچوں سے کچھ سیکھیں!
تعصبات کی گرد سے پاک وہ ایک مخلوق ہوتے ہیں جن کی وجہ سے زمین اپنے مدار کے گرد خوشی سے جھومتی ہے۔
جب وہ سوتے میں مسکراتے ہیں تو پوری دنیا کے پھول عہد کرتے ہیں کہ ہم اب پہلے سے زیادہ کھل کر مہک دیںگے۔
دنیا میں ہوا اپنے چلنے کا فیصلہ اس مخلوق کے قہقہوں سے مشروط کرتی ہے۔
وہ سوال کرتے ہیں اور مسلسل سوال کرتے ہیں ۔ اس وقت تک سوال کرتے ہیں جب تک ان کو جواب نہ مل جائے یا ڈانٹ سے خوفزدہ نہ کر دیے جائیں ۔
وہ محسوسات کی دنیا کو کہیں زیادہ محسوس کرتے ہیں۔ وہ برا اچھا سب محسوس کرتے ہیں ۔
وہ کسی کو تکلیف دینے کے بعد معافی مانگنے میں (معافی کا ان کا اپنا انداز ہے) ذرا برابر نہیں شرماتے۔ وہ دل کے بڑے ہوتے ہیں
یہ واحد مخلوق ہے جو مسئلوں کے میسر حل کے بجائے تخلیقی حل سوچتی ہے۔ ایک دو سال کا بچہ جتنے فرضیے قائم کرتا ہے اس کی نسبت آپ کئی گنا کم فرضیے قائم کرتے ہیں۔
بچے راستہ کھوٹا نہیں کرتے۔ سفر جاری رکھتے ہیں۔ چاہے تعلق میں کیسی ہی تلخی کیوں نہ آ جائے دوسرے دن اس کو فراموش کر کے آگے بڑھتے ہیں۔
ماضی کی زنجیروں کو اہمیت نہیں دیتے۔
ذاتی تشخص سے واقف نہیں ہوتے اور گر کچھ واقفیت رکھتے ہیں تو اس کو اہم نہیں سمجھتے۔ سر پر کسی طرح کی حساس دستار نہیں رکھتے نہ ہی پیچیدہ شلوار کی فکر ہوتی ہے
وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا ایسی ہی ہے اور وہ مطمئن روحیں بن جاتی ہیں ۔آپ نہیں بن سکتے ۔ بن سکتے ہیں تو وقتی طور پر، جب آپ پہاڑوں یا سمندر میں چھٹیاں گزارنے جاتے ہیں ۔ وہاں بھی آ پ صرف اس لیے خوش ہوتے ہیں کہ لاشعوری طور پر آپ آگاہ ہوتے ہیں کہ پہاڑ اور سمند ر کچھ زیادہ تبدیل نہیں کیے جا سکتے ۔ ان کو ان کی جگہ سے ہٹانا ناممکن ہے۔ اگر تھوڑا سا بھی امکان ہو کہ پہاڑ ہٹایا جا سکتا ہے تو آپ فورا خلفشار کا شکار ہو جائیں۔ آپ راکا پوشی کو لاہور کے کلمہ چوک میں سجانے پر اصرار کرنے لگ جائیں ۔
بچے امیدوں کے برخلاف کسی واقعہ کے ہو جانے میں ہنسنے یا رونے کا پہلو نکال لیتے ہیں لیکن راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیتے ۔
وہ تبدیلی کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ کسی انتہائی اجنبی فضا میں بھی ایڈجسٹ ہونے کے لیے زیادہ وقت نہیں لیتے جو شاندار ذہانت کی علامت ہے۔
وہ غیر مشروط محبت کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ وہ کھل کر جھپیاں ڈالتے ہیں۔ عاشق ہوتے ہیں۔ محبت کی پھوآر میں بھیگتے ہیں۔
وہ سچے ہوتے ہیں۔ وہ دروازے پر کھڑے مہمان کو کہہ دیتے ہیں کہ پاپا کہہ رہے ہیں کہ وہ گھر پر نہیں ہیں۔
جھوٹ اور دھوکہ دہی کی باریکیوں سے واقفیت نہیں رکھتے۔ کھرے ہوتے ہیں۔
ان میں تجسس سلامت ہوتا ہے۔ وہ جاننا چاہتے ہیں۔ جاننے کے زعم میں مبتلا نہیں ہوتے۔ علم کے سچے متلاشی ہوتے ہیں۔
وہ تخیل میں بہتر ہوتے ہیں۔ وہ تخلیقی ہوتے ہیں رات کو سوتے وقت چاہیں تو تخیل میں ایک پورا شہر اور اس میں ان گنت قسم کی مخلوق تخلیق کر لیں۔ تخلیقی جینئس ہوتے ہیں۔
وہ اعتماد کرتے ہیں۔ تعصب سے بالا، باہم مشاورت کرتے ہیں ۔پر خلوص ہوتے ہیں۔
وہ سائنسی اور عملی فرضیے قائم کرتے ہیں ۔۔ وہ فقط یقین پر انحصار کر کے ہوائی مفروضے قائم نہیں کرتے۔
سادہ زندگی سے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مٹی سے کھیلتے ہیں۔ عاجز ہوتے ہیں
ان کا ساتھی اگر کسی حماقت کا مذاق اڑائے تو اپنی حماقت پر قہقہہ لگاتے ہیں۔ اعلی ظرف ہوتے ہیں
وہ ہنستے ہیں قہقہے لگاتے ہیں ۔ ایک بڑے آدمی کی نسبت دن میں 300 دفعہ زیادہ۔۔
وہ یاداشت کمال کی رکھتے ہیں لیکن یاداشت کسی طرح کی جذباتی بنیادوں سے آزاد مکانی بنیادیں رکھتی ہے۔اسی لیے حقائق کا ادراک کرنے میں بہتر ہوتے ہیں۔ زیرک ہوتے ہیں ۔ ان زیرکوں کو ہم جبرا مافوق الفطرت تصورات سکھاتے ہیں۔ بتانے میں کیا حرج ہے کہ یہ جہاز ہے اور کراچی جا رہا ہے۔ لیکن ہم بتاتے ہیں یہ جہاز ہے اور اللہ میاں کے پاس جا رہا ہے۔
نئے دوست بنانے میں ذرا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے، کھل کر نئے دوست بناتے ہیں اور زندگی جیتے ہیں۔
تعصبات کی گرد سے پاک بچے ہمارے لیے فطرت کا پیغام ہیں۔ اصل تک پہنچنے کا راستہ ہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم بچوں سے سیکھیں۔ بچوں کو پیار جیسے مغالطوں سے نکل کر ان کو ایک شخصیت کے طور پر احترام دیں۔
کیا بچوں سے سیکھنے میں محترمہ ماروی سرمد صاحبہ اور مولانا حمداللہ صاحب پہل کر سکتے ہیں۔
- میری تمام تعارفی شناختیں، پکارتے مظلوم کے پاؤں کی مٹی برابر ہیں - 08/07/2023
- موسم گرما سے محبت کے لیے البرٹ کامیو کے تین مشورے - 25/06/2023
- شاہ کو خبر ہو، تنی رسی پر چلتا کسان گر گیا ہے - 29/08/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).