قصہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے لیے ہمارے ماڈلنگ کرنے کا


ابھی دارالحکومت میں آ ئے کچھ ہی دن گزرے تھے۔ نئی نئی نوکری تھی۔ ایک دن ہمارے باس نے کہا، ایک مشہور ملٹی نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کو ایک وہیل چیئر یوزر ماڈل کی ضرورت ہے۔ وہ کمپنی معذور افراد کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لئے ایک پروجیکٹ شروع کرنے والے ہیں۔ اس پروجیکٹ کی اشتہاری مہم چلانے کے لیے انھیں ایک ماڈل درکار ہے۔ کیا آپ ان کے لئے ماڈلنگ کریں گی؟

ہمارا دل بلیوں اچھلنے لگا۔ اگرچہ اپنے ”حسن و جمال“ (کہنے میں کیا حرج ہے) کے بارے میں ہمیں قطعی کوئی خوش فہمی نہیں رہی۔ لیکن ماڈلنگ اور وہ بھی ایک جانی مانی کمپنی کے لئے۔ کافی پرکشش سوال تھا۔ بظاہر خور کو لاپرواہ ظاہر کرتے ہوئے غیر سنجیدہ انداز میں بولی۔ اگر وہ پیسے دیں گے تو ضرور کروں گی۔ باس بولے، ہاں کیوں نہیں، پیسے تو ضرور دیں گے۔ آپ اپنی کچھ تصاویر اس ای میل ایڈریس پر ارسال کر دیں۔

ہم نے فٹا فٹ دو چار تصاویر ای میل کیں اور دیگر کاموں میں مشغول ہو گئی۔ اگلے ہی دن اس کمپنی کی طرف سے ایک ٹیلیفون کال موصول ہوئی۔ ایک خوش لہان، انگریزی لب و لہجے کی حامل خاتون ہم کلام ہوئیں۔ بولیں، ہمیں آپ کی تصاویر پسند آئیں ہیں۔ اگر آپ کل فارغ ہیں تو ہم اپ کو پک کرنے کے لئے گاڑی بھیج دیں گے۔ ہماری کمپنی کے بلڈنگ میں آپ کا فوٹو شوٹ ہو گا۔ ہمیں بھلا کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ پک اپ ٹائم اور ایڈریس وغیرہ بتا کے فون رکھ دیا۔

ماڈلنگ کے عوض وہ ہمیں کتنی رقم ادا کریں گے یہ پوچھتے پوچھتے ہماری زبان رہ گئی۔ اور نہ ہی ان محترمہ نے ایسا کوئی ذکر کیا۔ ہم نے خوشی خوشی ہہ خبر اپنے ساتھیوں کو بتائی۔ سب نے مبارک بھی دی اور ساتھ یہ بھی بتایا کے پہلے بھی ہماری ایک ساتھی کو اس کمپنی نے کسی پروجیکٹ کی اشتہاری مہم کے لئے بطور ماڈل بلایا تھا اور ایک معقول رقم معاوضے میں ادا کی گئی تھی۔

ہمیں تو ابھی سے اپنی جیبں بھاری محسوس ہونے لگیں۔ اگلے دن خوب تیار شیار ہو کے وقت سے پہلے ہی گاڑی کا انتظار کرنے لگے۔ مقررہ وقت پر یہ لمبی سی گاڑی ہمیں پک کرنے کو ہمارے گھر پہنچ گئی۔ اور یوں ہم ماڈلنگ کرنے کے لیے سدھارے۔

کمپنی کی عمارت کو دیکھ کر دل بہت خوش ہوا۔ وہیل چیئر کے لئے ریمپ بھی تھا اور عمارت کے اندر لفٹ بھی موجود تھی۔ ایک نازک اندام انگریزی مارکہ محترمہ نے ہمارا استقبال کیا۔ خوب میٹھی میٹھی باتیں کیں، ساتھ ساتھ ہمارا فوٹو شوٹ بھی جاری تھا۔ ایک کمرے سے دوسرے کمرے، ایک منزل سے دوسری منزل، کمپیوٹر پر کام کرتے، کولیگز کے ساتھ خوش گپیاں لگاتے، چائے پیتے، غرض ہر ہر پوز میں سینکڑوں تصاویر لی گئیں۔ بھلا ہو ٹیکنالوجی کا جو مفت میں کھٹا کھٹ تصویریں بنتی جا رہی تھیں۔ اگر پرانا ”ریلوں“ والا دور ہوتا تو ہزاروں روپے تصویریں ڈویلپ کروانے پہ اٹھ جاتے۔ (ہائے کاش کے وہی زمانہ ہوتا) کچھ تو خرچا ہوتا ان کا۔

قصہ مختصر، فوٹو شوٹ مکمل ہوا، وہ صاحبہ ہمیں رخصت کرنے دروازے تک آئیں۔ ماڑلنگ کے معاوضے کاپھر کوئی ذکر نہ ہوا اور نہ ہی ہماری مروت نے ہمیں کچھ کہنے کی اجازت دی۔ سوچا شاید دقم کا چیک گھر کے پتہ پر موصول ہو گا۔

کچھ عرصے بعد اتوار کے دن ہماری تصویر بما پروجیکٹ کی تفصیل کے ساتھ تمام نمایاں اخبارات میں چھپی۔ سوشل میڈیا پر بھی بھرپور کوریج ہوئی۔ مبارک باد کے فون آنے لگے۔ اچھا آپ نے ماڈلنگ شروع کر دی ہے؟ کافی پیسے ملے ہوں گے؟ اور ہم تھے کہ اس مفت کی شہرت پر پریشان۔

کچھ دن ہی گزرے ہوں گے کہ پھر سے ایک ای میل آگئی کہ آپ کی تصویر ڑائری اور کیلنڈر پر چھاپ رہے ہیں آپ کو کوئی اعتراض؟ اب کے ہم رہ نہ سکے اور مہذب الفاظ میں عرض کیا۔ بی بی شوق سے چھاپیے۔ لیکن ہمارے علم میں ہے کہ کوئی بھی ادارہ اگر تشہیری مقاصد کے لیے کسی کی خدمات لیتا ہے تو اس کے عوض کچھ دقم کی ادائیگی بھی کرنی ہوتی ہے۔ اس مد میں ہر کمپنی کے پاس ایک خطیر رقم بھی ہوتی ہے۔ اگر آپ کسی پروفیشنل ماڈل کی تصویر لگاتے تو یقینا وہ سب سے پہلے معاوضے کی بات کرتا۔ اس ”فی سبیل اللہ“ خدمات کے لئے ہم معذور ہی نظر آئے آپ کو؟

جواب ندارد۔ ایک دو مہینے کے بعد ایک دوست نے ہمیں ایک ڈائری اور کیلنڈر دکھایا جس پہ ہماری فاٹو چھپی ہوئی تھی۔ دل میں پھر ابال سا اٹھا۔ ان محترمہ کو فون کیا کہ خاتون اگر تصویر چھاپ ہی لی تھی تو ایک کاپی اخلاقاً ہمیں بھی ارسال کر دیتیں تاکہ یادگار رہے۔ اکھڑے سے لہجے میں بولیں۔ بھیج دیں گے۔ ہم بولے شکریہ۔

آج کل مختلف فنگشنز میں کامیاب معذور افراد کو ”موٹیوشنل سپیکر“ کے طور پر بلانے کا فیشن سا چل پڑا ہے۔ لوگ آپ کو بلاتے ہیں اپکی دکھ بھری کہانی آنسوؤں بھری انکھوں سے سن کر خوب تالیاں بجائی جاتی ہیں اور آخر میں آپ کو ”ہیرو“ ثابت کر کے پھولوں کے گلدستے کے ساتھ رخصت کر دیا جاتا ہے۔

آپ کی مفت کی کہانی سے ان کا پروگرام ہٹ ہو جاتا ہے اور آپ سوکھے منہ گھر آجاتے ہیں۔ لوگوں کو ”خود کو استعمال“ کرنے کی اجازت کبھی نہ دیں۔ پہلے خود اپنی ذات کی عزت کریں اور لوگوں سے بھی اپنی عزت اور قدر کروائیں۔ ورنہ ہماری ماڈلنگ کا قصہ تو آپ نے سن ہی لیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).