کلین پاکستان یا قلیل پاکستان


جناب عمران خان صاحب کی کلین اینڈ گرین پاکستان نامی مہم تو بہت پذیرائی حاصل کر رہی ہے۔ اور جس طرح ہر عمر اور طبقہ فکر کے لوگ اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں، یہ جذبہ واقعی وقت کی اہم ضرورت ہے اور بلاشبہ قابلِ تحسین ہے لیکن کیا قلیل پاکستان (آبادی) کے لیے کسی مہم کی چنداں ضرورت نہیں؟ جی ہاں بڑھتی ہوئی آبادی اس وقت اس ملک کو درپیش چیلنجز میں سرفہرست ہے مگر نہ تو میاں نواز شریف کے دور حکومت میں اس ضمن میں کوئی قابلِ ذکر کام ہوا اور نہ ہی عمران خان کی حکومت کے ان چند ابتدائی ہفتوں میں کوئی ایک بھی خبر نظر سے گزری ہے جس میں آبادی کے اس بے قابو جن کو قابو کرنے پہ کوئی ایک بھی پالیسی بنانے کے بارے میں بات ہوئی ہو۔

شاید یہ میری کم عقلی ہے کہ میں ہمیشہ سے ہی وطنِ عزیز کو مسائل میں گھرے دیکھ کر اس کے پچاسی فیصد مسائل کی وجہ آبادی کے اس پھیلاؤ کو سمجھتی ہوں۔ خان صاحب اس کلین اینڈ گرین مہم کے ساتھ ساتھ آنے والے چند دنوں میں اگر آبادی کے مسئلے کو بھی سنجیدگی سے لیں تو یہ صاف اور سرسبز پاکستان کی مہم اور بھی موثر ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ کم آبادی بذات خود ایک آلودگی کم کرنے کا ذریعہ ہے۔ نیز تحریک انصاف کی حکومت نے جو پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا ہے، یہ جذبہ قابلِ قدر ہے مگر اس سکیم کی کامیابی سو فیصد آبادی پر قابو پانے سے ہی منسلک ہے۔ ورنہ جس طرح ہم پاکستانی تعداد میں بڑھتے جا رہے ہیں ان کے لیے پچاس لاکھ تو کیا، آنے والے چند سالوں میں ایک کروڑ نئے گھر بھی کم پڑ جائیں گے۔

مزید برآں ہسپتالوں، سکولوں کی کمی اور غذائی ضروریات کو پورا کرنا اور پاکستان کو ایک بہتر معیار زندگی مہیا کرنا پاکستان جیسے کم وسائل رکھنے والے ملک کے لئے اس شرح افزائش کے ساتھ کم از کم آئندہ دس سال تک ممکن نہیں۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود بھی غذائی اشیاء انتہائی ناقص اور مضر صحت ہیں یہاں تک کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں دودھ جیسی بنیادی چیز خالص تلاش کرنا ایک خواب ہے۔

بیروزگاری کا عفریت ایک اور لعنت ہے، ہر سال لاکھوں ڈگری ہولڈرز مارکیٹ میں داخل ہوتے ہیں لیکن روزگار کے مواقع صرف چند ہزاروں کے لیے ہیں، مزید پڑھے لکھے لوگوں کا رحجان بہتر سے بہتر معیار زندگی حاصل کرنے کی طرف ہے اس لیے جتنے ایک گھر میں کھانے والے ہیں اتنے ہی کمانے والے بھی ہونے چاہئیں کیونکہ ایک طرف مہنگائی تو دوسری طرف اچھے معیار زندگی کی خواہش ہر ایک کو کمانے کی طرف راغب کرتی ہے۔

اس لیے جب تک ایک فوری اور موثر پالیسی وضع نہیں کی جاتی اس وقت تک صرف کلین پاکستان مہم مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتی۔ اس کے لیے ایک قلیل پاکستان مہم بھی ناگزیر ہے۔ ایک عام فہم بات ہے زیادہ آبادی براہ راست آلودگی میں اضافے کا سبب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آبادی پہ کنٹرول صرف ایک حکومت ہی نہیں بلکہ فرد کی انفرادی ذمہ داری ہے لیکن بےجا بڑھتی ہوئی آبادی اور شہروں کے خطرناک حد تک پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے حکومت کو ایک جامع پالیسی ہر حال میں نافذ کرنا ہوگی۔

اور تحریک انصاف کی حکومت نے اگر اس بار بھی میاں عاطف کیس کی طرح نامی گرامی علماء ( جن کے اپنے بچے امریکہ اور برطانیہ سے فارغ التحصیل اور زیر تعلیم ہیں) کے کہنے پر اس قدر سنجیدہ مسئلے سے پیٹھ پھیر لی تو یاد رکھیں ان کی ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کی تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).